• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پاکستان کی سیاست میں 2018 بہت یادگار سال کے طور پر دیکھا جائے گا۔اس برس ملک کی سیاست میں وہ کچھ ہوا جو اس سے پہلے نہیں ہوا تھا اور جس کے بارے میں بہت سے افراد نے کبھی سوچا بھی نہیں ہوگا۔سیاسی جوڑ توڑ عروج پر رہا۔مسلم لیگ نون اور پاکستان پیپلز پارٹی کو کئی بڑے دھچکے لگے۔انتحابات میںکئی بڑے سیاسی رہنما وں کو شکست کا سامنا کرنا پڑا ۔ بلوچستان اور سینیٹ آف پاکستان میں اہم تبدیلیاں آئیں۔ کئی بڑے سیاسی رہنماوں کو توہین عدالت کے جرم میں سزائیں سنائی گئیں۔نواز شریف اور شہباز شریف سمیت کئی بڑے سیاسی رہنماوں کومختلف مقدمات میں سزائیں ہوئیں اور انہیں جیل بھیج دیاگیا۔

سال کا آغاز ہوا تو مشکلات کی شکار مسلم لیگ نون اور شریف خاندان کے لیے ایک اچھی خبرچکوال سے آئی ۔وہاں 9 جنوری کو ہونے والے ضمنی انتخاب میںپی ٹی آئی کے امید وار کو شکست دے کر نون لیگ کے امیدوار نے بھاری اکثریت سے نشست دوبارہ جیت لی تھی ۔ تاہم اسی روز نون لیگ کو بلوچستان سے یہ بری سیاسی خبر ملی کہ وزیراعلیٰ بلوچستان اپنے عہدے سے مستعفی ہوگئے ہیں ۔پھر 13جنوری کو اسی صوبے سے اسے یہ بری خبر ملی کہ مسلم لیگ ق کے امیدوار وزیراعلیٰ بلوچستان منتخب ہوگئے ہیں۔اس کے بعد مسلم لیگ نون اور نواز شریف کے خاندان کوپے در پےبری خبریں ملتی رہیں۔حتی کہ میاں نواز شریف کو خاندان کے ضمن میں بھی بہت بڑا صدمہ بیگم کلثوم نواز شریف کے انتقال کی صورت میں اٹھاناپڑا۔پھر فروری کے آخری ایام میں الیکشن کمیشن نے نواز شریف کا نام پارٹی صدارت سے ہٹا دیا۔لیکن چند ہی یوم بعد نون لیگ کی مجلس عاملہ نے میاں نواز شریف کو تاحیات قائدبنانے کی منظوری دے دی تھی۔

بدلتی ہوئی سیاست

مارچ میں ملک کی سیاست نے نیا رخ لیا ۔سینیٹ کے انتخابات ہوئے تو کچھ نئے رنگ نظر آئے۔تاہم ان انتخابات میں مسلم لیگ نون نے سبقت حاصل کی،مگر اپوزیشن کے اتحاد کے نمائندے صادق سنجرانی چیئرمین سینیٹ منتخب ہوگئے۔اسی ماہ نون لیگ نے میاں نواز شریف کی نا اہلی کی وجہ سے شہباز شریف کو جماعت کا صدر منتخب کرلیااور دوسری جانب قانونی جنگ جاری رکھی،لیکن سپریم کورٹ نے اپریل کے مہینے میں میاں نواز شریف کی سیاست سے تاحیات نااہلی کا حتمی فیصلہ سنادیا۔

مئی کے مہینے میں پاکستان کی سیاسی تاریخ کا ایک اور اہم باب اس وقت رقم ہواجب وفاقی کابینہ نےفاٹا کو خیبر پختون خوا میں ضم کرنے کے آئینی ترمیمی بل کی منظوری دی جسے بعد میں قومی اسمبلی نے منظورکرلیا تھا۔اسی ماہ کے اواخر میں منتخب حکومت کی پانچ سالہ آئینی مدت مکمل ہوئی اور جمہوری انداز میں انتقال اقتدار کے لیے انتخابی شیڈول جاری ہوا اورسپریم کورٹ کے ریٹائرڈ چیف جسٹس،ناصرالملک نے نگراں وزیراعظم کا عہدہ سنبھالا۔

انتخابات کےجاں گسل مراحل

انتخابی مہم شروع ہوئی تو بعض دل خراش اور اہم واقعات پیش آئے۔لیاری میں بلاول بھٹو کے قافلے پر مخالفین کی جانب سے پتھرائوکا حیرت انگیز واقعہ سامنے آیا۔پشاور میں ایک انتخابی جلسے میں دھماکا ہوا جس میں عوامی نیشنل پارٹی کے امیدوار ہارون بلور سمیت 21افراد شہید ہوگئے۔پھر بلوچستان اور خیبر پختون خوا میں انتخابی ریلیوں پر بموں سے کیے جانے والےحملوں کے نتیجے میں مستونگ میں 130اور بنّوں میں 5افرادشہیدہوگئے۔

ایک جانب انتخابی مہم جاری تھی اور دوسری جانب نون لیگ کی مشکلات بڑھتی جارہی تھیں۔جولائی کے پہلے ہفتے میں نیب نے نوازشریف کےسابق پرنسپل سیکریٹری، فواد حسن فواد کو اربوں روپے کی بدعنوانی کرنے کے الزام میں گرفتار کرلیا۔اسی ہفتے میں وہ فیصلہ بھی آیا جس نے نون لیگ کو ہلا دیا۔احتساب عدالت نے نواز شریف کے خلاف زیر سماعت مقدمے کا فیصلہ سنادیا۔ نواز شریف کوگیارہ، مریم صفدرکو آٹھ اور میاں نواز شریف کے داماد صفدر کو ایک سال قید،165 کروڑ روپے جرما نے، لندن کے فلیٹس ضبط کرنےکی سزا سنائی اور بیٹی، اور دامادکو بھی سیاست کے لیے نا اہل قراردیا گیا۔بعد میں میاں نواز شریف اور مریم کے لاہور پہنچنے پرانہیں گرفتار کر لیا گیا تھا۔پھرکیپٹن ریٹائرڈ صفدربھی گر فتا ر ہوئے۔میاں نواز شریف اور مریم کے لاہور پہنچنےپر نون لیگ کی قیادت کی جانب سےاختیار کی گئی حکمت عملی نے تجزیہ کاروں کے سامنے کئی سوالات کھڑے کردیے تھے۔شہباز شریف سمیت کئی اہم رہنماوں کے ایئرپورٹ نہ پہنچ پانے نےنون لیگ کے اندر اور باہر کئی منفی اشارے بھیجے تھے۔اس وقت ایک رائے یہ سامنے آئی تھی کہ اس حکمت عملی سے جماعت کو انتخابات میں بہت نقصان پہنچے گا ۔ ایک رائے یہ بھی تھی کہ اس روز اس جماعت کے سیاسی مستقبل کا کسی حد تک تعین ہوگیا تھا۔

جولائی کا مہینہ اگرچہ انتخابات کے انعقادکے حوالے سے یادگار تھا،لیکن سیاسی شخصیات کے ضمن میں چند دیگر خبریں بھی سامنے آئیں۔ سابق صدر آصف علی زرداری کانام ای سی ایل میں شامل کیا گیاجسے بعد میں نکال دیا گیا تھا۔نون لیگ کے رہنماحنیف عباسی کو عمر قید کی سزاسنائی گئی۔ ڈیرہ اسماعیل خان میں خودکش حملے کے نتیجے میںپی ٹی آئی کے امیدوار اکرام اللہ گنڈا پور 2ساتھیوں سمیت شہیدہوگئےتھے۔

شکوک و شبہات اور سیاسی کشیدگی کی فضا میں انتخابات کا انعقاد ہوا تو پی ٹی آئی سبقت لے گئی،لیکن کئی بڑے سیاسی بت ٹوٹ گئے۔ کوئٹہ میں اس روز ایک سانحہ ہوا۔ پولنگ اسٹیشن کے باہر ہونے والے خودکش حملے میں 6پولیس اہل کاروں سمیت 32افراد شہید ہو گئے ۔ انتخابات کے بعد اگرچہ پی ٹی آئی ایوان میں سب سے بڑی جماعت بن کر سامنے آئی تھی،لیکن اس کے پاس مطلوبہ تعداد سے کچھ کم اراکین تھے۔ایسے موقعے پر جہانگیر ترین کی سیاسی جوڑ توڑ کی مہارت اور ان کے ذاتی طیارے کا بہت چرچا ہوا اور انہوں نے کام کرکے بھی دکھایا ۔اس ضمن میںچوہدری سروربھی بہت سرگرم رہے۔ پھر وہ منزل آگئی کہ پی ٹی آئی نے سکھ کا سانس لیا اوراس کے سیاسی حریفوںکی امیدوں پر اوس پڑگئی۔ویسے پی ٹی آئی کے سیاسی حریفوں نے سوائے انہونی ہونےکی امید لگانے کےحکومت سازی کے لیے کوئی خاص کوشش نہیں کی تھی۔

لیکن یہ مراحل اتنی آسانی سے طے نہیں ہوئے تھے۔انتخابات کے انعقاد کے دوسرے روز ہی دھاندلی کے الزامات زور و شور سے لگنا شروع ہوگئے تھے۔پی ٹی آئی کے علاوہ زیادہ تر سیاسی جماعتیں انتخابات کے نتائج تسلیم کرنے کو تیار ہی نہیں تھیں اور تحریک انصاف پر بڑے پیمانے پر دھاندلی کرنے کا الزام لگا رہی تھیں ۔ الیکشن کمیشن کے رزلٹ ٹرانسمیشن سسٹم کا اس رات کو اچانک بیٹھ جانا بھی سازش قرار دیا گیا تھا۔ بعض سیاست داں خطرناک اقدامات اٹھانے کی دھمکیاں دے رہے تھے۔اسمبلی میں نہ جانے اور حلف نہ اٹھانے کی باتیں بھی کی جارہی تھیں۔لیکن الیکشن کمیشن نے انتخابات کو شفاف قرار دیا۔پھر وہ مرحلہ بھی طے ہوا اور انتخابات اور پارلیمان کو جعلی قرار دیتے ہوئے بھی سیاست داںپارلیمان اور سیاست میں ایک مرتبہ پھر سے فعال ہو ہی گئے۔اگر چہ جے یو آئی ف کے سربراہ مولانا فضل الرحمن پارلیمان میںجاکر حلف اٹھانے کی سخت مخالفت کررہے تھے،لیکن پارلیمان جانے اور حلف اٹھانے کے لیے حزب اختلاف کو راضی کرنے کے ضمن میں پی پی پی کی قیادت نے اہم کردار ادا کیا،مگر نون لیگ کے ساتھ مل کر وفاق میں حکومت بنانے سے انکارکردیا تھا۔

سوشل میڈیا کا دھمال

آج سوشل میڈیا سیاسی جماعتوں کے نوجوانوں تک پہنچنے کا کام یاب ذریعہ بن گیا ہے۔ووٹ رجسٹر کرانے کی مہم میں بھی سوشل میڈیا نے اہم کردار اداکیا کیوں کہ ہماری آبادی میں نوجوانوں کی تعداد بڑھ رہی ہے اور ان میں بہت سے سوشل میڈیا پر بھی موجود ہیں۔سوشل میڈیا کی وجہ سے بہت سے مسائل بھی سامنے آئے ہیں اور سیاست دانوں سے سوالات بھی کیے جا نے لگے ہیں۔ یہ ایک مثبت پیش رفت ہے۔2018 کےانتخابات کئی لحاظ سے تاریخی تھے جن میں سوشل میڈیا کا عنصر بھی شامل ہے۔آج سوشل میڈیا کے ذریعے یہ جانناآسان ہو گیا ہے کہ کون سی جماعت سب سے زیادہ سرگرم ہے۔ کون سا لیڈر سوشل میڈیا پر دوسروں سے آگے ہے۔ تمام سیاست دانوں کی سوشل میڈیا پر سرگرمیاں بڑھ گئی ہیں۔ انتخابات میں شہباز شریف ،عمران خان،بلاول بھٹواور ان کے رفقاءٹوئیٹر پر خوب متحرک رہےبلکہانہوں نے اپنی ٹیم کو بھی میدان میں اتارہواتھا۔بلاول کی ہر چھوٹی سے چھوٹی بات پہلے ٹوئٹ ہوتی، پھر خبر بنتی۔ ایک رپورٹ کے مطابق عمران خان ٹوئیٹر پر مقبول ترین پاکستانی لیڈر ہیں۔ ان کے 80لاکھ سے زیادہ فالوورز ہیں۔عمران خان وزیر اعظم بننے سے پہلے روزانہ ٹوئٹ کر کے سیاسی اور اہم امور پر اظہار خیال کرتے تھے۔ تحریکِ انصاف نے 2006 میں سوشل میڈیاسیل کی بنیاد رکھی تھی جس کے لیے اب دنیا بھر میں 30 رضاکار کام کرتے ہیں ۔ مریم نواز بھی ٹوئٹر پر خوب متحرک رہیں ۔ جیل جانے سے پہلے وہ ٹوئٹر کے ذریعے اپنے خیالات اور سیاسی عزائم کا اظہار اور دوسروں کے پیغامات ری ٹوئٹ بھی کرتی رہیں۔ پاکستان مسلم لیگ نون کے آفیشل پیج سے بھی انتخابی مہم زور و شورسے چلائی گئی۔ کئی بڑی اور چھوٹی جماعتوں اور ان کے بعض رہنماؤں نے اپنے فیس بک پیج اور ٹوئٹر ہینڈل بنا رکھے ہیں جنہیں باقاعدگی سے استعمال کیا گیا۔ عوام نے بھی اس ذریعہ ابلاغ کو خوب استعمال کیا۔

چونکانے والے انتخابی حقائق

اس بار قومی اسمبلی کے270حلقوں میں انتخابات ہوئےاور2 پر ملتوی کردیے گئے۔ ہر بار کی طرح اس بار بھی تمام سیاسی جماعتوںنے پاکستان اور بہتر سیاسی نظام کے لیے ووٹ مانگا۔ الیکشن ہوئے، خوب سیاسی ہلچل ہوئی اور عمران خان نے اپنی اکثریت کے ساتھ پاکستانی سیاست کو نیا رخ دیا۔ نتائج پر ہزار اعتراض سہی لیکن ایک بار پھر پاکستان میں جمہوری عمل کا تسلسل ثابت کرتا ہے کہ پاکستان کے جمہوری ادارے مضبوط ہو رہے ہیں۔

قومی اور صوبائی سطح پر ہونے والے انتخابات کے نتائج سامنے آئے تو پتا چلا کہ اس معرکے میں جہاں بڑے بڑے سیاسی برج زمیں بوس ہوئے وہیں رائے دہندگان کی طرف سے بھی مختلف اختلافی اور سیاسی رجحانات دیکھنے میں آئے، خاص طورپر کہیں مذہبی جماعتوں کو خوب ووٹ ملا اور کہیں ان کی اہم ترین وکٹیں ہی اڑا دی گئیں۔اس بار ایک خاص عنصر نوجوانوں کی بڑی تعداد کا ووٹر لسٹ میں شامل ہونا تھا۔18 سے 25 سال کی عمر کے ستر فی صد نوجوانوں نے اپناپہلا ووٹ ڈالاتھا۔یقیناً ان 28 ملین ووٹرز کی سوچ پاکستان کا نقشہ بدلنے کی طاقت رکھتی ہے۔اس الیکشن میں 120 سیاسی جماعتوں اور 2 سیاسی اتحاد وں،متحدہ مجلس عمل اور 'گرینڈ ڈیموکریٹک الائنس نے حصہ لیاتھا۔ متحدہ مجلس عمل کے علاوہ 18 سیاسی جماعتوں نے مذہبی بنیادوں پر ووٹ مانگا۔عام خیال تھا کہ ہر بار کی طرح اس مرتبہ بھی عام انتخابات میں مذہبی جماعتیں اپنا ووٹ بینک برقرار رکھیں گی۔ الیکشن میں پاکستان کے نمایاں مذہبی چہرے جمعیت علمائے اسلام کے مولانا فضل الرحمٰن اور جماعت اسلامی کے سراج الحق تھے۔ ساتھ ہی ایک نیا مذہبی 'چہرہ تحریک لبیک پاکستان کے خادم حسین رضوی کی صورت میں اُبھر کر سامنے آیا تھا۔لیکن الیکشن کے 'حیران کن نتائج نے جہاں سیاسی جماعتوں کو سراپا احتجاج بننے پر مجبور کر دیا، وہیں مذہبی رہنماؤں کی شکست ایک سوالیہ نشان ہے۔ خاص طورپر مولانا فضل الرحمٰن کی 2 اور سراج الحق کی اپنی آبائی اور یقینی نشستوں سے ہار خاصی حیرت انگیزتھی۔ ایک طرف ایم ایم اے کے پلیٹ فارم کی بڑی شکست نے سب کو چونکایا ، وہیں تحریک لبیک پاکستان کی بڑے ووٹ بینک کے ساتھ دو صوبائی سیٹوں کا حاصل کرلینا بھی سیاسی تجزیہ نگاروں کے لیے غیر متوقع خبر تھی۔ تحریک لبیک پاکستان 2015 میں سامنے آئی اور یہ اس کا پہلا الیکشن تھا۔ پورے ملک کے 4 فی صد افراد نے اس جماعت کو اپنے ووٹ کا حق دار سمجھا اور مجموعی طور پر اسےپورے ملک میں ساڑھے 5 ملین ووٹ ملے۔ الیکشن کمیشن کی جاری کردہ فہرست کے مطابق یہ ملک کی پانچویں اور سندھ کی تیسری بڑی جماعت بن کر ابھری ہے۔ خیال رہے کہ تحریک لبیک قومی اسمبلی میں کوئی بھی سیٹ حاصل نہیںکرسکی۔

لیاری کی سیٹ سے بلاول بھٹو زرداری کی ہار اور وہاں سے پی ٹی آئی کی جیت نے خود پی پی پی کو بہت کچھ سوچنے پر مجبور کر دیا ہے۔پھر تیر کے نشان کو چھوڑ کر جیپ کو صوبائی نشست دے کر لیاری کے عوام نے اپنا غصہ نکال لیاہے۔ شہر قائد میں تحریک انصاف کے بلے نے سب کی چھٹی کرادی۔ فاروق ستار کی پتنگ اڑ سکی نہ ہی مصطفٰی کمال کام یاب ہوسکے۔ شہباز شریف کو بھی کراچی والوں نے مسترد کردیا اور بلاول بھٹو اپنے گڑھ لیاری میں ہار گئے۔چودہ نشستیں لے کرپی ٹی آئی کراچی کی سب سےبڑی جماعت بن گئی ۔

حکومت سازی کے مراحل

اگست کے وسط میں تحریک انصاف کے نام زد کر دہ افراد قومی اسمبلی کےاسپیکر اور ڈپٹی اسپیکر منتخب ہوگئے تھے۔اس کے بعد تحریک انصاف کے چیئرمین، عمران خان کے وزیراعظم پاکستان منتخب ہونے کی راہیں ہم وار ہوگئی تھیں۔چناں چہ ایسا ہی ہوا اور پی ٹی آئی کے سربراہ نے بہ حیثیت وزیراعظم اور ان کی بیس رکنی کابینہ نے حلف اٹھالیا۔تاہم اس وقت تک پنجاب کے تخت کا فیصلہ نہیں ہوا تھا اور سیاسی جوڑ توڑ عروج پر تھا۔مگر پھر ایک سیاسی دھماکا ہوا اور تحریک انصاف کے عثمان بزدار وزیراعلیٰ پنجاب منتخب ہوگئے۔واضح رہے کہ ان کے نام کے بارے میں خود پی ٹی آئی کے بہت سے اراکین نے بھی کبھی سوچا تک نہیں تھا۔بلوچستان میں تحریک انصاف نےکئی جماعتی اتحاد کے ساتھ مل کر حکومت بنائی۔ سندھ میں پی پی پی کے لیے راستے صاف تھےلہذا مراد علی شاہ گوہر مراد حاصل کرنے میں کام یاب رہے۔کہا جاتا ہے کہ خیبر پختون خوا میں پی ٹی آئی کی اندرونی کش مکش نے عمران خان کو اپنا پسندیدہ آدمی وزیر اعلی نہیں بنا نے د یا اور یوں قرعہ فال محمود خان کے نام نکلا۔

یہ مراحل مکمل ہونے کے بعد اگلا مرحلہ صدر مملکت کے انتخاب کا تھا۔ ستمبر میں تحریک انصاف کے عارف علوی صدر پاکستان منتخب ہوگئے۔ مگر اسی ماہ پی ٹی آئی کو ایک زبردست دھچکا لگا اور نندی پور پاور پروجیکٹ کے بارے میںنیب نے بابر اعوان کے خلاف ریفرنس دا ئر کردیاجس پر وزیراعظم نے ان سے استعفیٰ لے لیا تھا ۔ اسی ماہ سابق خاتون اول بیگم کلثوم نواز لندن میں انتقال کرگئیں۔ ان کی تدفین میں شرکت کرنے کے لیے میاں نوازشریف، مریم اور صفدرکو پیرول پررہاکیا گیا۔

اکتوبرمیں ضمنی انتخابات ہوئے تو قومی اسمبلی میں حکومت کی چھ اور اپوزیشن کی پانچ نشستیں بڑھ گئیں۔تاہم ضمنی انتخابات میں تحریک انصاف اپنی چھوڑی ہوئی تین نشستوں میں سےدو ہی جیت پائی تھی۔لیکن نومبرمیں پنجاب سے سینیٹ کی دو نشستیں تحریک انصاف نے جیت لی تھیں۔

احتساب کا غلغلہ اور مقدمات

انتخابات سے قبل اور ان کے بعد تقریبا پورے سال ملک میں احتساب کا بہت غلغلہ رہا۔اکتوبرکے پہلے ہفتے میں نیب لاہور نے آشیانہ ہائوسنگ اسکیم اسکینڈل میں مسلم لیگ ن کے صدر شہباز شریف کوگرفتار کرلیاتھا۔نومبر کے تیسرے ہفتے میں شریف فیملی کے خلاف 4نئے مقدمات قائم کردیے گئے تھے۔بعض تجزیہ کاروں کے مطابق اگرچہ پاکستان میں حزبِ اختلاف کی سب سے بڑی جماعت، مسلم لیگ نون کی قیادت تو ملک میں تحریکِ انصاف کی حکومت بننے سے پہلے اور اس کے بعد سے مشکلات کا شکار رہی ہے، لیکن اب اس فہرست میں ایوان میں اپوزیشن کی دوسری بڑی جماعت پیپلز پارٹی کی قیادت کا اضافہ بھی ہو گیا ہے۔دسمبر کی چوبیس تاریخ کو نون لیگ کے تاحیات قائد،میاں نواز شریف کے خلاف العزیزیہ اور فلیگ شپ انویسٹمنٹ کے ریفرینسز کے فیصلے آئے جن میں انہیں مزید سزائیں سنائی گئیں۔یاد رہے کہ اس سے قبل ایون فیلڈ اپارٹمنٹس ریفرنس میں نواز شریف کو پہلے ہی سزا ہو چکی ہے۔دوسری جانب پاکستان تحریک انصاف کی حکومت نے دسمبر میںپاکستان پیپلز پارٹی کے صدر آصف زرداری کے خلاف نیویارک میں مبینہ طور پر ایک اپارٹمنٹ کی ملکیت انتخابی گوشواروں میں ظاہر نہ کرنے پر الیکشن کمیشن میں نااہلی کا ریفرینس جمع کروا دیا ہے۔اس کے ساتھ جعلی اکاؤنٹس کے معاملے پر بھی سپریم کورٹ کی جانب سے قائم کی گئی جے آئی ٹی نے اپنی رپورٹ عدالت میں جمع کرا دی ہے اور اس میں بھی آصف زرداری کا نام ہونے کی خبریں پاکستانی ذرائع ابلاغ میں گرم ہیں۔

مسلم لیگ نواز ہو یا پیپلز پارٹی دونوں ہی جماعتیں ان اقدامات کو حکومت کی ’’انتقامی کارروائی‘‘ قرار دیتی رہی ہیں۔ لیکن اس وقت بہت بڑا سیاسی سوال یہ ہے کہ آیا اس مشکل وقت میں یہ دونوں جماعتیں کوئی مشترکہ لائحہ عمل پیش کرنے کا ارادہ رکھتی ہیں یا نہیں۔نون لیگ کے ایک اہم رہنما پرویز رشید کے مطابق ان کی جماعت پی پی پی سے رابطے میں ہے اور دونوں جماعتیں مشترکہ اپوزیشن کا کردار ادا کر رہی ہیں۔پی پی پی کے رہنما شکوہ کرتے ہیں کہ ان کی جماعت کے رہنماوں کے خلاف جو مقدمات بنائے گئے ہیں وہی پی ٹی آئی کےرہنماؤں پر بھی بنتے ہیں، لیکن ان کے خلاف جے آئی ٹی بنتی ہے اور نہ نیب کوئی ایکشن لیتا ہے،یہ صرف ہمیں سیاسی طور پر نشانہ بنا رہے ہیں۔ان حالات میں شاید دونوں جماعتیں چاہیں کہ وہ فوراً سڑک پر آ کر اپنا احتجاج ریکارڈ کرائیں، لیکن ان کے لیے ابھی شاید ایسا کرناممکن نہیں ہوگا۔

ادہرسندھ کی سیاست میں روز بہ روز ڈرامائی تبدیلیاں ہورہی ہیں۔صوبے میں پاکستان پیپلز پارٹی باآسانی حکومت بنانے میں کام یاب تو ہوگئی، مگر اس کی قیادت کافی پریشان نظر آرہی ہے۔ منی لانڈرنگ کیس میں آصف علی زرداری کے قریبی ساتھی انور مجید اور بیٹے عبدالغنی مجید کی گرفتاری کے بعد سندھ کی بہت سی اہم سیاسی شخصیات احتساب کے خوف سے پریشان دکھائی دیتی ہیں۔منی لانڈرنگ کیس میں سابق صدر آصف علی زرداری اور فریال تالپور کا نام بھی ہے۔ پہلے تو پیپلز پارٹی کے رہنماؤں نے اس خبر کی تردید کرتے ہوئے اپنی توپوں کے رخ میڈیا کی طرف کر دیے اور میڈیا پر الزام لگایا کہ میڈیا جھوٹی اور من گھڑت خبریں چلا رہا ہے۔ مگر ایف آئی اے کے بار بار طلب کرنے کے بعد بالآخر آصف علی زرداری اور فریال تالپور کو ایف آئی اے کے سامنے پیش ہونا ہی پڑا۔ اب پیپلز پارٹی میں گرفتاریوں کا خوف پھیلا ہوا ہے۔کہا جارہا ہے کہ اگرپارٹی کا کوئی اہم رہنما گرفتار ہوگیا تو سندھ کی سیاست میں ڈرامائی تبدیلی آئے گی۔ یہ بھی کہا جارہا ہے کہ بہت سے ارکان سندھ اسمبلی بغاوت کے لیے تیار ہیں۔ ہالا سے پیپلز پارٹی کی ایک اہم شخصیت کسی بھی وقت 25 سے 30 اراکین کے ساتھ ہم خیال گروپ بنا کر سندھ میں پیپلز پارٹی کی حکومت کا تختہ الٹ سکتی ہے۔سندھ میں احتساب کا جھاڑوپھرے گاتو بہت سے اراکین نااہل بھی ہوں گے اور بہت سے ہم خیال گروپ بنا کر پیپلز پارٹی سے بغاوت بھی کر دیں گے۔ پیپلز پارٹی کے کئی اراکین ڈاکٹر ذوالفقار مرزا اور فہمیدہ مرزا سے رابطے میں ہیں۔کہنے والے کہتے ہیں کہ تحریک انصاف، ایم کیو ایم اور جی ڈی اے وفاقی حکومت میں اتحادی ہیں اور یہ اتحاد سندھ میں بھی مضبوط ہو رہا ہے۔ یہ اتحاد اور پیپلز پارٹی کا ہم خیال گروپ مل کر سندھ میں حکومت قائم کر لے گا۔ پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری سندھ کی بدلتی سیاسی صورت حال سے پریشان ہیں،انہوں نے سندھ میں تنظیمی سیٹ اپ بدلنے کا بھی عندیہ دیا ہے ،مگر اب بہت وقت گزر چکا ہے۔ پیپلز پارٹی کے سینئر رہنما شرجیل میمن اور ڈاکٹر عاصم حسین بھی کرپشن کےمقدمات کا سامنا کر رہے ہیں ۔ سندھ کے سابق وزیر قانون ضیا الحسن لنجار بھی نیب کی پیشیاں بھگت رہے ہیں اور آنے والے دنوں میں سندھ میں احتساب کی لہر میں تیزی آنے کا امکان ہے جس کے بعد سندھ میں مزید ڈرامائی تبدیلیاں دیکھنے کو ملیں گی۔

آنے والے چند روز پاکستان کی سیاست کے لیے کافی اہم نظر آتے ہیں جس کے نتیجے میں ملک کی سیاست اہم رخ اختیار کرسکتی ہے۔بعض ذرایع کے مطابق چند روز میں سابق صدر اور پیپلزپارٹی کے شریک چیئرمین آصف علی زرداری بھی گرفتارہوسکتے ہیں اور قومی اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر شہباز شریف کو رہائی مل سکتی ہے۔ نواز شریف کے نیب کیس العزیزیہ اور فلیگ شپ ریفرنس کافیصلہ 24 دسمبر کوسنایاجاچکا ہے۔ اس کیس کے حوالے سے زیادہ تراس بات کا امکان ظاہر کیاجارہاتھاکہ فیصلہ نواز شریف کے خلاف آئے گااور نواز شریف دوبارہ گرفتار کرلیے جائیں گے اور ایسا ہی ہوا۔ دوسری جانب سابق صدر آصف علی زرداری جو سندھ میگا منی لانڈرنگ اسکینڈل میں ضمانت پر ہیں‘ ان کی ضمانت اگلی پیشی پرمنسوخ ہونے کا امکان ہے ‘ جس کے نتیجے میں وہ گرفتار ہوسکتے ہیں۔ ذرایع کے مطابق پیپلزپارٹی کی قیادت نے آصف علی زرداری کی متوقع گرفتاری سے متعلق سرجوڑ لیے ہیںاور بڑے پیمانے پر قانونی ماہرین سے رابطے اور مشاورت شروع کردی گئی ہے۔واضح رہے کہ وفاقی وزیر اطلاعات فواد چوہدری، وفاقی وزیر ریلوے شیخ رشید سمیت پی ٹی آئی کے متعدد رہنما مسلسل یہ دعویٰ کرتے رہے ہیں کہ آصف علی زرداری نیا سال جیل میں گزاریں گے اور ان کی سیاست اب ختم ہوچکی ہے ۔لیکن دیکھنا یہ ہے کہ 2019میں کون اور کیسی سیاست کرتا ہےاور کس کو کس قسم کی مشکلات کا سامنا کرنا پڑے گا۔

تازہ ترین