• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
روزآشنائی … تنویرزمان خان، لندن
آج کل پورا یورپ کوئی تیسری دنیا کا ملک دکھائی دیتا ہے۔ فرانس، ہالینڈ، اٹلی ہنگاموں اور مظاہروں کی بھینٹ چڑھے ہوئے ہیں۔ برطانیہ میں کنفیوژ بریگزیٹ نے پارلیمنٹ کے ساتھ ساتھ مجھ جیسے عام شہری کو بھی ہیجانی کیفیت میں مبتلا کر رکھا ہے۔ پیرس کے ہنگامے خانہ جنگی کا سماں پیش کررہے ہیں۔ پورا شہر مفلوج ہے۔ سڑکوں پر آگ اور بڑے بڑے سٹوروں کے شیشے توڑے جارہے ہیں اور لوٹ مار پھیلی ہوئی ہے۔ پٹرول کی قیمتوں میں اضافے اور مہنگائی کے خلاف اٹھنے والے ہنگامے دیکھتے ہی دیکھتے انتہائی پرتشدد شکل اختیار کرگئے ہیں۔ جس میں کئی ہلاکتوں کے علاوہ ہزاروں زخمی اور اپنے اعضا سے محروم ہوگئے ہیں۔ یہ آگ پیرس سے نکل کر کئی شہروں اور پڑوسی ممالک تک جا پہنچی ہے۔ ساتھ ساتھ ٹوئٹر پر خوب گمراہ کن انفارمیشن پھیلائی جارہی ہے۔ انتہا پسند دائیں بازو کے لوگ جوکہ فرانس سے باہر بھی بیٹھے ہیں۔ اس Dis information کے پھیلائو میں سرگرم ہیں۔ بہت سی قوتیں ان ہنگاموں کو اپنے ایجنڈے کے مطابق رنگ دینا چاہ رہی ہیں۔ کہا گیا ہے ایسے نیٹ ورک روزانہ ڈیڑھ ہزار سے زائد پوسٹیں ان فرانس کے ہنگاموں کے بارے میں جاری کررہے ہیں۔ امریکی ایجنسیاں اسے روس کے ساتھ جوڑ رہی ہیں، جبکہ دوسری طرف امریکہ خود بلکہ ٹرمپ بھی میکرون کے خلاف ماحولیاتی معاہدے کے خاتمے کی بات کررہا ہے۔ مظاہرین پیرس ماحولیاتی معاہدے میں دی جانے والی فنڈنگ کے خلاف نعرے بازی کررہے ہیں۔ امریکہ چونکہ ٹرمپ کے اقتدار سنبھالتے ہی پیرس ماحولیاتی معاہدے سے دستبردار ہوگیا تھا۔ اس لئے کہ ٹرمپ ماحولیاتی آلودگی سے جڑے ایشوز کو مصنوعی اور چینیوں کا پیدا کردہ معاملہ سمجھتا ہے۔ اس لئے ان پیلی بنیان والے مظاہرین میں انارکسٹ عناصر کے علاوہ اینٹی امیگریشن اور فسطائیت پسند ہارڈ کور کے لوگ بھی شامل ہوچکے ہیں۔ یہ تحریک چار ہفتے قبل بذریعہ فیس بکAngry Groupکے اکائونٹ سے منظم ہونا شروع ہوئی۔ جس کے اس وقت لاکھوں ممبران ہیں، جن کی تعداد1.7ملین بتائی جارہی ہے۔ ان کا نعرہ اینٹی سرمایہ داری ہے۔ یہ مظاہرین اکتالیس سالہ صدر میکرون کو مٹھی بھر سرمایہ داروں کا ایجنٹ سمجھتے ہیں، وہ سمجھتے ہیں کہ اس کے اقدامات اور پالیسی مٹھی بھر طبقے کو فوائد پہنچانے کے لئے ہے۔ اسی لئے مظاہرین میکرون کے استعفیٰ سے کم کسی چیز پر مذاکرات کے لئے تیار نہیں۔ صدر میکرون نوجوانی کے دنوں سوشلسٹ پارٹی کا ممبر رہا ہے۔ تاہم2016ء میں وہ سوشلسٹوں کو چھوڑ کے ایک معتدل نظریہ رکھنے والی نئی پارٹی بناکے الیکشن میں کود پڑا اور صدر منتخب ہوگیا۔ وہ فرانس کے سابق صدر ڈیگال کے نظریات کا معتقد ہے۔ عمومی طور پر اس سیاسی ابھار کو پورا یورپ اس لئے بھی بہت سنجیدگی سے لیتا ہے کہ سرمایہ داری نظام کے خلاف اٹھنے والی آواز کو ہمیشہ سے ہی کبھی نظر انداز نہیں کیا جاتا۔ اگر یہی فساد کسی نسل پرستی کی وجہ سے ہوتے یا کوئی اور امیگریشن وغیرہ کے ایشو پر ہوتے تو یہ حکومتیں پروا نہیں کرتیں۔ گوکہ اب فرانس کی حکومت نے نہ صرف بڑے پیمانے پر گرفتاریاں کی ہیں۔ تاہم معاملے کو فوری دبانے کے لئے مظاہرین کے مطالبات تسلیم بھی کئے ہیں۔ ادھر برطانیہ نے بھی ان ہنگاموں کی تپش سے دور رہنے کے لئے پہلے ہی پٹرول کی قیمتوں میں کمی کردی ہے۔ تاہم بریگزٹ کی یورپین یونین کے ساتھ ڈیل کی ایسی پیچیدہ صورتحال پیدا ہوچکی ہے کہ برطانیہ میں ہر شخص لمحہ لمحہ خبروں سے باخبر رہنا چاہ رہا ہے۔ ریفرنڈم ایک وزیراعظم کو کھاگیا، اب لگتا ہے ڈیل کسی ٹھکانے لگنے سے پہلے دوسرا وزیراعظم کھا جائے گا۔ تھریسامے اپنی پارٹی کے عدم اعتماد کی انتہائی حساس صورتحال میں سے تو نکلنے میں کامیاب ہوگئی ہیں، لیکن ابھی اسے آنے والے دنوں میں پارلیمنٹ کے عدم اعتماد کی تحریک کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ ابھی بھی یہ نہیں کہا جاسکتا کہ یہ ڈیل بخیریت کسی انجام کو لگے گی یا یہاں بھی ہنگامے بھڑک اٹھیں گے۔ کیونکہ یہاں جس دن سے پارلیمنٹ میں اس ایشو پر بحث جاری ہے۔ ای یو میں رہنے کے حامی اور مخالفین دونوں کے ہجوم مسلسل پارلیمنٹ کے باہر نعرے بازی کررہے ہیں۔ تھریسامے ریفرنڈم کے فیصلے کو عملی جامہ پہنانا چاہتی ہے۔ جبکہ یوکے کی اکائیاں آئر لینڈ اور سکاٹ لینڈ ایسا کرنے کے خلاف ہیں۔ اگر حکومت بریگزٹ کے الٹ کوئی اقدام کرتی ہے تو ریفرنڈم کے فیصلے کے حامی سڑکوں پر آجائیں گے۔ ادھر ای یوکے ممالک بھی ایسا نہیں چاہتے کہ برطانیہ ای یو میں سے نکلے۔ کیونکہ وہاں برطانیہ کے نکلنے کی صورت میں اٹلی، سپین اور پھر فرانس میں ای یو سے نکلنے کی آوازیں اٹھنا شروع ہوگئی ہیں۔ اسی لئے ای یو کے بقیہ27ممالک برطانیہ کو واپسی کے لئے ہر طرح کی مراعات دینے کو تیار ہیں۔ اس بریگزٹ میں برطانیہ اس حد تک تقسیم کا شکار ہوجائے گا، اس کا کسی کو اندازہ نہیں تھا۔ یہ دوسری جنگ عظیم کے بعد برطانوی سیاست کا سب سے بڑا بحران ہے۔ حکومت ڈیل کا مسودہ پارلیمنٹ میں منظوری کے لئے پیش کرنے سے گریزاں ہے، کیونکہ کوئی بھی بریگزٹ کا مسودہ پارلیمنٹ سے منظور ہونے کے امکانات مخدوش ہیں، لیکن اس کے بغیر چارہ کار بھی نہیں ہے۔ اگر مقررہ وقت کے اندر یہ مسودہ منظوری کے لئے پیش نہ ہوگا تو یورپی یونینNo Dealمیں جائے گی، لیکن اس سے پہلے وزیراعظم پر عدم اعتماد ہوجائے گا۔ اس پیچیدہ صورت حال میں تجزیہ نگار سمجھ رہے ہیں کہ بالآخر بریگزٹ کے امکانات کم ہوتے جارہے ہیں۔ برطانوی سیاست نئے انتخابات اور ایک اور ریفرنڈم کی طرف جارہی ہے۔ اگر اسے اس وقت صحیح طریقے سے ہینڈل نہ کیا جاسکا تو آگے آئینی بحران اور امن عامہ کی شدید صورتحال پیدا ہونے کے امکانات شدت سے موجود ہیں۔
تازہ ترین