• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

2018ء ختم ہوا، کل صبح 2019ء کا سورج طلوع ہوگا۔

آئیں جشن منائیں سالِ نو کا! ہمیں اس بات سے کیا کہ ہمارے ملک میں 71سال بعد بھی کوئی نظامِ حکومت طے نہیں ہو سکا ہے۔ آج بھی 18ویں آئینی ترمیم کو ختم کرنے اور وفاقی پارلیمانی جمہوری نظامِ حکومت کی جگہ صدارتی یا وحدانی طرزِ حکومت کی باتیں ہو رہی ہیں۔

بعض قوتیں ایسی ہیں، جو 18ویں آئینی ترمیم اور صوبوں کی زیادہ خود مختاری کو ملک کی سلامتی کے لئے خطرہ قرار دے رہی ہیں، ان کے برعکس کچھ قوتیں ایسی ہیں، جو خبردار کر رہی ہیں کہ 18ویں آئینی ترمیم کو اگر چھیڑا گیا تو وفاقِ پاکستان کو برقرار رکھنا مشکل ہو جائے گا۔ دونوں طرف سے ملک کی سلامتی کو درپیش خطرات کی نشاندہی ہو رہی ہے۔ دونوں طرف سے کوئی بھی اپنے مؤقف سے ہٹنے کے لئے تیار نہیں اور دونوں طرف سے اپنی اپنی تلواریں نیام سے نکالنے کی ہدایات جاری کی جا رہی ہیں۔ 71سال پرانی یہ جنگ سالِ نو میں نئی شدت کیساتھ لڑے جانے کے حالات پیدا ہو چکے ہیں۔

آئیں جشن منائیں سالِ نو کا! ملک میں سیاسی عدم استحکام کا سالِ نو میں ہی ایک نیا دور شروع ہونے والا ہے۔ پاکستان کی بڑی سیاسی جماعتوں کے رہنمائوں کے خلاف کرپشن کے مقدمات تیزی سے اپنے فیصلوں کی جانب بڑھ رہے ہیں۔ اس بار ان حلقوں کو بھی سیاسی نتائج کی پروا نہیں ہے، جو پہلے کبھی بھی سیاسی عدم استحکام کے نتائج کو خاطر میں نہیں لائے اور اب وہ حلقے بھی سیاسی عدم استحکام کے خطرناک نتائج کے بارے میں خبردار کرنے سے قاصر ہیں، جو پہلے کبھی کھل کر اور کبھی دبے دبے الفاظ میں ریکارڈ درست رکھنے کے لئے بات کر لیتے تھے۔

ماضی میں یہ حلقے سیاست دانوں کے دفاع میں آگے آتے تھے کیونکہ سیاست دانوں کے ہاتھ صاف ہوتے تھے۔ یہ حلقے اس وقت یہ بات کہنے کی پوزیشن میں تھے کہ غیر سیاسی قوتوں کا احتساب کیوں نہیں ہو رہا۔ اگرچہ غیر سیاسی قوتوں کا آج بھی احتساب نہیں ہو رہا لیکن سیاست دانوں کے اعمال کی وجہ سے اس حقیقت کا کوئی تذکرہ بھی نہیں کر رہا۔ 71سال پہلے سیاسی قوتوں کے احتساب کے ذریعہ سیاست اور سیاسی تحریکوں کو ختم کرنے کے لئے جو منصوبہ بنایا گیا تھا، وہ سیاست دانوں کی کمزوریوں سے پایہ تکمیل کو پہنچ رہا ہے۔ 2019ء حقیقی معنوں میں سیاسی قیادت کے بحران کا سال ہے جبکہ کوئی بھی سیاسی تحریک اس ملک میں نہیں ہے۔ حالانکہ اس نئے سال میں بہت بڑی علاقائی اور عالمی تبدیلیاں رونما ہونے والی ہیں۔ سیاسی عدم استحکام کے خطرناک نتائج کا اب پتا چلنے والا ہے۔

آئیں جشن منائیں سالِ نو کا! 1950ء کے عشرے میں پاکستانی معیشت کی تنزلی کا جو عمل شروع ہوا تھا، وہ اپنی اتھاہ گہرائیوں تک پہنچ چکا ہے اور ایک لاوے کی شکل میں پھٹنے والا ہے۔ یہ سماجی انتشار، افراتفری اور انارکی کا لاوا ہے۔ چین، سعودی عرب، متحدہ عرب امارات سمیت پاکستان کے دیگر دوست ممالک اس معاشی بحران سے نکلنے کے لئے جو مالیاتی پیکیج دے رہے ہیںِ وہ پاکستان کی موجودہ خارجہ اور داخلہ پالیسیوں میں یکدم تبدیلی کے لئے ہیں، جس کے خطرناک نتائج ہیں اور دوسری طرف امریکہ اور اس کے حواری یعنی پاکستان کے ’’پرانے دوست‘‘ پاکستان کی پالیسیوں میں تبدیلی کے امکانات کے طور پر پاکستان کو سبق سکھانے کی منصوبہ بندی کر رہے ہیں۔ وہ اس کے لئے آئی ایم ایف کو استعمال کریں گے۔ اس کے ساتھ ساتھ اپنی دیگر کارروائیاں بھی جاری رکھیں گے۔ سالِ نو پاکستانی معیشت کے لئے اس لئے بھی زیادہ چیلنجز کا سال ہو گا کہ ہمارے معاملات کو چلانے والا کوئی فیصلہ کرنے کی پوزیشن میں نہیں ہے۔

آئیں جشن منائیں سالِ نو کا۔ پاکستان میں گزشتہ چار دہائیوں سے جاری بدامنی پر قابو نہیں پایا جا سکا۔ 1980ء کے عشرے میں کراچی میں بم دھماکوں اور نامعلوم افراد کی فائرنگ سے منظم دہشت گردی کا جو سلسلہ شروع ہوا تھا، اس نے بعد ازاں پورے ملک کو اپنی لپیٹ میں لے لیا تھا اور 2001میں امریکہ میں نائن الیون کے واقعہ نے پاکستان میں دہشت گردی کی معیشت قائم کر دی اور اس سے مختلف قوتوں کا مفاد وابستہ کر دیا۔ آج پاکستان میں امن کا وہ تصور نہیں ہے، جو بدامنی کے شکار بدقسمت لوگوں کے ذہنوں میں ہے۔ بلکہ امن کا تصور عظیم قومی مفادات سے جڑا ہوا ہے۔ اس تصور کے ساتھ سالِ نو میں ہم داخل ہو رہے ہیں، جب ہمارا خطہ ایک بار پھر عالمی طاقتوں کا میدان جنگ بننے جا رہا ہے۔

آئیں جشن منائیں سالِ نو کا! ہماری سرحدوں پر جنگ کے بادل منڈلا رہے ہیں۔ مغربی سرحدوں پر صورتحال یہ ہے کہ امریکہ اچانک افغانستان سے نکلنے کی منصوبہ بندی کر رہا ہے۔ اس سے زیادہ شدید بحران پیدا ہونے کا خدشہ ہے، جو سوویت یونین کے افغانستان سے نکلنے کی وجہ سے پیدا ہوا تھا۔ مقبوضہ کشمیر میں بھارتی افواج کی جارحیت عروج پر ہے۔ ہماری مشرقی سرحدوں پر سخت کشیدگی ہے۔ دوسرا ہماری پالیسیوں کی وجہ سے ہمارے پڑوسی ایران کے ساتھ ہمارے تعلقات زیادہ بہتر نہیں رہے۔ آج تک ہم یہ طے نہیں کر سکے کہ ہماری خارجہ پالیسی کیا ہو گی۔ جنہیں ہم دوست تصور کرتے ہیں وہ ان سے زیادہ قریب ہونے کی کوشش کر رہے ہیں، جنہیں ہم اپنا دشمن تصور کرتے ہیں۔ نئی صف بندی میں ہم اپنی پوزیشن واضح نہیں کر پا رہے۔ سالِ نو میں افغانستان میں عدم استحکام کا اٹھنے والا امکانی طوفان ہمارے داخلی استحکام کی بنیادوں کو متاثر کر سکتا ہے اور اس کے لئے ہم نے کوئی تیاری نہیں کی ہے۔

آئیں جشن منائیں سالِ نو کا۔ ایک اور سال ختم ہو گیا۔ ہماری قومی شناخت کا بحران ابھی ختم نہیں ہوا۔ سماجی اقدار کا بحران اب تک جاری ہے۔ سالوں کی تبدیلی اس کے تسلسل کو توڑ نہیں پا رہی۔ ہمارے ادارے اب تک اپنی ساکھ بنانے کی تگ و دو میں مصروف ہیں۔ سالِ نو میں بھی ان کی حالت بدلنے کی خوشخبری شاید ہمیں نہ مل سکے۔

جشن ِ سالِ نو کی آمد پر میرا مقصد مایوسی پیدا کرنا نہیں۔ بس لبنانی شاعر خلیل جبران کو یاد رکھنے کی ضرورت ہے۔ ’’قابلِ رحم ہے وہ قوم، جو اپنے خوابوں میں جذبوں کی تحقیر کرتی ہے اور اپنی بیداری سے گھبراتی ہے۔ قابلِ رحم ہے وہ قوم، جو اس وقت احتجاج کرتی ہے، جب جنازوں میں چل رہی ہوتی ہے۔ اس کے ریاست کار لومڑی کی طرح چالاک، اس کے فلسفی شعبدے باز اور اس کا فن پیوند کاری اور نقالی ہے۔ قابلِ رحم ہے وہ قوم، جس کے دانا سالوں سے گنگ ہیں اور جس کے جرأت مند لوگ ابھی پالنے میں ہیں۔ قابلِ رحم ہے وہ قوم، جو ٹکڑوں میں بٹی ہوئی ہے اور ہر ٹکڑا اپنے آپ کو قوم تصور کرتا ہے‘‘۔ اس صورتحال کے باوجود امید کا دامن کبھی ہاتھ سے نہیں چھوڑنا چاہئے۔ سالِ نو مبارک ہو۔

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین