• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ماہ و سال گزرتے کونسی دیر لگتی ہے، ابھی کل کی بات ہے کہ 1977ء میں الیکشن ہوئے، دھاندلی کا شور مچا پھر تحریک شروع ہوگئی۔ قومی اتحاد کی اس تحریک کے نتیجے میں مارشل لا کے راستے ہموار ہوئے اور ملک پر ضیاء الحق مسلط ہوگیا۔ ضیاء الحق نے سیاست کو قتل کیا، اس قتل کے بعد جو کابینہ بنی اس میں راجہ ظفر الحق اور جاوید ہاشمی شامل تھے۔ ضیاء الحق نے دل کی تسلی کے لئے ایک مجلس شوریٰ بھی بنائی تھی خواجہ آصف کے والد، احسن اقبال کی والدہ اور خرم دستگیر کے والد اس مشہور زمانہ مجلس شوریٰ میں شامل تھے۔

ابھی کل ہی کی بات لگتی ہے جب جنرل جیلانی کے راستے ایک نوجوان شہری نواز شریف پنجاب کا وزیر خزانہ بنا، پھر وہ ایسا جرنیلی سڑک پر چڑھا کہ ساری منزلیں طے کرتا گیا۔ یہ بات بھی پرانی نہیں لگتی جب ایم آر ڈی کی تحریک چلی تھی، یہ بات کونسی پرانی لگتی ہے کہ لوگ بھٹو کی محبت میں ضیاء الحق کے مارشل لا کے خلاف پھانسیاں چڑھ گئے، لوگوں نے کوڑے کھائے،جیلیں برداشت کیں۔ یہ قصہ بھی پرانانہیں لگتا جب ضیاء الحق نے مرضی کی پارلیمنٹ بنانے کے لئے 1985ء میں غیر جماعتی الیکشن کروائے۔ مرضی کے اس الیکشن میں ضیاء الحق مٹی کے کئی باوے سامنے لائے، چند ان کی مرضی کے خلاف بھی ہوگئے۔ ان چند افراد نے ناک میں دم کئے رکھا مگر ضیاء الحق اپنے مقصد میں کامیاب رہے۔ 1985ء کے الیکشن میں ان لوگوں کی اکثریت ایم این اے بن گئی جو کونسلر بننے کے اہل نہیں تھے۔ ان لوگوں نے سیاست میں کرپشن کو رواج دیا اور اسے بام عروج تک لے آئے۔ 1985ء سے لے کر 1999ء تک ہم نے کئی حکومتیں آتے جاتے دیکھیں، اس دورا ن آئین کی شق 58 ٹو بی کا بے دریغ استعمال بھی دیکھا۔ یہ وہ دور تھا جب ایک دوسرے پر الزامات کی بارش ہوتی رہی۔ یہ اسی دور کا کرشمہ تھا کہ آصف علی زرداری جیل سے سیدھا وفاقی وزارت تک پہنچے، نوے کی دہائی میں مولانا کوثرنیازی مرحوم کی فاتحہ خوانی کے بعد جب صحافیوں کا آصف علی زرداری سے ٹاکرا ہوا توگاڑی میں بیٹھے ہوئے بے نظیر بھٹو شہید کے شوہر نے ٹیک لگاتے ہوئے اتنا کہا تھا ...’’ ہمارے مخالفین کے پاس پیسہ زیادہ ہے نا، بس اب ہم بھی اتنا پیسہ بنائیں گے کہ مخالفین کا مقابلہ کرسکیں...‘‘اس کے بعد آصف زرداری نے پیسہ بنانے کے عمل کو تیز کردیا۔ 1997ء کے بعد میاں نواز شریف میں تکبرآگیا تھا، وہ ہر ایک کو کچلنے کے راستے پر چل پڑے پھر انہوں نے وہ راستہ بھی اختیار کرلیا جہاں لکھا ہوتا ہے...’’ یہ شارع عام نہیں ہے...‘‘ اسی شاہراہ پر بارہ اکتوبر 1999ء کو میاں نواز شریف حادثے کا شکار ہوگئے ۔ اس حادثے میں سارا نقصان نواز شریف کا ہوا۔ وہ جیل میں چلے گئے پھر ابا جی کا دم کام آگیا اور انہیں ایک معاہدے کی صورت میں جلاوطنی نصیب ہوگی۔ اس دوان پوری مسلم لیگ ن قوم سے جھوٹ بولتی رہی کہ کوئی معاہدہ نہیںہوا۔ جلا وطنی کے دوران چکر شکر چلا کر یہ خاندان لندن پہنچ گیا۔ واپسی کے لئے بے نظیر بھٹو نے اپنے ساتھ ان کا راستہ بھی ہموار کیا۔

ابھی کل کی بات لگتی ہے جب اے آر ڈی کی قیادت کو لاعلم رکھ کر نواز شریف چلے گئے تو نوابزادہ نصراللہ خان مرحوم فرمانے لگے ...’’زندگی میں پہلی بار کسی تاجر سے ہاتھ ملایا تھا، اب یہ سوچ رہا ہوں کہ ہاتھ بھی ساتھ ہے یا نہیں...‘‘

ایک آمر سے این آر او کے بعد بے نظیر بھٹو اور نواز شریف وطن واپس آئے۔ 27دسمبر 2007ء کو محترمہ بے نظیر بھٹو کو شہید کردیا گیا، 18فروری 2008ء کو الیکشن ہوئے تو پیپلز پارٹی جیت گئی مگر پنجاب کا اقتدار اسے نہ مل سکا۔ شروع میں پیپلز پارٹی اور ن لیگ صوبے اور وفاق میں اقتدار کی حصے دار تھیں پھر اسے چوہدری نثار علی خان کی نظر لگ گئی۔ 2008ء سے 2013ء تک پیپلز پارٹی وفاق کے علاوہ سندھ، بلوچستان اور خیبرپختونخوا کے اقتدار میں شامل رہی، پنجاب میں ن لیگ تھی۔ 2013ء کے بعد پیپلز پارٹی سندھ تک محدود ہوگئی۔ وفاق، پنجاب اور بلوچستان میں ن لیگ نے اقتدار سنبھالا، خیبر پختونخوا میں تحریک انصاف کو اقتدار ملا۔ 2018ء کے الیکشن میں وفاق، خیبرپختونخوا، پنجاب اور بلوچستان میں تحریک انصاف اقتدار میں ہے ۔ سندھ میں حسب سابق پیپلز پارٹی کا اقتدار ہے۔ 2018ء کے آخری دنوں میں سندھ میں ہلچل پیدا ہو چکی ہے، پیپلز پارٹی کے بہت سے وزراء اور قائدین کے نام جے آئی ٹی کی رپورٹ کے بعد ای سی ایل کا حصہ بن چکے ہیں۔ سیاست میں گرما گرمی ہے جبکہ ملک کا موسم انتہائی سرد ہے، ملک کے کئی علاقوں میں برف باری ہو رہی ہے، ابھی ابھی کینیڈا سے میرے دوست مرتضیٰ اقبال نے فون پر بتایا ہے کہ سکاٹون نامی شہر نے برف کی چادر اوڑھ رکھی ہے، جدھر دیکھو برف ہی برف ہے۔

پاکستانی سیاست میں اس وقت احتساب کے بڑے چرچے ہیں، لوٹ مار کی نت نئی کہانیاں سامنے آ رہی ہیں۔ کہا جا رہا ہے کہ ملک میں زیادہ کرپشن پچھلے دس سالوں میں ہوئی ہے۔ ان دس سالوں میں برسراقتدار رہنے والوں نے ملکی خزانے کو بڑی بے دردی سے لوٹا ہے۔ لوٹ مار کے ان قصوں میں ڈرائیوروں، مالشیوں، ماڈلوں اور شربت فروشوں کا تذکرہ عام ہے۔ اس لوٹ مار نے ملکی معیشت کو برے حالات میں پہنچا دیا تھا۔ موجودہ حکومت کے سامنے سب سے بڑا ٹاسک یہی ہے کہ وہ کس طرح خراب معاشی صورتحال کو بہتر بناتی ہے۔ اس کے لئے آج سے شروع ہونے والا سال بڑا اہم ہے۔ موجودہ حکومت کرپشن کے خلاف اپنے نعرے پر قائم ہے۔ اسی لئے جب بھی کسی کرپٹ آدمی کو پکڑا جاتا ہے تو ن لیگ اور پیپلزپارٹی کی طرف سے یہ کہا جاتا ہے کہ ’’جمہوریت خطرے میں ہے...‘‘جمہوریت خطرے میں نہیں ہے بلکہ یہ نظام خطرے میں ہے۔ میں نے تین سال پہلے لکھا تھا کہ ملک میں صدارتی نظام کے بارے میں سوچا جا رہا ہے، اب موجودہ صورتحال کو دیکھتا ہوں تو لگتا ہے کہ صدارتی نظام کی طرف سیاست دوڑتی جا رہی ہے۔ شاید یہ اس لئے ہے کہ پارلیمانی نظام لوگوں کے مسائل حل کرنے میں ناکام ہوگیا ہے۔ شاید یہ اس لئے ہے کہ پارلیمانی نظام معاشرے میں بگاڑ کا ذمہ دار ہے۔ شاید یہ اس لئے بھی ہے کہ پارلیمانی نظام کرپشن کو روکنے میں بری طرح ناکام ہو ا ہے۔ مجھے تو سیاست میں صدارتی نظام صاف دکھائی دے رہا ہے۔ مگر مجھے محسن نقوی کے اشعار بھی یاد آتے ہیں کہ:

ذکرِ شبِ فراق سے وحشت اسے بھی تھی

میری طرح کسی سے محبت اسے بھی تھی

مجھ کوبھی شوق تھا نئے چہروں کی دید کا

رستہ بدل کے چلنے کی عادت اسے بھی تھی

تازہ ترین