• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
 درجن بھر مسلم ممالک میں انتخابات ہوئے ، ترکی میں صدارتی نظام متعارف ٭فلسطینی اور کشمیری قابض افواج کے خلاف قربانیوں کی نئی تاریخ رقم کرتے رہے٭صحافی جمال خاشقجی کے قتل نے سیاسی ہل چل مچائے رکھی

عبدالغفار عزیز، لاہور

2018 ء بھی کئی ایسے واقعات کا شاہد اور گواہ ٹھہرا کہ جن کے اثرات و نتائج دُور رَس ثابت ہوں گے۔ یہ سال پاکستان ہی نہیں، عالمِ اسلام کے کئی اہم ممالک میں انتخابات کا سال تھا۔ اس سال بھی مختلف خطّوں میں بے گناہ مسلم آبادیوں پر ظلم و ستم کے نئے ریکارڈ قائم کیے گئے اور کوئی اُن کا پُرسانِ حال نہ ہوا۔ کئی مُلکوں میں اقتصادی بحران سنگین تر ہوگئے، لیکن بدقسمتی سے مسلم مُمالک کے تعاون کے ذریعے ان پر قابو پانے کی بجائے باہمی تنازعات میں مزید شدّت پیدا ہوئی۔ آئیے، اس اجمال کی کچھ تفصیل پر نگاہ ڈالتے ہیں، لیکن پہلے رحمۃ اللعالمین صلی اللہ علیہ وسلم کے قبلۂ اوّل کا ذکر کہ جہاں امریکا اور اُس کے صدر، ڈونلڈ ٹرمپ نے وہ اقدام بھی اٹھالیا، جس کی جسارت اس کا کوئی پیش رَو نہیں کرسکا تھا۔

14 مئی 2018 ء کو سرزمینِ بیت المقدس پر صہیونی قبضے کے 70 سال پورے ہوگئے۔ یہ سات عشرے، مسلسل ظلم و ستم اور اس کی عالمی سرپرستی کے عشرے تھے۔ فلسطینی عوام نے بھی مسلسل مزاحمت جاری رکھی ہوئی ہے۔ 1993 ء میں یاسر عرفات کی سربراہی میں ایک کثیر جہتی امن معاہدہ ہوا۔ 2005ء میں اسرائیل کو غزہ کی پٹّی سے یک طرفہ انخلاء پر مجبور ہونا پڑا۔ پھر2006 ء میں عرب لیگ کے سربراہی اجلاس میں بھی ایک منصوبہ منظور کیا گیا، لیکن فلسطین کے حوالے سے ہونے والے تمام معاہدوں میں بیت المقدس کو مرکزی حیثیت حاصل رہی۔ اس لیے خود اسرائیلی انتظامیہ، امریکا اور عالمی برادری کی جانب سے ہمیشہ کہا گیا کہ’’ بیت المقدس کے مستقبل کا فیصلہ حتمی مرحلے تک مؤخر رکھا جائے گا۔‘‘تاہم، صدر ٹرمپ نے اپنے روایتی اور ناقابلِ فہم رویّوں میں ایک سنگین اضافہ کرتے ہوئے 14 مئی 2018 ء کو امریکی سفارت خانہ، تل ابیب سے بیت المقدس منتقل کردیا۔ اسے ایک ناپسندیدہ عمل قرار دیتے ہوئے نظر انداز بھی کیا جاسکتا تھا، لیکن حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے قبلۂ اوّل اور آپ ﷺ کے سفرِ معراج کے امین، بیت المقدس کی اہمیت کے پیشِ نظر، فلسطینی عوام نے گزشتہ پورا سال احتجاج اور سیکڑوں شہداء کی قربانیاں پیش کرتے گزارا۔ دسمبر 2017 ء میں ٹرمپ کے اعلان کے بعد سے احتجاج کی یہ نئی لہر شروع ہوگئی تھی۔ صرف 14 مئی ہی کو 61 فلسطینی شہید اور تین ہزار کے قریب زخمی ہوئے۔ سال 2018 ء کا ہر روزِ جمعہ’’ واپسی مارچ‘‘ کے عنوان سے مظاہروں، مزید شہداء اور زخمیوں کی قربانیوں سے رنگین دِکھائی دیا۔مظاہروں، مقبوضہ فلسطین کی بازیابی اور دنیا بھر میں دربدر فلسطینی عوام کے ’’حقِ واپسی‘‘ کے عنوان سے ہونے والے مظاہرے اب بھی جاری ہیں، لیکن دوسری طرف فلسطین پر قابض صہیونی ریاست کو تسلیم کرنے کے عمل میں بھی تیزی لائی جارہی ہے۔ کئی اہم مسلم مُمالک کے ساتھ’’ Deal of the Century ‘‘کے عنوان سے صدی کی سب سے بڑی سودے بازی کی جارہی ہے۔ مِصری صدر، عبدالفتّاح السیسی سمیت بعض اہم مسلم حکم رانوں نے عندیہ دیا ہے کہ اُن کے اقتدار کو امریکی سرپرستی ملنے کے عوض وہ اسرائیل کو تسلیم کرلیں گے۔ اس منصوبے پر مرحلہ وار عمل کرتے ہوئے صہیونی وزیراعظم ،نیتن یاہو نے نومبر2018 ء میں سلطنتِ اومان کا اعلانیہ دورہ کیا۔نیز، اسرائیل میں ہونے والی سائیکل ریس میں متحدہ عرب امارات اور بحرین کے سائیکل سواروں نے حصّہ لیا، تو قطر اور امارات میں ہونے والے کھیلوں کے مقابلے میں اسرائیلی کھلاڑی شریک ہوئے۔ یہاں تک کہ امارات میں ہونے والے مقابلوں میں اسرائیلی وزیر بھی شریک ہوئیں اور وہ اختتامی تقریب کے دَوران امارات میں پہلی بار اسرائیلی ترانہ گونجنے پر جذبات قابو میں نہ رکھتے ہوئے خوشی کے آنسو بہانے لگیں۔اسرائیل کو جائز قرار دینے کا ایک نمایاں اقدام دلّی، تل ابیب کے مابین انڈین ایئرلائنز کی پروازوں کو سعودی عرب کی فضاؤں سے گزرنے کی اجازت ملنا تھا۔ 22 مارچ کو اس براہِ راست رُوٹ کا آغاز ہوا، تو دلّی اور تل ابیب میں داد کے ڈونگرے برسائے گئے۔ اپریل میں ملائیشیا کے دارالحکومت، کولالمپور میں نمازِ فجر کے لیے جانے والے ایک فلسطینی سائنس دان، انجینئر فادی البطش کو گولیاں مار کر شہید کردیا گیا۔19 جولائی کو اسرائیلی پارلیمنٹ نے قانون منظور کرتے ہوئے اسرائیل کو ایک دینی قومی ریاست قرار دے دیا۔

جمہوریت 2018ء: میں پاکستان کے علاوہ ملائیشیا، تُرکی، مِصر، لبنان، عراق، بوسنیا، تیونس، موریتانیا، مالدیپ اور افغانستان میں پارلیمانی، صدارتی یا بلدیاتی انتخابات ہوئے۔ ملائیشیا کے انتخابات میں93 سالہ سابق وزیرِ اعظم، مہاتیر محمّد نے اپنی ہی سابقہ پارٹی کے خلاف اپنے اہم حریف، انور ابراہیم کے ساتھ اتحاد قائم کرتے ہوئے مُلکی سیاست کا پانسا پلٹ دیا۔ وزیرِ اعظم، نجیب عبدالرزاق پر کرپشن کے الزامات لگے اور اُنہیں اب عدالتی کارروائیوں کا سامنا ہے۔ 222 کے ایوان میں مہاتیر اتحاد کو 122 نشستیں حاصل ہوئیں۔ تُرکی میں فیصلہ کُن صدارتی اور پارلیمانی انتخابات کے بعد پارلیمانی نظامِ حکومت کی جگہ، صدارتی نظام نافذ ہوا۔ صدر طیّب ایردوان کو 52.6 فی صد ووٹ حاصل ہوئے۔ اپوزیشن کی طرف سے الزام لگایا گیا کہ اب تمام تر اختیارات فردِ واحد کے ہاتھ میں جمع ہوگئے ہیں، لیکن حکم ران جماعت کے مطابق، مُلک میں کئی عشروں سے جاری خرابیوں کو اب بہتر جمہوری روایات کے ساتھ دُور کیا جاسکے گا۔ 26 مارچ کو ہونے والے مِصری صدارتی انتخابات، حسبِ سابق دھاندلی کا شاہ کار تھے۔ جنرل سیسی کے مقابل کوئی قابلِ ذکر اُمیدوار نہ آنے دیا گیا۔ حتیٰ کہ سابق حلیف اور صدر، محمّد مرسی کے مقابل اپوزیشن اور فوج کے مشترک اُمیدوار، جنرل احمد شفیق کو بھی گھر میں نظر بند کرتے ہوئے کاغذات جمع کروانے سے روک دیا گیا۔ جنرل سیسی کے نام 97.8 فی صد ووٹوں کا اعلان کیا گیا۔ مالدیپ میں بھی حکم ران پارٹی انتخاب ہار گئی اور سابق صدر، محمّد نشید کا حلیف اتحاد برسرِ اقتدار آگیا۔ عراق اور لبنان کے انتخابات کے نتائج اور حکومت سازی ہنوز طویل تعطّل کا شکار ہیں۔ بوسنیا میں صدر علی عزّت بیگووچ کی پارٹی کو پھر اکثریت حاصل ہوئی۔ افغانستان میں پارلیمانی انتخابات کا انعقاد تو ہوگیا، لیکن اُن کے نتائج تاحال سامنے نہیں آسکے۔ افغانستان کے معاملات پر نگاہ رکھنے والا ہر مبصّر کہہ رہا ہے کہ یہ ساری تاخیر مَن مرضی کے ارکان جِتوانے کے لیے کی جارہی ہے۔ تیونس کے بلدیاتی انتخابات میں اسلام پسند جماعت’’ تحریک نہضت‘‘ ایک بار پھر سب سے بڑی جماعت ثابت ہوئی۔ 2018 ء کے آخری دن اہم مسلم مُلک، بنگلا دیش میں انتخاب ہوئے، جس میں شیخ مجیب الرحمٰن کی پارٹی’’ عوامی لیگ‘‘ اور سابق وزیرِ اعظم، خالدہ ضیاء کی جماعت’’ بنگلا دیش نیشنلسٹ پارٹی‘‘ اور ان کے20 جماعتی اتحاد میں مقابلہ ہوا۔ خالدہ ضیاء اور ان کے بیٹے سمیت درجنوں اہم اُمیدواروں کو نااہل قرار دیتے ہوئے انتخابات سے باہر کردیا گیا، جب کہ 786 کی ریکارڈ تعداد میں اُمیدواروں کے کاغذات مسترد کردیے گئے، جن کی اکثریت کا تعلق خالدہ ضیاء اور اُن کی حلیف، جماعتِ اسلامی سے تھا۔ اپوزیشن کے ذمّے داران اور کارکنان بڑی تعداد میں گرفتار کر لیے گئے۔

حقوقِ انسانی: اس باب میں 2018 ء بھی عالمِ اسلام کے لیے کوئی اچھی خبر نہ دے سکا۔ شام اور یمن مکمل اور مسلسل تباہی کا شکار ہیں۔ سال کا آغاز، شام اور تُرکی کے سرحدی علاقے، عفرین میں’’ شاخِ زیتون‘‘ نامی تُرک فوجی آپریشن سے ہوا۔ کئی ہفتوں کی شدید جنگ کے بعد شامی عوام کے تشکیل کردہ عسکری گروہ، تُرک فوج کی بھرپور مدد کے نتیجے میں کم از کم اس سرحدی علاقے کو پُرامن بنانے میں کام یاب ہوگئے۔ پورا شام عملاً کئی ٹکڑیوں میں تقسیم ہوچُکا ہے۔ اگرچہ 2018 ء میں داعش کے خلاف جنگ کے خاتمے کا اعلان ہوگیا اور کئی ممالک نے اپنی افواج واپس بلانے کا اعلان کردیا، لیکن اب بھی ایک مختصر علاقے میں اسے باقی رکھا گیا ہے تاکہ کسی بھی وقت اس سے دوبارہ کام لیا جاسکے۔ اُدھر مِصر میں جنرل سیسی کا اقتدار تسلیم نہ کرنے کی پاداش میں ساٹھ ہزار سے زائد سیاسی قیدی جیلوں میں سڑ رہے ہیں۔ منتخب صدر، ڈاکٹر مرسی سمیت ان سیاسی قیدیوں کی غالب اکثریت اعلیٰ تعلیم یافتہ افراد پر مشتمل ہے۔ تین سو سے زائد افراد تشدّد کے نتیجے میں دَم توڑ چُکے ہیں، لیکن ایمنیسٹی انٹرنیشنل کے ایک مریل سے بیان کے علاوہ، کسی کو ان کی پروا نہیں۔ بنگلا دیش میں بھی حسینہ واجد مخالف افراد ہزاروں کی تعداد میں گرفتار ہیں۔ ایران، عراق، متحدہ عرب امارات، سعودی عرب اور تاجکستان سمیت دیگر کئی مُمالک میں بھی سیاسی قیدیوں کی حالت ناگفتہ بہ ہے۔ یمن میں کئی خفیہ جیلوں اور اذیّت خانوں کا انکشاف ہوا۔

2 اکتوبر کو سعودی صحافی، جمال خاشقجی کے تُرکی کے شہر، استنبول میں اپنے ہی مُلک کے قونصل خانے میں بہیمانہ قتل نے پوری دنیا کو ہلا کر رکھ دیا۔ تُرک حکّام کے مطابق،’’ اُنہیں کاغذات کی تصدیق کے بہانے قونصل خانے بُلاکر قتل کیا گیا۔ اس پوری کارروائی کے لیے 18 افراد دو خصوصی جہازوں میں ریاض سے استنبول آئے تھے۔‘‘ آغاز میں اس واقعے سے انکار کیا گیا، لیکن تقریباً ڈھائی ہفتے بعد سعودی عرب نے تُرک حکومت کا دعویٰ تسلیم کرتے ہوئے، قتل کی تصدیق، سعودی ولی عہد کے قریبی مشیر، سعود القحطانی اور انٹیلی جینس کے ڈپٹی چیف احمد العسیری کو عُہدے سے ہٹانے اور قتل میں ملوّث 18 افراد کو گرفتار کرنے کا اعلان کردیا گیا۔ تُرکی کا مطالبہ ہے کہ اس کی سرزمین پر ہونے والے اس قتل میں ملوّث افراد سے براہِ راست تفتیش کی اجازت دی جائے تاکہ معلوم کیا جاسکے کہ اُنہیں قتل کا حکم کس نے دیا تھا۔ امریکی سی آئی اے سمیت کئی عالمی تحقیقاتی اداروں نے اس واقعے اور اس میں اعلیٰ ترین ذمّے داران کے ملوّث ہونے کی تفصیلات جاری کیں۔ واقعے کی سنگین نوعیت اور ویڈیو ریکارڈنگ سامنے آجانے اور تُرک حکومت کے ٹھوس مؤقف کی روشنی میں بہت ممکن ہے کہ یہ واقعہ خطّے میں دُور رَس اثرات مرتّب کردے۔

2018 ء میں چین کے علاقے، سنکیانگ سے بہت بڑی تعداد میں مسلم آبادی کے خلاف آپریشنز کی خبروں نے بھی دنیا میں گہری تشویش کی لہر دوڑا دی۔ اس بار چینی مسلمانوں کو ہزاروں نہیں، لاکھوں کی تعداد میں پکڑ کر مختلف کیمپس میں بند کردیا گیا۔ چینی حکومت کے مطابق یہ تربیتی کیمپس ہیں، لیکن یہ اقدام پوری دنیا میں تشویش کی لہر کا باعث بن رہے ہیں۔ یقیناً امریکا سمیت کئی عالمی اور علاقائی طاقتیں چین سے آنے والی ان رپورٹس سے اپنی مرضی کا کام لینا چاہیں گی، اس لیے یہ اَمر انتہائی ضروری ہے کہ چین میں موجود مسلم آبادی اور اُن کی شناخت و عبادات کے حوالے سے پائے جانے والے شکوک و شبہات دُور کرنے کے لیے فوری اقدام اُٹھائے جائیں۔ گزشتہ برس میانمار کے مسلم علاقے، اراکان اور وہاں کی روہنگیا آبادی پر توڑے جانے والے مظالم نے بھی نئے ریکارڈ قائم کیے۔ اس سال وہاں سے بھاگ کر بنگلا دیش کے تکلیف دہ مہاجر کیمپس میں پناہ لینے والوں کی تعداد سات لاکھ سے تجاوز کرگئی۔ مقبوضہ کشمیر میں کئی عشروں سے جاری بھارتی ظلم و ستم نے 2018 ء کے دَوران نئے مُہلک ہتھیار اور ظالمانہ اقدام متعارف کروائے۔ عالمی برادری اور عالمِ اسلام ان مظالم پر حسبِ سابق منہ میں گھنگنیاں لیے دَم سادھے بیٹھا رہا، لیکن کشمیری عوام نے عزیمت و قربانی کی نئی تاریخ رقم کی۔ شہداء کے جنازوں میں شریک لاکھوں کشمیری مَردو زَن اپنی آزادی کے لیے ہر قربانی دینے کے لیے پہلے سے کہیں زیادہ پُرعزم دِکھائی دیے۔

سیاسی بساط: سالِ گزشتہ عالمِ اسلام کے اندرونی اختلافات کم ہونے کی بجائے مزید شدّت اختیار کرگئے۔ عالمی طاقتیں اس صُورتِ حال سے بھرپور فائدہ اٹھا رہی ہیں۔ صدر ٹرمپ کسی خوانچہ فروش کی طرح ٹھیلے پر مُہلک اسلحہ سجائے اربوں ڈالرز کے مزید سودے کرتے دِکھائی دیے۔ اسی باہمی کشاکش پر تیل چھڑکتے ہوئے اُنھوں نے ماہِ نومبر میں ایران کے ساتھ کیا جانے والا ایٹمی معاہدہ منسوخ کردیا اور ایران پر مزید اقتصادی پابندیاں عاید کرتے ہوئے مخصوص ممالک کے علاوہ کسی کو تیل بیچنے سے روک دیا۔ جواباً ایرانی صدر روحانی نے بھی ترنت اعلان کیا کہ ’’اگر ایران اپنا تیل برآمد نہ کرسکا، تو کوئی خلیجی ریاست بھی تیل برآمد نہ کرسکے گی‘‘۔ان پابندیوں سے یقیناً ایران کی اقتصادی مشکلات میں اضافہ ہوگا۔ اُدھر سعودیہ، قطر اختلافات مزید سنگین ہونے کے بعد قطر نے 1956 ء میں بننے والی تیل برآمد کرنے والے ممالک کی تنظیم اوپیک سے نکلنے کا اعلان کردیا۔ اگرچہ اس کا حصّہ دیگر رُکن ممالک کی نسبت بہت کم ہے، لیکن اس فیصلے کے کئی سیاسی و اقتصادی اثرات مرتّب ہوسکتے ہیں۔

فُٹ بال ورلڈ کپ: ماسکو میں ہونے والے عالمی مقابلوں میں سعودی عرب، ایران، تیونس، مراکش، نائیجیریا اور سینیگال کی ٹیمز شریک ہوئیں۔ اچھا کھیل پیش کیا، لیکن کوئی ٹیم پہلے راؤنڈ سے آگے نہ بڑھ سکی۔ اب آئندہ ورلڈ کپ 2022 ء میں قطر میں ہوگا۔ بعض مسلم ممالک قطر سے یہ اعزاز واپس لینے کے لیے فعال ہیں۔

اہم شخصیات کا انتقال: سالِ گزشتہ بھی کئی اہم مسلم شخصیات دنیا سے کوچ کرگئیں۔ معروف مفسّرِ قرآن، علّامہ ابوبکر الجزائری، اُردن کے معروف و مایہ ناز اسکالر، پروفیسر ڈاکٹر اسحٰق الفرحان، اعلیٰ پائے کے تُرک مؤرخ، فؤاد سزگین، سوڈان کے سابق صدر، جنرل عبدالرحمٰن سوار الذھب(اُنہیں اکلوتے مسلمان جرنیل ہونے کا اعزاز حاصل تھا کہ جنھوں نے مئی 1985 ء میں مُلک کا اقتدار سنبھالنے کے بعد وعدے کے مطابق ایک سال کے دَوران انتخابات کرواتے ہوئے اقتدار منتخب حکومت کو سونپ دیا تھا)۔ مسجدِ نبویؐ کے کئی ائمہ کے پاکستانی استاذ، قاری خلیل الرحمٰن، عالمی شہرت یافتہ افغان رہنما، جلال الدّین حقّانی، مسنون دُعاؤں کے معروف مجموعے ’’حصن المسلم‘‘ کے مرتّب، سعید بن علی القحطانی، کئی کتب کے مصنّف، عبداللہ العقیل، لیبیا کی تحریکِ آزادی کے ہیرو، عُمر المختار کے اکلوتے صاحب زادے، محمّد عُمر المختار۔ بوسنیا کے قومی رہنما، علی عزّت بہمن، ایرانی مؤرخ، احسان یار شاطر سمیت کئی اہم شخصیات قابلِ ذکر ہیں۔

تازہ ترین