• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

برطانیہ میں سروسز کٹوتیاں اور ٹیکس میں اضافہ

خیال تازہ … شہزادعلی
برطانیہ میں مرکزی ٹوری حکومت کی جانب سے مقامی کونسلوں کے بجٹس (budgets) میں مسلسل کٹوتیوں کے باعث مختلف سروسز اور ملازمتوں میں لوکل اتھارٹیز بری طرح کٹوتیوں پر مجبور ہورہی ہیں۔ سوشل سیکورٹی نظام روبہ زوال ہے۔ جوزف روونٹری فاونڈیشن کی اسی مہینے کو جاری کی گئی سالانہ رپورٹ کے مطابق برطانیہ کی آبادی کا پانچواں حصہ غربت سے دوچار ہے۔ دنیا بھر میں ماضی میں برطانیہ کے جس سوشل سیکورٹی اور ویلفیئر سپورٹ سسٹم کو ایک مثال کے طور پر پیش کیا جاتا تھا بقول لیبر شیڈو ہاوسنگ منسٹر میلینی اون ایم پی یہ اب تیزی سے ایک فریکچرڈ سسٹم یعنی مجروع ہوتا ہوا نظام ہے۔ وہ ان اعداد و شمار پر تبصرہ کر رہی تھیں جن کے مطابق برطانیہ میں صرف گزشتہ ایک سال میں بے گھر اور ایمرجنسی رہائش گاہوں میں 597 افراد موت کے منہ میں چلے گئے۔ جمعہ 21 دسمبر لندن میٹرو نے یہ رپورٹ کیا ہے کہ انگلینڈ میں پچھلے 5 سال کے عرصہ میں گھروں کے بغیر سونے والوں کی تعداد میں ایک سو بیس فیصد کا اضافہ ہوا ہے۔ اس وقت یوکے میں چوبیس ہزار افراد ایسے ہیں جن کو سونے کیلئے چھت میسر نہیں انہیں برطانیہ میں rough sleepers کہا جاتا ہے۔ قومی محکمہ اعداد و شمار کی بے گھر افراد کی اموات پر اپنی نوعیت کی پہلی رپورٹ میں یہ انکشاف کیا گیا ہے کہ پانچ سال میں اندازا” 2627 افراد موت کے منہ میں چلے گئے۔ بے خانماں لوگوں کی اموات کو ایک نیشنل ٹریجڈی قرار دیا جا رہا ہے۔ موت کے منہ میں چلے جانے والے ایسے افراد کی اوسط عمریں فقط 44 سال تھیں جو کہ دنیا کے ایک امیر ترین ملک میں جہاں پر ہر طرح کی جدید طبی سہولیات موجود ہیں۔ وہاں پر رونما ہونا بذات خود ایک فکر انگیز معاملہ ہے۔ پیر 17دسمبر کے دی ٹائمز نے اسائلم سیکرز کے لیے بھی مختلف کونسلوں میں مرکزی حکومت کی کم ترین امداد اور غیر منصفانہ تقسیم سے پیدا ہونے والے ہاوسنگ مسئلہ پر روشنی ڈالی ہے۔ اعداد و شمار کا مشاہدہ یہ ظاہر کرتا ہے کہ پناہ کے متلاشی افراد کو حدود سے بڑھ کر شمالی لندن کے غریب لیبر ووٹنگ حلقوں میں بھیج دیا گیا۔ اب ایسی کونسلوں کو زیادہ حکومتی امداد کی ضرورت ہے کیونکہ انہوں نے جن مہاجرین کو پناہ دی ہے ان کے بچوں کو تعلیمی سہولیات اور خاندانوں کو عام معاشرے میں تحفظ فراہم کرنا بھی ان کی ذمہ داری بن جاتا ہے جس کے لیے ظاہر ہے کہ زیادہ وسائل معمول سے ہٹ کر درکار ہیں لیکن مرکزی حکومت کی کٹوتیوں سے بلکہ لیبر کونسلیں زیادہ متاثر بتائی جاتی ہیں ۔ جبکہ دی ٹائمز کے مطابق ایس این پی ایم پی برائے کمبرنآولڈ، کلستھ اور کرکاینٹلاچ ایسٹ سٹیورٹ میکڈانلڈ کا کہنا ہے کہ لوکل اتھارٹیز کا سسٹم پر اعتماد ختم ہوگیا ہے۔ گلاسگو، مانچسٹر، وولورہمپٹن اور یوکے بھر کی کمیونٹیز نے پناہ کے متلاشیوں کی مقدور بھر مدد کی مگر گورنمنٹ نے ان کی نہ ہونے کے برابرط اعانت کی۔ اسی روز کے ٹائمز کے ہیلتھ ایڈیٹر اور ڈیٹا ٹیم نے مریضوں کو ملنے والی سپورٹ کی حالت زار کو بیان کرتے ہوئے بتایا ہے کہ ایک ملین معمر افراد ان جگہوں پر رہ رہے ہیں جہاں پراکثر بیڈز کی ریٹنگ ناقص تھی جس باعث کئی مریضوں کو مجبوراً ”اچھی نگہداشت کے لیے اپنے پیاروں سے کئی میل دور منتقل ہونا پڑتا ہے۔ اخبار نے برائن کاکس نامی شخص کی رواداد بھی علیحدہ طور پر شائع کی ہے یہ شخص آٹھ مہینے ایک ناقابل استعمال گیراج میں اپنی ٹوٹی ہوئی ٹانگ کے ساتھ شب بسری کرتا رہا۔ اسے کمر کے درد کے باعث بلڈنگ ٹریڈ چھوڑنا پڑا ۔ اور بے گھر ہوگیا۔ 45 سالہ مسٹر کاکس اور اس کی 31 سالہ گرل فریینڈ شنیل ناوروکی چائے کے لیے پانی گرم کرنے یا بیکن فرائی کرنے کے لیے موم بتی کا استعمال بھی کرنے پر مجبور رہے۔ بعد میں انہیں ایک گیس سٹوو کی سہولت حاصل ہوئی۔ مسٹر کاکس نے اس عرصے کو نہایت مشکل وقت قرار دیتے ہوئے بتایا کہ وہ خوراک کے لیے سنزبری، ٹیسکو اور دیگر دکانوں کے پیچھے بنوں سے اشیا تلاش کرکے بعض اوقات اس طرح زندہ رہنے کے لیے جدوجہد کرتے۔ بالآخر گزشتہ ماہ برسٹل سے ایک چیرٹی نے انہیں ایک ٹینٹ سے ڈھونڈ کرایک محفوظ مقام night shelter پر پہنچایا ۔ لیکن سوال یہ ہے کہ حکومت کے مختلف ادارے ایسے لوگوں کو سروسز دینے میں کیوں ناکام ہو رہے ہیں؟ کہ لوگ خیراتی اداروں کے محتاج ہورہے ۔ قبل ازیں برطانیہ کے موقر کوالٹی نیوز پیپر دی گارڈین نے 3 دسمبر 2018 کی اشاعت میں خبرادر کیا کہ حکمران ٹوری پارٹی کی کٹوتیوں نے نوجوان نسل پر یہ منفی اثرات مرتب کیے ہیں کہ وہ تنہائی، متشددانہ جرائم اور دماغی نوعیت کی بیماریوں میں مبتلا ہورہے ہیں۔ اس سلسلہ کو جاری رکھنے کی اجازت نہیں دی جاسکتی۔ یونیسن کے حوالے بتایا گیا ہے کہ فریڈم آف انفارمیشن ایکٹ کے تحت حاصل کی گئی معلومات یہ ظاہر کرتی ہے کہ 2016 سے 2019 تک کے عرصے میں تقریباً” نو سو یوتھ ورکروں کی ملازمتیں ختم کی گئیں اور ایک سو ساٹھ یوتھ سنٹر ز بند کیےگئے ۔ جب 2012 سے جائزہ لیا جائے تو معلوم ہوگا کہ 45 سو یوتھ ورکرز کی جابز اس عرصہ میں ختم ہوئیں اور 760 یوتھ سنٹرز کی سروسز سے نوجوان افراد محروم کر دیے گئے۔ ٹوریز کے اقتدار میں آنے سے قبل برٹش یوتھ سروس ایک منفرد سروس تھی جسے خود نوجوانوں، مین یوتھ ورکرز، یونینز اورلوکل اٹھاریز نے تعمیر کیا تھا۔ یہ نوجواں کی کئی نسلوں کو انفار مل ایجوکیشن، معلومات اور کارآمد خدمات بہم پہنچاتی رہی ۔ ساتھ ہی حزب مخالف کی بڑی جماعت لیبر پارٹی کا پلان بھی بیان کیا ہے۔ یہ عندیہ ظاہر کیا گیا ہے کہ لیبر نوجوانوں سے متعلق سروسز کی تعمیر نو کرے گی۔ اسی طرح گارڈین نے ہی ایک اور جائزے میں یہ بھی واضح کیا ہے کہ جن جگہوں پر کٹوتیوں کا عمل زیادہ کیا گیا ہے وہ پسماندہ علاقے ہیں اب اگر مزید ریسرچ کی جائے تو یہ چشم کشا حقائق سامنے آئیں گے کہ یہ پسماندہ طبقات کی قابل زکر تعداد اقلیتی طبقوں کی ہے اس امر میں کوئی دو رائے نہیں کہ مرکز میں اگر لیبر پارٹی برسر اقتدار آتی ہے تو وہ نوجوانوں کے لیے کچھ کرنے ک عزم رکھتی ہے مگر صرف نوجوان نسل ہی نہیں ہر عمر کے لوگوں سے متعلق سروسز ٹوری پارٹی کی مختلف حکومتوں میں متاثر ہوئی ہیں جس باعث لوگوں کو لیبر سے بہت امیدیں ہیں لیکن ہوتا یہ ہے کہ یہاں سروسز کو مقامی حکومتوں سے ڈلیور کرایا جاتا ہے اب ماضی میں جب لیبر پاور میں آئی تھی تو اس وقت بھی ری جنریشن کےضمن میں لیبر پارٹی نے وافر فننڈز مہیا کیے جس باعث کئی کونسلوں کی بڑے پیمانے پر تعمیر نو ہوئی یہ وہ کونسلیں تھیں جہاں پر موثر قابل کونسلر تھے لیکن لوٹن جیسی کونسلوں میں جہاں پر اس وقت بھی لیبر اقتدار میں تھی جب مرکز میں بھی لیبر کی حکومت تھی نیو ڈیل کے مد میں پچاس ملین کی خطیر گرانٹ آئی ۔ لیکن اسے کمیونٹی کی بدقسمتی ہی قرار دیا جاسکتا ہے کہ خطیر رقم ملنے کے باوجود لوٹن کی خاص طور پر پاکستانی کشمیری کمیونٹی کی اکثریتی آبادی والے علاقے بدستور پسماندہ ہی رہے ۔ اب بھی چاہے لیبر پھر مرکز میں اقتدار میں آجائے جب تک لوٹن اور اس طرح کی کئی کونسلوں میں پارٹی بعض نااہل لوکل کونسلروں کا کوئی معقول اہتمام نہیں کرتی اقلیتی طبقوں کی اکثریت آبادی والی کونسلوں کی تعمیر نو خواب ہی رہے گا۔ بحرحال یہ تو ایک جملہ معترضہ تھا۔ تاہم عمومی طور پر یہ اقدام خوش آئند ہوگا کہ اگر لیبر پارٹی سروسز کو دوبارہ بحال کرسکے جبکہ موجودہ حکومت کو یہ اجازت نہیں دی جاسکتی کہ وہ مقامی حکومتوں کو مالی خسارہ کے نام پر کٹوتیوں پر کٹوتیاں کرتی رہے جبکہ ایسے جائزے بھی ٹوری حکومت کے لیے خوش آئینی قرار نہیں دیے جاسکتے۔ جن میں یہ واضح کیا گیا ہے کہ کٹوتیوں کے عمل سے مبینہ طور پر لیبر کونسلیں زیادہ متاثر ہوئی ہیں۔ دی انسٹی ٹیوٹ فار فسکل سٹڈیز نے خبرادر کیا ہے کہ سروسز میں شارٹ فالز یہُ ایسا اس لئے ہوررہا ہے کیونکہ فنڈنگز سسٹم میں تبدیلیاں لائی جارہی ہیں۔ 2020 سے کونسلوں کو زیادہ باختیار بنانے کے لیے وہ بزنس ٹیکس اور کونسل ٹیکس پر مزید کنٹرول حاصل کرسکیں گی۔ لوکل کونسلیں فی الوقت 50 فیصد بزنس ریٹس رکھ سکتی ہیں مگر مستقبل میں وہ 75 فیصد تک بزنس ریٹس اپنے پاس رکھ سکیں گی۔ لیکن ریونیو سپورٹ اور دوسری گرانٹس مرکزی حکومت سے نہیں لے سکیں گی۔ آئیڈیا یہ ہے کہ کونسلوں کو اپنے اپنے علاقوں میں زیادہ کنٹرول دیا جائے لیکن نیا نظام کونسلوں کو مشکلات سے دوچار کردے گا۔دی انسٹی ٹیوٹ فار فسکل سٹڈیز کے ڈائریکٹر پاول جانسن کا اس حوالے یہ تبصرہ بھی لائق توجہ ہے کہ یہ منصوبہ کہ کونسلیں زیادہ سے زیادہ فقط کونسل ٹیکس اور بزنس ریٹس پر انحصار کریں یہ بڑھتی ہوئی سوشل کئیر کے ساتھ موازنہ نہیں کرتا ۔ کونسلیں تیزی سے بڑھتی ہوئی ضروریات کو پورا کرنے کے قابل نہیں رہیں گی۔کونسلوں کو فنڈنگ کے دیگر ذرائع کی ضرورت ہوگی۔ لوکل گورنمنٹ ایسوسی ایشن کا اندازہ ہے کہ صرف اگلے سال 3 عشاریہ 2 بلین کے فنڈنگ گیپ کا لوکل کونسلوں کو سامنا کرنا پڑے گا۔ جبکہ کئی کونسلیں پہلے سے ہی اپنی بکس بیلنس کرنے کے لیے سخت جدوجہد کررہی ہیں۔ اضافی رقوم خرچ کرنے کے مسئلہ سے درپیش ہیں اور ایک سال کے بجٹ سے سروسز میں کمی کا رہی ہیں۔ قریب قریب نصف کونسلیں 168 آنے والے سال میں ریونیو سپورٹ گرانٹ فنڈنگ سے محروم رہیں گی۔ جس پر مقامی حکومتوں کے لیڈرز نے مالی امور سے متعلق دشواریوں پر خبردار کیا ہے۔ مالی عدم استحکام کے باعث کچھ کونسلیں اس وقت خطرات سے دوچار ہیں اور بہت سی دیگر معذور، بچوں کے تحفظ، معاشی بڑھاوا، اور مکانات کی تعمیر کے منصوبوں میں تیزی سے دشواریوں کا سامنا کر رہی ہیں۔ فنڈنگ پریشرز اور بالغوں اور بچوں سے متعلق بڑھتی ہوئی سروسز کی ضروریات اور بے گھر افراد کی اعانت جیسے امور انگلینڈ میں لوکل سروسز میں اگلے سال 3.9 بلین فنڈنگ بلیک ہول پیدا کریں گی۔
تھنک ٹینک کا کام یہ ظاہر کرتا ہے کہ مجوزہ پلان پر اگر عمل درآمد کیا گیا تو پھر لوکل ٹیکس ریونیو دیگر سروسز کے کیے 2020 اور 2030 کی دہائی میں دستیاب نہیں ہوگا۔ ایسے سینار یوز سوشل کئیر اور دیگر سروسز کی پیش آمدہ ضروریات کو مدنظر رکھ کرپیش کیے گئے ہیں۔ جیسا کہ نگہداشت کے اخراجات پر کیپ لگانا ہے۔ اس سے سروسز مزید سکڑ جائیں گی۔ جمعہ 14 دسمبر فنانشل ٹائمز نے خبردار کیا ہے کہ اپریل 2019 سے انگلینڈ بھر میں کونسل ٹیکس میں 5 فیصد اضافے کا امکان ہے۔ اور ایسا حکومت کے اس اقدام کے باعث ہورہا ہے کہ وہ 2019 تا 2020 میں لوکل اتھارٹیز کو معمولی اضافی رقم کی فراہمی سے دستبرداری ہے۔ سالانہ فنڈنگ جو گزشتہ روز طے کی گئی ہے سے یہ تخمینہ لگایا جاسکتا ہے کہ ہر کونسل زیادہ سے زیادہ چار عشاریہ نناوے کا اضافہ اختیار کرے گی جس میں دو فیصد بالغوں کی سوشل کئیر کا رنگ فینسڈ (ringfenced) شامل ہے۔ جس کا مطلب یہ ہے کہ یہ گرانٹ صرف مخصوص مقاصد کے لیے ہی استعمال کی جاسکتی ہے۔ اس سے زیادہ اضافہ کے لیے لوکل ریفرینڈم درکار ہوگا۔ جائزہ لگایا گیا ہے کہ یہ اضافہ سالانہ طور پر ایک ڈی بینڈ گھرانے پر 80 پونڈ کا اضافی بل ہوگا۔ فی الوقت یہ 1671 پونڈ ہے ۔مقامی پولیس کی مالی ضروریات پوری کرنے کے لیے 24 پونڈ مزید اضافہ کیا جاسکتا ہے۔ اس کے باوجود دی لوکل گورنمنٹ ایسوسی ایشن کا کہنا ہے کہ ٹیکس میں اضافہ بھی سروسز کو بچانے اور ملازمتوں میں کٹوتیوں کو روکنے کے لیے خاطر خواہ نہیں کیونکہ خسارہ آٹھ سال کا ہے۔ دی گارڈین 4 دسمبر کا مطالعہ یہ واضح کرتا ہے کہ لوکل اتھارٹیز بجٹس میں کٹوتیوں کے باعث کم وبیش 130 لائیبریریاں گزشتہ سال بند کردی گئیں جبکہ 3ہزار رضِاکار (volunteers) باقی ماندہ سروسز کو جاری رکھنے کے لیے بھرتی کیے گئے ۔لوگ قانونی امداد سے لے کر گرین ویسٹ کولیکشنز ، ضائع شدہ کچرا لے جانے کی سروسز تک کو پہلے کی طرح دستاب نہیں پا رہے۔اس تناظر میں لوکل گورنمنٹ ایسوسی ایشن کے الفاظ میں اس خواہش پر اختتام کیا جاتا ہے کہ لوکل حکومتوں میں انویسٹمنٹ سے ہی قوم کی خوشحالی ممکن ہے۔
تازہ ترین