• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پرویز شوکت، اسلام آباد

حکومت اور فوج میں مثالی ہم آہنگی رہی ٭ 42 ہزار سے زاید کام یاب آپریشنز ٭پاک، افغان سرحد پر باڑ لگانے کا کام آخری مراحل میں داخل٭آرمی چیف کے غیر مُلکی دوروں کے پاکستان پر مثبت اثرات مرتّب ہوئے

یوں تو پاک فوج کئی دہائیوں سے مُلکی سرحدوں کی حفاطت کے ساتھ، اندرونِ مُلک دہشت گردی کے خلاف بھی جنگ لڑ رہی ہے، جس میں اُسے شان دار کام یابیاں حاصل ہوئیں ہیں، مگر جب سے موجودہ چیف آف آرمی اسٹاف، جنرل قمر جاوید باجوہ نے بہ طور سپہ سالار ذمّے داریاں سنبھالی ہیں، دہشت گردی کے واقعات میں مسلسل کمی دیکھنے میں آ رہی ہے۔ بلوچستان، پنجاب، سندھ خصوصاً کراچی، کے پی کے اور قبائلی علاقوں میں مدّتوں بعد امن قائم ہوا ہے۔ ہمیں یہ یاد رکھنا چاہیے کہ دہشت گردوں کی کمر توڑنے میں ہماری تمام فورسز نے بھرپور اور ناقابلِ فراموش کردار ادا کیا ہے۔ اگرچہ، ایئر فورس کی کاوشیں زیادہ منظرِ عام پر نہ آ سکیں، مگر حقیقت یہ ہے کہ اس کے ماہر پائلٹس نے دہشت گردوں کے انتہائی مشکل ٹھکانوں اور گولا بارود کے ذخائر کو کام یابی سے تباہ کیا۔ نیز، نیوی کے جوان بھی رات دن مُلکی دفاع کے لیے کُھلے سمندروں میں چوکس رہتے ہیں۔ پھر رینجرز اور پولیس کا مثالی کردار بھی کسی سے پوشیدہ نہیں۔ پاک افواج کے جوانوں اور افسران نے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں جو قربانیاں دی ہیں، بلاشبہ وہ اپنی مثال آپ ہیں۔ آرمی چیف، جنرل قمر جاوید باجوہ نے اپنے کمانڈرز کی مشاورت سے گنجان آباد شہروں اور دُور دراز کے پُر پیچ علاقوں میں مسلسل آپریشنز کے ذریعے بہت حد تک دہشت گردوں کا صفایا کردیا۔ جو مُٹھی بھر دہشت گرد باقی بچے ہیں، وہ اپنے بیرونی آقاؤں کی معاونت سے اِدھر اُدھر بھاگے پِھر رہے ہیں، مگر اس میں کوئی شک نہیں کہ ہمارے سیکیوریٹی ادارے اُنھیں تاریک غاروں سے بھی ڈھونڈ نکال کر ہر صُورت کیفرِ کردار تک پہنچائیں گے۔

اس میں کوئی شک نہیں کہ پاک فوج نے انتہائی محدود وسائل کے باوجود، دہشت گردی کے خلاف چومکھی جنگ کام یابی سے لڑی، تو لائن آف کنٹرول پر بھی دشمن کا بھرپور مقابلہ کیا۔ دنیا کے تمام غیر جانب دار ادارے اور انصاف پسند ماہرین، پاک فوج کے اس قائدانہ کردار کو سراہتے ہیں۔ یہ جنگ اس لحاظ سے مشکل تھی کہ دہشت گردوں کو ایک طرف تو پاکستان کے ازلی دشمن، بھارت کی کُھلی اور خفیہ حمایت حاصل تھی، جس کا واضح ثبوت کلبھوشن جیسے حاضر سروس فوجی افسر کی دہشت گردی سے متاثرہ صوبے، بلوچستان سے گرفتاری ہے، جو وہاں بیٹھ کر دہشت گردی کی کارروائیوں کو کنٹرول کر رہا تھا، تو دوسری طرف، ایک اور پڑوسی مُلک، افغانستان کی سرزمین بھی اعلانیہ طور پر پاکستان کے خلاف استعمال کی جاتی رہی ہے، جہاں پاکستان سے فرار ہونے والے کالعدم تحریک طالبان کے دہشت گردوں کو سرکاری سرپرستی میں پناہ دی گئی۔ نیز، اس بات میں بھی اب کوئی شبہ نہیں رہا کہ بلوچستان میں دہشت گردی کی وارداتوں میں ملوّث گروہوں کے کئی سرغنہ بھی افغان حکومت کی مہمان نوازی سے لُطف اندوز ہو رہے ہیں۔ پھر اس کے ساتھ مُلکی سیاسی حالات کے سبب بھی دہشت گردی کے خلاف جنگ متاثر ہو رہی تھی۔ ان حالات میں پاک فوج نے ہر محاذ پر دشمن کا ڈٹ کر مقابلہ کیا اور قوم کو امن و سکون کے تحفے سے نوازا، جس کو وہ مدّتوں سے ترس رہی تھی۔ اس تناظر میں2018 ء کا جائزہ لیں، تو یہ برس ماضی کی نسبت کافی پُرامن رہا۔ ایک وقت وہ بھی تھا، جب تقریباً ہر ہفتے ہی دہشت گردی کا کوئی نہ کوئی واقعہ رُونما ہوجاتا تھا، مگر گزشتہ برس دہشت گردی کے بڑے واقعات میں ریکارڈ کمی آئی۔ بلوچستان جو ایک عرصے سے بدامنی کا شکار چلا آرہا تھا، آرمی چیف، جنرل قمر جاوید باجوہ نے مُلک کے دیگر علاقوں کے ساتھ، اُس پر خصوصی توجّہ دی اور وہاں قیامِ امن کے لیے جنگی کثیرالجہتی اقدامات کیے۔ پاک فوج نے ایک طرف تو شرپسندوں کو کچلنے کے لیے مربوط اور منظّم کارروائیاں کیں، تو دوسری طرف، سیاسی قیادت سے مل کر اُن مسائل کے حل کی بھی کوششیں کیں، جو نوجوانوں میں مایوسی کا سبب بن رہے تھے۔ گزشتہ سال کے دوران پاک فوج کو بلوچستان میں بہت سی کام یابیاں حاصل ہوئیں۔ شرپسندوں کے کئی نیٹ ورکس ختم کیے گئے، تو بھاری تعداد میں اسلحہ بھی برآمد کیا گیا۔ نیز، پاک فوج اور سیاسی قیادت کی مفاہمتی پالیسی کے تحت دشمنوں کے بہکاوے میں آکر پہاڑوں پر جانے والوں کی بڑی تعداد نے ہتھیار پھینک کر قومی دھارے میں شمولیت کا اعلان کیا۔ بلوچستان میں 2017 ء کے دوران دہشت گردی کے 82 واقعات ہوئے تھے، جب کہ 2018 ء میں دہشت گردی کے42 واقعات ہوئے، جن میں سے بیش تر معمولی نوعیت کے تھے۔ صوبے میں امن وامان کی بہتری میں کور کمانڈر کوئٹہ، لیفٹیننٹ جنرل، عاصم سلیم باجوہ اور اُن کی ٹیم کے کردار کو بھی نظرانداز کرنا ممکن نہیں، جنھوں نے ایک مشکل تصوّر کیے جانے والے خطّے میں لوگوں کے دِل جیتے۔

جنرل قمر جاوید باجوہ نے مُلک کے معاشی حب، کراچی پر بھی پوری توجّہ مبذول رکھی اور یہی وجہ ہے کہ گزشتہ برس کے دَوران کراچی میں امن وامان کی صورتِ حال اطمینان بخش رہی، البتہ دوست مُلک، چین کے قونصل خانے پر حملے کے ذریعے پاکستان کو عالمی سطح پر بدنام کرنے کی انتہائی گھناؤنی سازش کی گئی، جو سیکیوریٹی اہل کاروں نے جان پر کھیلتے ہوئے بروقت ناکام بنادی۔ اس واقعے میں تینوں دہشت گردوں کو قونصل خانے میں داخل ہونے سے قبل ہی مار دیا گیا۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ کراچی میں امن کے لیے رینجرز نے بنیادی کردار ادا کیا اور 2018ء میں بھی رینجرز اہل کار دیگر سیکیوریٹی اداروں کی معاونت سے شہریوں کو پُرسکون ماحول کی فراہمی کے لیے کوشاں رہے۔ ماضی میں امن وامان کے حوالے سے عالمی درجہ بندی میں کراچی کا چھٹا نمبر تھا اور اب 67 واں نمبر ہے۔ اس بہتری کا کریڈٹ بلاشبہ پاک افواج ہی کے سر ہے، جس نے دہائیوں سے بدامنی سے دوچار شہر کو امن بخشا۔ چوں کہ شہر کی آبادی کروڑوں نفوس پر مشتمل ہے اور دنیا بھر میں اتنی زیادہ آبادی کے حامل شہروں میں چھوٹے موٹے جرائم ہوتے رہتے ہیں، سو کراچی کو اب اسی نوعیت کے جرائم کا سامنا ہے۔

پاک فوج نے مُلک بھر میں’’ آپریشن ردّالفساد‘‘ کے تحت 44 بڑے آپریشن کیے، جب کہ اس کے علاوہ دہشت گردوں کے خلاف 42 ہزار آپریشنز کیے گئے، جن میں بہت سے مُلک دشمن مارے یا گرفتار ہوئے، تو 32 ہزار سے زاید ہتھیار بھی برآمد کیے گئے۔ ان ہتھیاروں میں زیادہ تر غیر مُلکی ساختہ تھے۔ اہم بات یہ ہے کہ پاک فوج کو دہشت گردوں کے خلاف کارروائیوں میں عوام کی بھرپور مدد اور حمایت حاصل ہے۔یہی وجہ ہے کہ قومی اتحاد کی چھتری تلے لڑی جانے والی اس جنگ میں پاکستان جیت رہا ہے اور دشمن کو خاک چاٹنی پڑ رہی ہے۔ بھارت نے2018 ء میں بھی کنٹرول لائن کے مختلف سیکٹرز میں دراندازی اور معصوم شہریوں کو نشانہ بنانے کا سلسلہ جاری رکھا۔ اُس نے گزشتہ برس 2593 بار کنٹرول لائن پر جنگ بندی کی خلاف ورزیاں کرتے ہوئے شہری آبادیوں کو نشانہ بنایا، جن کے دوران 55 بے گناہ شہری شہید اور درجنوں زخمی ہوئے، جب کہ شہریوں کے مال مویشیوں اور دیگر املاک کو بھی بھاری نقصان پہنچا۔ تاہم، پاک فوج نے دشمن کے ہر حملے کا منہ توڑ جواب دیا، مگر افسوس ناک بات یہ ہے کہ اقوامِ متحدہ اور انسانی حقوق کے علم برداروں نے حسبِ معمول آنکھیں اور منہ بند کیے رکھے، حالاں کہ کنٹرول لائن پر اقوامِ متحدہ کے مبصّر بھی تعینّات ہیں۔ گزشتہ برس بھی فوجی عدالتوں سے دہشت گردوں اور اُن کے سہولت کاروں کو سزائیں دینے کا سلسلہ جاری رہا۔ فوجی عدالتوں میں 717کیسز بھیجے گئے، جن میں سے 546 کا فیصلہ سُنایا گیا۔ 310دہشت گردوں کو سزائے موت سُنائی گئی، جب کہ 234دہشت گردوں کو دیگر سزائیں ہوئیں۔ آرمی چیف کی توثیق کے بعد کئی دہشت گرد اپنے انجام کو پہنچ گئے، جو معصوم بچّوں، عورتوں اور سیکیوریٹی اداروں پر حملوں میں ملوّث تھے۔ علاوہ ازیں، افواجِ پاکستان نے صرف دہشت گردوں کے خلاف کارروائیاں ہی نہیں کیں، بلکہ دہشت گردی سے متاثرہ علاقوں میں ترقّیاتی منصوبوں پر بھی بہت کام کیا۔ آرمی چیف نے قبائلی علاقوں، بلوچستان اور دیگر علاقوں میں سڑکوں، اسپتالوں، اسکولز، گھروں اور دُکانوں کی تعمیرات کے کئی منصوبوں کا افتتاح کیا۔ پاک فوج کی جانب سے بے گھر افراد کی آباد کاری اور اُنہیں روزگار کی فراہمی میں تعاون کیا گیا۔چوں کہ کئی قبائلی علاقوں میں دہشت گردوں نے مساجد اور مدارس کو اپنے مذموم مقاصد کے لیے استعمال کیا تھا، جس کی وجہ سے یہ مقدّس مقامات بھی متاثر ہوئے، تو پاک فوج نے ان مقدّس مقامات کی تعمیر کے لیے مقامی افراد کی بھرپور معاونت کی، بلکہ کئی مساجد اور مدارس خود بھی تعمیر کروا کر دیے۔ گزشتہ برس قبائلی علاقوں میں کئی ایسی مساجد اور مدارس کا افتتاح کیا گیا، جن کی پاک فوج کی نگرانی میں تعمیرِ نو کی گئی۔ اہلِ علاقہ نے اس اقدام پر اُن کا شُکریہ ادا کیا۔ اس حوالے سے سوات کی مثال سامنے ہے، جو اب امن کا گہوارہ بن چُکا ہے اور جس کی وجہ سے وہاں سیّاحوں کی آمدو رفت میں روز افزوں اضافہ ہو رہا ہے۔ یاد رہے، پاک فوج نے صورتِ حال میں بہتری کے بعد گزشتہ برس سوات کا کنٹرول باقاعدہ طور پر سِول انتظامیہ کے حوالے کیا۔

بدقسمتی سے گزشتہ برس کے ابتدائی مہینوں میں حکم ران جماعت نے بعض اداروں سے کشیدگی کے تاثر کو ہوا دی، جس سے مُلکی سیاسی صُورتِ حال خاصی مکدّر رہی، تاہم خوش آئند بات یہ رہی کہ عام انتخابات کے نتیجے میں وجود میں آنے والی پاکستان تحریکِ انصاف کی حکومت اور پاک فوج کے درمیان مثالی تعلقات دیکھے گئے۔ ریاست کے دونوں ستون تمام معاملات میں حقیقی معنوں میں ایک پیج پر نظر آئے۔ مُلک و قوم، بالخصوص دفاعِ پاکستان کے حوالے سے متفّقہ طور پر فیصلے کیے گئے، جس کے مُلکی اور عالمی سطح پر مثبت اثرات ظاہر ہوئے۔ پاک فوج، خارجہ اُمور میں بھی سِول حکومت کا بھرپور ساتھ دیتی رہی۔ آرمی چیف، جنرل قمر جاوید باجوہ نے روس، چین، برطانیہ، ایران، افغانستان، سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات سمیت کئی مُمالک کے دُورے کیے، جن سے دفاعی، سیاسی اور معاشی صورتِ حال پر انتہائی مثبت اثرات مرتّب ہوئے۔ روس کے ساتھ اعلیٰ سطح کے دفاعی وفود کے مسلسل تبادلوں سے چین کے بعد، پاکستان اور روس بھی بہ تدریج قریب آ رہے ہیں۔ پھر امریکا نے افغانستان کے حالات کو بہانہ بنا کر نئی حکومت پر جو دباؤ ڈالنے کی کوشش کی، حکومت اور فوج نے مل کر اس کا بھی بھرپور مقابلہ کیا، نتیجاً سُپر پاور کا صدر، پاکستان کے وزیرِاعظم، عمران خان کو خط کے ذریعے تعاون کی درخواست کرنے پر مجبور ہوا۔ فوج اور سِول حکومت کے یک ساں مؤقف کی وجہ سے بالآخر صدر ٹرمپ کو پاکستان کی بات تسلیم کرنا پڑی۔ ریاستی اداروں کے درمیان اس قابلِ تقلید انڈر اسٹینڈنگ کے سبب مُلک کے اندورنی حالات میں بھی بہتری آئی۔ نیز، 2018ء میں سِول حکومت اور فوج کے باہمی مشاورت سے کیے گئے ایک تاریخی فیصلے نے بھارت کو سفارتی محاذ پر بند گلی میں دھکیل دیا۔ پاکستان نے کرتار پور راہ داری کھول کر جہاں سِکھوں کے دل جیتے، وہیں بھارت کا مکروہ چہرہ بھی عالمی برادری کو دِکھا دیا، جو اپنی اقلیت کا گلا گھونٹے رکھتا ہے۔ اس منصوبے کے تحت یومیہ چار ہزار سِکھ یاتری پاکستان آکر اپنے مقدّس مقامات کی زیارتیں کر سکیں گے۔ عالمی برادری، خاص طور پر دنیا بھر میں مقیم سِکھ کمیونٹی نے اس ضمن میں پاک فوج کا خاص طور پر شُکریہ ادا کیا کہ جس نے اپنے عمل سے ثابت کیا کہ وہ امن کی جانب اٹھنے والے ہر قدم میں سیاسی حکومت کے شانہ بشانہ کھڑی ہے۔ دنیا نے بھارتی پروپیگنڈے کو ناکام ہوتے دیکھا کہ پاک فوج کے سربراہ تو اس امن منصوبے کی افتتاحی تقریب میں ذاتی طور پر شریک تھے، تو دوسری جانب، بھارتی فوج، جو امن کی مالا جَپتے نہیں تھکتی، اس منصوبے کی راہ میں روڑے اٹکاتی رہی۔

گزشتہ برس کی ایک بڑی کام یابی پاک، افغان سرحد پر باڑ لگانے کی صُورت بھی سامنے آئی۔ افغان حکومت نے اس عمل کی ڈٹ کر مخالفت کی، مگر پاک فوج نے مُلکی سلامتی کی خاطر کسی دباؤ میں آئے بغیر کام جاری رکھا۔ پاک، افغان سرحد پر 233قلعے تعمیر کیے گئے، جب کہ 1200 کلومیٹر میں سے 802کلومیٹر تک باڑ لگانے کا کام مکمل کرلیا گیا، باقی کام رواں برس مکمل ہو جائے گا۔ دفاعی ماہرین کے مطابق، سرحد پر باڑ لگانے سے دہشت گردوں کی نقل و حرکت مکمل طور پر رُک جائے گی، جو دونوں مُمالک کے امن کے لیے خطرہ ہیں۔ باخبر ذرائع کے مطابق، پاکستان نے افغان حکومت کو پیش کش کی ہے کہ وہ اُس کی طرف بھی باڑ لگانے کے لیے تیار ہے تاکہ اُس کی سرحد پار سے دراندازی کی شکایات دُور ہو سکیں، تاہم افغان حکومت کی جانب سے اس پیش کش کا مثبت جواب نہیں دیا گیا۔ پاک فوج کے سربراہ، جنرل قمر جاوید باجوہ محدود وسائل کے باوجود گزشتہ برس مُلکی فلاح و بہبود کے منصوبوں میں بھی اپنے ادارے کی جانب سے پورا حصّہ ڈالتے رہے۔ اُنہوں نے چیف جسٹس ،میاں ثاقب نثار کے ڈیم منصوبے میں پاک فوج کی طرف سے دو ارب روپے کا عطیہ دیا۔اس کے علاوہ، آرمی چیف نے گزشتہ برس کے دوران بارہا واشگاف الفاظ میں جمہوریت اور آئین کی پاس داری کا اعلان کیا کہ فوج، پاکستان میں آئین اور قانون کی حکم رانی چاہتی ہے۔

تازہ ترین