• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

تھر ہو کہ چولستان یہ پاکستان کے وہ علاقے ہیں جن میں رہنے والوںکوملک کے اکثر لوگ اپنے سوتیلے بہن بھائی بھی نہیں مانتے۔ میں جب تھر یا چولستان کہتا ہوں تو اس سے میری مراد ہٹے کٹے تازے تنومند وڈیرے، جاگیردار، پٹیل، مہر جی اور میاں، ارباب، سیٹھ، جام نہیں ہیں بلکہ وہ مسکین عوام ہیں جنہیں شاہ لطیف بھٹائی نے مارو کہا تھا۔ مارئی کے مارو۔ اور مارئی کا ملک ملیر۔

سندھ کی طرح تھر بھی دو ہیں۔ ایک وہ تھر جس کی آپ دیدہ زیب پنوں پر رنگین تصاویر، سرکاری سیاحت کے اشتہاروں، بڑے بڑے پروجیکٹوں (جو پروجیکٹ زیادہ تر کاغذوں پر اور باقی تھر کے ماحول کی تباہی کے لئے بنے ہونگے)، یا پھر ٹیلیفون موبائل کمپنیوں کے آسمان سے باتیں کرتے ٹاورز پر یا زیادہ سے زیادہ اس پکے روڈ پر ملیں گی جو زیادہ تر اربابوں یا ملانیوں کے گھروں تک جا ملتےہیں ۔ دوسرا تھر وہ ہے جو اس مشہور گڈی بھٹ ( مٹھی شہر کے پاس ریت کا ایک بڑا تفریحی ٹیلا) کے اس پار یا کوئلے کی کانوں کے اس طرف ملےگا۔ اور یہ وہ تھر ہے جسں کے لوگ خاص طورپر عورتیں خودکشیاں کر رہی ہیں۔ خود کشی کی خبر نہیں بنتی بچوں کی اموات خبر بنتی ہے وہ بھی جب ڈاکٹروں اور صحافیوں کے مال یا پانی پر جھگڑے ہوتے ہیں۔ تھر میں خودکشیاں بالکل ایسے ہورہی ہیں جیسے ماضی قریب میں بھارت میں کسان کر رہے تھے۔ فرق صرف یہ تھا کہ وہاں انوشا رضوی جیسی فلمساز تھی جس نے اس المیے پر طربیہ فلم’’پیپلی لائیو‘‘بنائی تھی۔ لیکن چونکہ تھر فی الحال سندھ کا حصہ ہے اور وہاں پیپلزپارٹی کی حکومت ہے اسی لئے دیر یا سویر یہ فلم بھی حکومت کے گلے میں نہیں تھری عوام کے گلے میں ہے۔ ہوا یہ ہے کہ تھر میں غیر سرکاری ایجنسیوں یا این جی اوز نے (ہو سکتا ہے ان میں سے کچھ کی نیت صاف ہو اور عوامی مفاد میں دلچسپی ہو) نے تھر کی غریب عورتوں کو اپنے پیروں پر کھڑا ہونے کیلئے مائیکرو فنانسنگ کے نام پر قرضہ، نقد یا مویشیوں کی صورت دینا شروع کئے۔ یہ سودی قرضے تھر کےغریب اور بیروزگار (عورتیں تو اکثر ہوتی ہی بیروزگار ہیں جبکہ سارا معیشت کا کام وہی کرتی ہیں) خواتین کو دئیے گئے جو کئی خواتین اور انکے خاندان وقت پر واپس نہ کرسکے۔ گویا یہ تھر نہ ہوا بھارتی فلم ’’بکرا پور‘‘ سے ملتی جلتی کہانی ہوئی۔ تھری عورتوں پر قرضوں کی عدم ادائیگی کی کئی وجوہات تھیں جن میں قحط و خشک سالی جیسی آفات اور ان میں مویشیوں کی اموات بھی تھیں۔ مویشی کیا اس وقت رپورٹوں کے مطابق گزشتہ چند سالوں میں پانچ سو کے قریب بچے مرچکے ہیں۔ تو ایسے میں کوئی چارسو کے قریب لوگوں نے خودکشیاں کی ہیں اور ان میں بھی اکثر تعداد تھری خواتین کی ہے۔ نجی قرضے اور ظالم زمینداروں کی طرف سے تھر کے مسکین لوگوں کی حراسگی کی کئی الگ داستانیں ہیں۔

بقول ایک شاعر(غالباًمعین قریشی):

’’بگاڑ کیا سکتی ہے شہروالوں کا

اک غریب کی بیٹی ہے

زہر کھا لے گی‘‘

گھروں میں کھیتوں پر چھڑکائو کرنے والی دوائیاں غریب تھری عورتوں اور نوجوانوں کی زندگی کے مصائب ختم کرنے کے بجائے انکی زندگیاں ختم کرنے کا آلہ بنی ہوئی ہیں۔ اس سے قبل غریب تھری عورتیں اور نوجوان جن میں وڈیروں کے ہاتھوں تنگ ہوئے ہاری ہوں، کہ ظالم سماج کے مارے ہوئے پریمی جوڑے یا تو کسی درخت سے گلے میں پھندا ڈال کر یا پھر گہرے کنویں میں خود کو ختم کرتے تھے، تھر میں کنویں بہت گہرے ہوتے ہیں۔ یاد ہے! جب ملک کے انقلابی سیاسی رہنما جام ساقی کی بیوی سکھاں نے اس وقت گہرے کنویں میں کود کر خودکشی کی تھی جب اس نے اپنے شوہر کے بارے میں سنا تھاکہ جام کو گرفتار کرکے پکے قلعے لاہور کے عقوبت خانے میں قتل کردیا گیا ہے۔ جام پر لاہور کے شاہی قلعے کے عقوبت خانے میں تشدد ضرور ہوا تھا لیکن تشدد کرنے والے جام کو مار نہ سکے تھے۔ یہ پھر ایک الگ کہانی ہے۔ ایک اور بادشاہی کی۔ لیکن ایک دور آئے گا جب تھر کے چارن ( روایتی رمز یہ قصہ گو۔ اگر بچ گئے تو) جام اورسکھاں کی اور جام کی غریب لوگوں سے محبت کو ضرور گائیں گے۔ جیسے شاہ بھٹائی نے مارئی تخلیق کی تھی۔

ہمارے گیت کار سرمد سندھی نے گایا تھا’’ میرے تھر کا حال مت پوچھ ۔ رو دو گے‘‘ واقعی تھر کا حال اب بھی وہی ہے لیکن اس کارونجھر پہاڑ کے اس پار ہے جس کے پار اب چاچا نواز علی کھوسو بھی نہیں رہا۔’’بیانڈ دی لاسٹ مائونٹین ‘‘ اسی تھر میں کسی زمانے میں اس نام کی فلم جاوید جبار نے اپنی جوانی میں بنائی تھی۔ جاوید جبار جن کو کسی زمانے میں تھر کے اس پار لوگ لوک داستانوں کی طرح یاد رکھتے تھے۔

منفی خبر یہ ہے نہ فقط قرضوں کی ماری ہوئی، زبردستی تبدیلی مذہب کے خوف کی شکار تھری ہندو نوجوان عورتوں نے بھی بڑی تعداد میں خودکشیاں کی ہیں۔ وہ تھر جہاں بٹوارہ کبھی نہیں ہوا تھا۔ 

تھر صرف مٹھی نہیں اور نہ ہی تھر کول کا ایئر اسٹرپ یا سرکاری ریسٹ ہائوسز، فور ویلیز گاڑیاں وہاں یا تو اسمگلروں کی ہیں یا پھر این جی اوز کی۔ تھر دکھ کا صحرا ہے جہاں زندگی ’’تھو‘‘یا ’’اک‘‘کے درختوں اور بوٹوں جیسی زہریلی ہے۔ جس کے زہر سے نجات پانے کو یہ عورتیں اور زہر پی رہی ہیں۔ اصلی والا زہر۔پڑھے لکھے بہت قابل نوجوان ہیں جن پر بے جا الزامات لگائے گئے ہیں۔ جنہوں نے شہربدریاں اختیار کیں۔

مقامی صحافی بتاتے ہیں کہ ان لوگوں نے بھی خودکشیاں کیں جو گائوں گائوں لوگوں کو اس بات پر قائل کرنے گئے تھے کہ محض قرضوں تلے دب جانے پر وہ خودکشیاں مت کریں۔ اشک شوئی تو کوئی بات نہیں ہے جانی (انور پیرزادو)۔

تھر کے اسپتال ایک اور قتل گاہ یا قصائی کی دکانیں ہیں جو تھر کے لوگوں کی طرح مفلوک الحال ہیں لیکن اب انکو رنگ روغن کیا جا رہا ہے۔ پھول پتیاں بوٹے لگائے جار ہے ہیں۔ ایسا کہ کبھی یہاں سینکڑوں بچے مرے ہی نہیں تھے۔ کس کو ماموں بنا رہے ہیںبھائی!

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین