• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

سپریم کورٹ میں زیرسماعت جعلی اکاؤنٹ کیس کے حوالے سے پیش کی گئی جے آئی ٹی رپورٹ کی بنیاد پر سندھ میں پیپلز پارٹی کے رہنماؤں، ارکان اسمبلی، بیورو کریٹس، بینک حکام، تاجروں اوردوسرے افراد پرمشتمل172شخصیات کے نام ایگزٹ کنٹرول لسٹ میں شامل کرنے کے فیصلے سے ملک میں سیاسی محاذ آرائی کاماحول مزید گرم ہوگیا ہے۔اپوزیشن اسےانتقامی کارروائی قراردے رہی ہے جبکہ حکومت کاموقف ہے کہ یہ فہرست عدالت عظمیٰ کے حکم پرقائم ہونے والی کمیٹی کی تیارکردہ ہے،اسی کی سفارش پر یہ اقدام اٹھایاگیا۔جعلی اکاؤنٹس کیس منی لانڈرنگ کے حوالے سے ایک سنگین معاملہ ہے اوروزیراعظم عمران خان نے اسلام آباد میں صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے یہ کہہ کر اس کی اہمیت دوچند کردی ہے کہ حکومت منی لانڈرنگ کے خلاف ملکی تاریخ کاسب سے بڑا آپریشن کرنے جارہی ہے، ڈالر کی اسمگلنگ کرنے والے اپنے دن گننا شروع کردیں۔سندھ سے اس سلسلے میں چیخوں کی آوازیں آنا شروع ہوگئی ہیں۔پیپلزپارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو نے لاڑکانہ میں ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے ای سی ایل لسٹ پر تنقید کرتے ہوئے اسے یک طرفہ احتساب قراردیا جبکہ سابق صدر آصف زرداری نے گھوٹکی کے جلسہ عام سے خطاب میں کہا کہ صوبوں کو بنیادی حقوق سے محروم کردیاگیا ہے،ہم حکومتی کارروائیوں کاڈٹ کر مقابلہ کریںگےاور بات چل نکلی تو بہت دور تک جائے گی۔مسلم لیگ ن کے رہنماؤں نے بھی متذکرہ لوگوں کے نام ای سی ایل میں ڈالنے کی مذمت کی ہے۔وفاقی وزیراطلاعات نے کہاہے کہ ای سی ایل میں ان لوگوں کے نام ڈالنے کافیصلہ تحقیقاتی ایجنسی کرتی ہے جن کے خلاف وہ تحقیقات کررہی ہوتی ہے۔پی ٹی آئی کے لیڈر ای سی ایل میں نام آنے پر وزیراعلیٰ سندھ مراد علی شاہ کے استعفے کا مطالبہ کررہے ہیں جس کے جواب میں پیپلزپارٹی کاکہنا ہے کہ نیب میں وزیراعظم عمران خان کا کیس بھی ہے ان کا نام بھی ای سی ایل میں ڈالاجائے۔ تجزیہ کاروں کی رائے ہے کہ کرپشن اورمنی لانڈرنگ کے کیس اب تک مسلم لیگ ن اور پیپلزپارٹی کے لوگوںتک محدود ہیں لیکن جلد ہی ان کادائرہ تحریک انصاف کے لیڈروں تک پھیلنے والاہےوجہ اس کی یہ ہے کہ فریقین منی لانڈرنگ اورای سی ایل میں ناموں کی شمولیت کوسیاسی معاملہ بنا رہے ہیں۔پیپلزپارٹی کابیانیہ ایسا ہے جیسے جے آئی ٹی رپورٹ کے الزامات میں کوئی حقیقت ہی نہیں۔یہ صرف سیاسی الزامات ہیں ۔اس کے مقابلے میں حکومت کا موقف ایسا ہے جیسے جے آئی ٹی رپورٹ کوئی عدالتی فیصلہ ہے اورملزمان پرجرم ثابت ہوگیا ہے کیونکہ اس کی تشہیراسی انداز میں کی جارہی ہے جبکہ حقیقی صورت حال یہ ہے کہ جے آئی ٹی نے اپنی رپورٹ میں172افراد کے نام ای سی ایل میں ڈالنے کی صرف سفارش کی ہے،کوئی حکم نہیں دیا۔حکم صرف عدالت دے سکتی ہے۔جس نے ابھی کیس کی سماعت کرنا ہے۔قانونی ماہرین یہ بھی کہتے ہیں کہ نام ای سی ایل میں ڈالنے کا ایک قانونی اورجمہوری پراسیس ہوتاہے۔حکومت نے یہ پراسیس مکمل ہی نہیں کیا۔ابھی تو یہ معاملہ عدالتی عمل کے لحاظ سے ابتدائی مرحلے میں ہے۔وفاقی وزیراطلاعات نے بھی تسلیم کیا ہے کہ نام ای سی ایل میں ڈالنا ایگزیکٹو فیصلہ ہے،عدالتی نہیں۔ایسےمیں ضروری تھا کہ عدالتی فیصلے کاانتظار کیاجاتا۔سیاسی لیڈر کوقانونی جنگ کے ساتھ عوامی جنگ بھی لڑنا پڑتی ہے۔جن کے نام ای سی ایل میں ڈالے گئے انہیں قانونی جنگ لڑنے کاحق ہے اوروہ لڑیں گے۔تاکہ عوام میں یہ تاثر نہ پیدا ہو کہ دال میں ضرور کچھ کالاہے۔اس کے ساتھ ہی حکومت کو ایسی حکمت عملی اختیار کرنا چاہئے جس سے اس طرح کے معاملات میں سیاسی مداخلت نظر نہ آئے۔حکومت ایسی پالیسی نہیں بناسکی جس سے اس معاملے میں انتقام اورغصے کی کیفیت نظر آتی ہے۔وہ یہ تاثر دورنہیں کرسکی کہ اس نے اپوزیشن کو دبایاہوا ہے۔ضرورت اس بات کی ہے کہ احتساب کے عمل میں اعتدال اورتوازن قائم کیا جائےتاکہ قانونی معاملات سیاست کی نذر نہ ہوجائیں۔

تازہ ترین