• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ذرائع کے مطابق درسگاہ بنانے کے الزام میں نیب کی طرف سے گرفتار کیے گئے پروفیسر میاں جاوید تین دن لاہور کیمپ جیل کی نیب کے ملزمان کے لیے مختص بیرک میں سینے کی تکلیف کی شکایت کرتے رہے لیکن اُنہیں اسپتال منتقل نہیں کیا گیا۔ دو روز قبل کیمپ جیل کی اسی بیرک میں اُن کا انتقال ہو گیا جس پر جیل کے عملے میں کھلبلی مچ گئی۔ اُنہیں فوری اسپتال بھیجنے کا بندوبست کیا گیا لیکن ذرائع کے مطابق اُس وقت اُن کی موت واقع ہو چکی تھی۔ جیل سے اسپتال منتقل کرتے وقت یا اسپتال پہنچ کر کس وقت انہیں ہتھکڑی پہنائی گئی، اس کا ابھی تک معلوم نہیں ہو سکا لیکن یہ حقیقت ہے کہ میاں جاوید نہیں بلکہ اُن کی میت کو ہتھکڑی پہنائی گئی جو انتہائی شرمناک اور قابلِ مذمت عمل تھا۔ اساتذہ کو اُن کی زندگیوں میں ہتھکڑی پہنا کر ساری دنیا کے سامنے مارچ کروانے کا ذلت آمیز انداز تو پہلے ہی نیب یہاں اپنا چکی تھی جس پر نہ کسی کو سزا ملی، نہ ہی کسی کو نوکری سے نکالا گیا بلکہ معافی مانگنے پر پاکستان کی اعلیٰ ترین عدالت نے متعلقہ نیب افسران کو معاف کر دیا۔ اب تو حد ہی ہو گئی کہ ایک پروفیسر کے مرنے کے بعد اُس کی میت کو ہتھکڑی پہنا ئی گئی اور ابھی تک نہ کسی کو معطل کیا گیا نہ ہی کوئی سوموٹو ایکشن لیا گیا۔ متعلقہ ادارے ایک دوسرے پر ذمہ داری ڈال رہے ہیں اور سب سے زیادہ لاتعلقی اور بے حسی کا اظہار اُس ادارہ نیب کی طرف سے کیا جا رہا ہے جو مرحوم پروفیسر اور ان جیسے لاتعداد افراد کو محض الزام کی بنیاد پر لمبے عرصے کے لیے جیلوں میں ڈالنے کا سبب بن رہا ہے۔ نیب ترجمان کے مطابق‘ مرنے والے میاں جاوید جیل میں تھے نہ کہ نیب کے پاس۔ کوئی نیب سے پوچھنے والا ہے کہ کس کی وجہ سے مرحوم جیل میں پہنچے؟ نہ کوئی ریفرنس بنا، نہ کسی کرپشن کا ثبوت عدالت میں پیش کیا گیا۔ بیچارے میاں جاوید کو نیب نے عادی مجرموں کی طرح پکڑا، اُنہیں ہتھکڑی لگا کر عدالت کے سامنے پیش کرتے رہے، پوری دنیا میں میڈیا کے ذریعے بدنام کیا گیا اور اب کہا جا رہا ہے کہ نیب کا تو کوئی قصور ہی نہیں۔

یہ عجیب طریقۂ احتساب ہے کہ بغیر ثبوت جس کو چاہو، الزام لگا کر پکڑ لو اور پھر مہینوں، سالوں تک جیل میں ڈال دو۔ جیل تو جرم ثابت ہونے پر دی جانی چاہئے لیکن پاکستان کا نظام بھی خوب ہے کہ ملزمان کو کرپشن جیسے مقدمات میں بھی مہینوں بلکہ سالوں جیل میں ڈالنے کے بعد باعزت برّی کر دیا جاتا ہے۔ ویسے نیب کا سارا زور میڈیا کے ذریعے دوسروں کی عزت کو تار تار کرنے تک محدود رہتا ہے لیکن ایسا بھی نہیں کہ نیب کا اپنے تمام ملزمان کے ساتھ ایک سا سلوک ہے۔ میاں جاوید کو تو انکوائری اسٹیج پر ہی گرفتار کر لیا گیا لیکن کتنے ایسے افراد ہیں جنہیں انویسٹی گیشن بلکہ ریفرنس دائر ہونے پر بھی گرفتار نہیں کیا جاتا۔ نیب کے پاس یہ اختیار ہے کہ جسے چاہے گرفتار کرے اور جسے چاہے کھلا چھوڑ دے، جس کے متعلق چاہے کیس کھولے اور اُسے تیزی سے چلائے، جسے چاہے رعایت دے اور اُس کے کیس کی تحقیقات کو سست اور فائل کو دبا دے۔ یہی وہ اختیار ہے جس کا ہمیشہ نیب نے غلط استعمال کیا۔ اسی اختیار کی وجہ سے نیب کو ہمیشہ کبھی ایک سیاسی پارٹی اور کبھی دوسری سیاسی جماعت کے خلاف استعمال کیا جاتا رہا اور یہ سلسلہ اب بھی جاری ہے۔ جو احتساب کے نام پر پاکستان میں ہو رہا ہے اس کی کہیں کوئی مثال نہیں ملتی۔ حیرانی کی بات یہ ہے کہ سپریم کورٹ نے کئی بار نیب سے متعلق اپنے اعتراضات کے باوجود ابھی تک اس ادارے کی زیادتیوں پر قابو پانے کے لیے کوئی حتمی اقدام نہیں کیا۔ پاکستان کے سیاستدان بھی چاہے اُن کا تعلق حکومت سے ہو یا اپوزیشن سے، نیب سے خوش نہیں لیکن اس ادارے کو ٹھیک کرنے کے لیے اُن میں اتفاق نہیں۔ سیاستدان ایک دوسرے کے خلاف نیب کو استعمال کیے جانے پر خوش ہوتے یا خاموش رہتے ہیں مگر جب ان کی اپنی باری آتی ہے تو پھر انہیں خیال آتا ہے کہ اب دیر ہو گئی ہے۔ یہی حال آج کل ن لیگ کا ہے، وہ وقت دور نہیں جب تحریک انصاف والے بھی یہی کہیں گے کہ غلطی ہو گئی، کاش نیب کو ٹھیک کر دیا ہوتا۔

(کالم نگار کے نام کے ساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائے دیں 00923004647998)

تازہ ترین