• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
ہماری عید کا دوسرا دن ٹرو اور تیسرا مرو کہلاتا ہے ۔”مایا “ نے اپنی قیامت کے تین دن کیوں ے …؟کون جانے…لیکن میرے ایمان کے مطابق یہ طے ہے کہ قیامت کا وقت اللہ تعالیٰ کے سوا کسی کو معلوم نہیں ۔ اس لئے کوئی انسان اس کی تاریخ فکس نہیں کر سکتا۔ میچ فکسنگ کی بات اور ہے ۔ یاد رہے میچ سیاسی بھی ہوتے ہیں اور غیر سیاسی بھی۔
مایا کا پہلا مطلب ہے لکشمی، دوسرا دولت، طاقت کی طرح دولت بھی اندھی ہوتی ہے اس اندھی کے ہندی محاورے میں تین نام ہیں ۔ دولت کے ہیں تین نام، پرسو، پرسا، پرسرام، یہ سب جمع کریں تو مایا کے پانچ معنی بنتے ہیں لیکن آج ہم جس مایا کا ذکر کر رہے ہیں وہ چھٹی یا چھٹا ہے۔ مایا ایک مذہب یا فرقہ ہے ۔ آج کل انٹرنیٹ، بین الاقوامی میڈیا، مغرب کی بڑی فلمی منڈیوں میں بننے والی فلموں اور ہزاروں مضامین میں ”مایا “ کی چھایا ہے ۔ مایا کے حوالے سے بھرپور بحث کی جدید لہر سائنسی ، تاریخی ، علمی حلقوں میں 1966ء سے شروع ہوئی جب ”دی مایا “ نامی کتاب شائع ہوئی ۔ لیکن یہ بحث نئی نہیں کیونکہ 14/دسمبر 1503ء کو فرانس کے صوبے سینٹ میڈیس میں پیدا ہونے والے دنیا کے معروف ترین ستارہ شناس ناسٹر ڈیمس نے ” لاسٹ بک “ نامی آخری کتاب کے ذریعے شروع کروائی ۔ یہ میڈیکل کا سٹوڈنٹ تھا جو فزیشن بنا ۔ اور اسے طاعون کے مریضوں کا مسیحا کہا جاتا ہے ۔ اس نے بادشاہ ہینری دوم کی لانسر میچ میں آنکھ پر زخم لگنے سے چھوٹے بچے کے ہاتھوں موت کی پیش گوئی کی ۔ تین سال بعد ھیزی کے ساتھ بالکل ویسا ہی ہوا ۔یہی نہیں بلکہ اس نے اپنی موت کی رات سیکرٹری کو بتایا کہ وہ طلوع آفتاب سے پہلے مر جائے گا ۔وہ حرکت قلب بند ہو جانے سے مر گیا ۔ اس نے ھیزی کے قاتل مینٹگمری کے بارے میں 6لوگوں کے ہاتھوں قتل ہونے کی پیش گوئی کی جو درست ثابت ہوئی ۔ ناسٹر نے پنولین بوناپارٹ، ایڈلف ہٹلر اور 2012ء کے عالمی معاشی بحران کے ظہور کی بھی درست پیش گوئی کی ۔
یہ بات جدید تہذیب کیلئے بہت حیران کن ہے کہ مایا تہذیب کا کیلنڈر جو 13اگست 3114ق م سے شروع ہوا اور دسمبر 21تا 23، 2012ء میں ختم ہوا آسٹرونامک تاریخ میں کئی ملین سال کی تاریخ کا یہ کیلنڈر بالکل پرفیکٹ ثابت ہوا۔ حالانکہ گریگورین، جولین، رومن کیلنڈر بھی بڑے کیلنڈر سمجھے جاتے ہیں۔ لانگ کاؤنٹ کیلنڈر نامی 5126سال پرانا یہ کیلنڈر آج دنیا میں زیرگردش عیسوی کیلنڈر سے بہت زیادہ درست سمجھا جاتا ہے ۔
یہ بات بھی دلچسپی سے خالی نہیں ہے کہ سال 2012ء کو انڈ آف ٹائم یعنی تہذیب انسانی کی تاریخ کا خاتمہ دنیا بھر میں اس وجہ سے مشہور ہوا کہ تہذیب کے جان کاروں، تاریخ دانوں کا خیال تھا کہ مایا کے نظریے کے مطابق جب یہ کیلنڈر ختم ہو گا تو کیا ہو گا …!قیامت یا قیامت کا آغاز…؟
جہاں تک قیامت کا تعلق ہے جدید دنیا کی تاریخ میں اپنی اپنی قیامتیں اور قیامت خیزیاں بھی موجود ہیں ۔ اور اصلی قیامت کے بارے میں تمام جہانوں کی آخری سچائی پر مبنی آخری آسمانی کتاب کے مطابق اس کا وقت صرف مالک ارض وسما کے پاس ہے ۔ یہاں ایک اور قابل توجہ پہلو یہ ہے کہ ارضیاتی سائنس کے ماہرین کرہ ارض کی عمر اور پائیداری کے بارے میں دو گروہوں میں تقسیم ہیں ۔ ایک گروہ کہتا ہے کہ یہ کرہ اپنی طبعی عمر پوری کر چکا ہے اور دوسرے گروہ کا خیال ہے کہ ابھی نہیں ۔
قیامت ایک ایسا استعارہ ہے جو شاعری، لٹریچر، سیاست و مذہب سمیت بے شمار جگہ استعمال ہوتا آیا ہے چھوٹی آفتوں کو قیامت صغریٰ اور بڑی بلاؤں کو قیامت کبریٰ کا نام دیا جاتا ہے ۔ آج کل کے دور میں سٹریٹ کرائم کو لوگ چھوٹی آفت سمجھتے ہیں۔ بڑے شہروں کے بڑے راستوں اور بڑی رونقوں کے عین درمیان اور چھوٹے دیہات کی ویران پگڈنڈیوں اور گنجان آبادیوں کی بھول بھلیوں میں زیردست طبقات کو حراساں کرنا، موبائل چھیننا اور لوٹ کھسوٹ، مارپیٹ جیسی وارداتوں کو یار لوگ چھوٹی قیامت کہتے ہیں۔ اسی لئے ایسے چھوٹے قیامت گر غیر ریاستی ایکٹر نہیں کہلاتے بلکہ مقامی پولیس کے لئے ان کا وجود ”چھوٹے “ جیسا ہے ۔ جو چھوٹے موٹے کام نکالنے کا ماہر سمجھا جاتا ہے ۔ جن لوگوں کو پتہ نہیں تھا کہ سٹریٹ کرائم کا سپانسر کون ہے وہ مایا تہذیب کا شکریہ ادا کریں جنہوں نے ان سطور کے ذریعے چھوٹی قیامت کے پردہ داروں کو بے پردہ کیا ۔اب آئیے چند بڑی قیامتوں کی طرف، عالمی سطح پر نیٹو اتحاد آج کل قیامت کبریٰ سمجھی جاتی ہے ۔ جو صرف مسلم ممالک کو شرف میزبانی بخش کر تہذیبوں کے تصادم کی آمد کا دروازہ کھول رہی ہے تاکہ صلیبی جنگوں جیسا ثواب دارین پھر کمایا جاسکے ۔ دنیا کی دوسری بڑی قیامت اقوام متحدہ کو کہا جا سکتا ہے ۔ جو قیامت کی نظر رکھتی یا رکھتا ہے ۔ کیونکہ اقوام متحدہ کو بعث پارٹی کے لیڈروں کی وسطی ایشیا کے ممالک میں حکومتوں کے مظالم، غیر انسانی رویے اور جمہوری حقوق کی پامالی تو نظرآتی ہے لیکن انہی کے بارڈرز کے ساتھ جڑی ہوئی شخصی آمریتیں، امراء اور بادشاہتیں اچھی لگتی ہیں کیونکہ ان ممالک میں ”لنگر“ چلتا ہے ۔ اور جہاں لنگر چلتا ہے خواہ وہ مشرق کا اسلامی ہو یا مغرب کا سفید فامی وہاں اقوام متحدہ جیسی یتیم اور یسیرا سے دار عافیت یا دار الشفقت سمجھتی ہے ۔ اسی لئے وہاں یہ محبت نچھاور کرتی ہے خواہ لکشمی دینے والا اسرائیل ہی کیوں نہ ہو۔ جبکہ مظلوم فلسطینیوں کی آہیں، غزہ کی سسکیاں اور کشمیر کے آنسو اسے کبھی متاثر نہیں کر سکے ۔
آج دنیا میں جتنی بڑی قیامتیں ہیں ان کا رخ عالم اسلام کی طرف ہے لیکن یہ ایک قیامت ناک حقیقت ہے اور الم انگیز بھی کہ ان قیامتوں میں مسلم دنیا کے ”بڑے“ مزید چوڑے ہو گئے ہیں جبکہ لاغر، بیماری، لاچاری و غربت کی چکی میں پس رہے ہیں ۔ اس عالمی تناظر کی معاشی قیامت پر لاہوریوں نے اچھا نعرہ ایجاد کیا ہے ۔ اسے نعرہ سمجھئے گا اشارہ نہیں :
اسی تے رہ گئے بھکھے ننگے
ساڈے نالوں لوٹے چنگے
ذکر ہے بڑی قیامتوں کا …بڑی قیامتوں کی ماں اسلحے کے بین الاقوامی سوداگر ہیں عالمی منڈیاں ہیں اور عالمی پیدا گیر ہیں جو جنگ زدہ قوموں کو گولہ بارود کی تازہ ایجادات کا فائرنگ رینج اور ٹیسٹ فیلڈ قرار دیتے ہیں ۔ مگر انسانی حقوق کا کوئی ادارہ اور بنیادی حقوق کی کوئی تنظیم عالمی حقوق کی اس پامالی پر کبھی پریشان نہیں ہوئی ۔ اب تو ایسے سوداگر بقلم خود اشاعتی ، طباعتی اور نشریاتی ایمپائرز بنانا شروع ہو گئے ہیں ۔ اس لئے قیامتوں کی ماں کے قدموں تلے معاشیات کی جنت تلاش کرنے والے جتھوں سے لشکر میں تبدیل ہو چکے ہیں ۔مایا کی وہ قیامت جس کی پیش گوئی ناسٹر نے کی تھی وہ تو نہیں آ سکی لیکن کچھ کے لئے قیامت آ بھی گئی ہے ۔ زمیندار نے نالے کی طغیانی میں بہتے ہوئے گیدڑ کو ہاتھ دے کر باہر نکالا جو چلا رہا تھا کہ قیامت آ رہی ہے ۔ گیدڑ ذرا سوکھا تو زمیندار نے سوال کیا کہ قیامت کہاں ہے …؟ اس نے کہا کہ میری قیامت تو گزر گئی …لاہور کے ایک بڑے گھر کے باسی پر گزرنے والی قیامت کے بعد، بقایا عاشقانِ اقتدار کی قیامت میں 80دن باقی ہیں ۔ یہ 80دن بھی قیامت سے کم نہیں کیوں کہ قیامت گر اور کاریگر یکساں میراتھن لگا رہے ہیں۔ اس 80روزہ قیامت کے بعد دو قیامت خیزیاں، وسوسوں، سازشوں اور خبروں میں ہیں ۔ ایک لمبے عرصے کے لئے ”چیئر ٹیکر“ جنہیں عرفِ عام میں کیئر ٹیکر بھی کہتے ہیں اور دوسرے انقلاب انگیز احتساب یا انتخابات کے ذریعے انقلاب… ایسے انقلاب کی گنگا میں اشنان کے لئے بھوکے ننگوں کے غول لنگوٹ کس رہے ہیں ۔ 2013ء ملکی نظام کے لئے ریٹائرمنٹ کا سال ہے ۔ کچھ نوکریاں چھوڑیں گے ،کچھ عہدے، کچھ اختیارات اور باقی سات سمندر پار ہوں گے ۔ یہ وقت پنشنرز پارٹی کی تشکیل کے لئے مناسب ترین ہو گا جس کا سمندر پار ونگ پہلے سے تیار ہے ۔ سب کیلئے کاؤنٹ ڈاؤن کا گھنٹا بج رہا ہے ۔ جون ایلیاء نے نجانے کس کے لئے کہا تھا :
قیامت آ رہی تھی …
قیامت آگئی کیا …؟
تازہ ترین