• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

تحریر: عالیہ کاشف عظیمی

ماڈلز: رخسار اور جوّاد

ملبوسات: کوسین کاظمی کِری ایشن اور حامد سعید

آرایش: ناز

عکّاسی: عرفان نجمی

لے آؤٹ: نوید رشید

وہ بھی کیا حسین دَور تھا، جب شادی کا دِن، تاریخ طے ہوتے ہی دولھا، دلہن کے گھروں کی رونق معمول سے کہیں بڑھ جاتی۔ پھر جوں جوں وقت قریب آتا جاتا، دُور دراز شہروں میں بسنے والے رشتے دار جمع ہونے لگتے، جو مختلف کاموں میں ایک دوسرے کا ہاتھ بھی بٹاتے۔ گھر کے بڑے بوڑھے پیسوں کے جوڑ توڑ میں مصروف نظر آتے، تو خواتین جہیز یا بَری کی تیاریوں میں ہلکان ہوئی جاتیں۔ اور جب سب مل بیٹھتے، تو آپس کی نوک جھونک، ہنسی مذاق، لڑکیوں بالیوں کی شرارتیں، دِل چسپ فقرے بازیاں اور گپ شپ گویا رشتوں میں کچھ اور بھی مٹھاس گھول دیتے۔ تب ڈھولکی کا بھی اپنا ہی مزا تھا۔ ایک سے بڑھ کر ایک گیت، ٹپّے اور ماہیے گائے جاتے۔’’چٹّا کُکڑ بنیرے تے، میرے نیہر سے آج مجھے آیا، بنّو تیری آنکھیں سرمے دانی، بابل تیرے محلاں وِچوں، لٹّھے دی چادر، جیوے بنڑا، دیساں دا راجا، مہندی سے لکھ دو ری، لُڈّی ہے جمالو، کالا ڈوریا، ساری کھیڈ لکیراں دی، اچھے بنّے، بنّو تیرے ابّا کی اونچی حویلی…اور ان جیسے نہ جانے کتنے گیت اُسی دَور کی یادگار ہیں۔

آج، جہاں شادی بیاہ کی تقریبات جدّت میں ڈھل گئی ہیں، وہیں عروسی ملبوسات کے روایتی انداز بھی بہت حد تک بدل گئے ہیں۔ ستّر کی دہائی میں گوٹے کناری سے مزیّن شرارے، غرارے یا پھر شلوار قمیص کا رواج عام تھا، تو رنگوں میں سُرخ، آتشی گلابی اور سبز پسند کیے جاتے۔ اسّی اور نوّے کی دہائی میں مختلف رنگوں میں غرارے، شرارے، لہنگے، ساڑیاں، پشوازیں اور فراکس متعارف کروائے گئے، تو آج عروسی پہناوے باقاعدہ طور پر نہ صرف فیشن انڈسٹری کا حصّہ بن چُکے ہیں، بلکہ ڈیزائنرز ان میں ہر دوسرے تیسرے ماہ نت نئی اختراعات بھی کر رہے ہیں۔

ہماری آج کی بزم عن قریب رشتۂ ازدواج میں منسلک ہونے والوں کے لیے ایک بہت ہی عُمدہ و دِل کش انتخاب سے مرصّع کی گئی ہے۔ ذرا دیکھیے، نیوی بلیو اور سی گرین کے امتزاج میں لمبی گھیردار، ڈبل لئیر فرنٹ اوپن قمیص اور بنارسی ٹیل شرارے کا انداز کیسا شاہانہ لگ رہا ہے۔ قمیص کا اِنر قدرے چھوٹا اور بنارسی فیبرک میں ہے، جب کہ اَپر پر موتی، نگوں اور ستاروں کی ہم آمیزی کے ساتھ سلمے و دبکے کا بھاری کام ہے۔ اُس پر نیٹ کا کام دار اسٹائلش دوپٹا بھی ہے۔ پھر دولھے میاں کے سیاہ رنگ تِھری پیس سوٹ کے بھی کیا ہی کہنے۔ دلہن کا دوسرا ڈبل لئیر شرارہ اسکن، سُرخ اور عنّابی رنگوں کی ہم آمیزی لیے ہوئے ہے۔ شرارے اور قمیص پر زَری کے ساتھ موتی، نگوں اور ستاروں کا انتہائی حسین اور نفیس کام ہے، تو کہیں کہیں چَھن اور سلور، گولڈن بالز کی آرایش بھی کی گئی ہے۔ ساتھ کنٹراسٹ میں سُرخ دوپٹے پر عنّابی رنگ ویلوٹ کی کام دار بیل کی جاذبیت ہے، جب کہ دولھے کا رائل بلیو رنگ ، تھِری پیس سوٹ بھی بہت ہی گریس فُل سا انتخاب ہے۔

ان دِنوں بھیگی بھیگی سردی کے ساتھ شادی بیاہ کا سیزن بھی جوبن پر ہے۔ ان میں سے کوئی سا بھی رنگ و انداز اپنالیں، یوں ہی محسوس ہوگا ؎ دسمبر کے دالان میں دِل کش رنگ بکھر گئے…

تازہ ترین
تازہ ترین