• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
,

قیادت مشکل میں: کیا پیپلز پارٹی کے کارکن کسی بڑی تحریک کے لئے تیار ہیں؟

نئے سال 2019ء کا سورج طلوع ہو گیا ہے مگر بس سیاستدانوں اور اہم شخصیات پر نئے سال کے سورج کی کرنیں نئی مصیبتوں کے ساتھ منڈلا رہی ہیں سندھ حکومت کی تبدیلیوں اور آصف زرداری سمیت پیپلز پارٹی کے کئی لیڈروں کی گرفتاریوں کی بازگشت زبان زد عام ہے۔ دوسری طرف پیپلز پارٹی کے قائدین آصف علی زرداری اور بلاول بھٹو زرداری نے بھی انتہائی سخت لب و لہجہ اختیار کر لیا ہے۔ پیپلز پارٹی کے مرکزی قائدین آصف علی زرداری، بلاول بھٹو زرداری، فریال تالپور اور وزیر اعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ سمیت سرکردہ 172 رہنمائوں کے نام ای سی ایل میں شامل کر دیئے گئے تھے۔ جس سے پیپلز پارٹی کی صفوں میں بھونچال آ گیا اور ملک ہیجانی کیفیت میں مبتلا ہو گیا ملک پہلے ہی کئی بحرانوں میں گھیرا ہوا ہے حکومت کے اس فیصلے سے ہلچل مچ گئی مگر بھلا ہو چیف جسٹس پاکستان میاں ثاقب نثار صاحب نے جس طرح پانی کے بحران پر قابو پانے، کرپشن کے خاتمے، بیوائوں، یتیموں کی فریاد سننے بااثر قبضہ گروپوں کے زیر قبضہ زمینوں کو واگزار کرانے کا بیڑا اٹھایا اسی طرح پیپلز پارٹی کے رہنمائوں کے نام ای سی ایل میں ڈالنے کا سخت نوٹس لیا اور شدید برہمی کا اظہار کیا اور وزیر مملکت برائے داخلہ شہریار آفریدی کو طلب کر لیا اور اٹارنی جنرل سے پوچھا کہ یہ کیسے ہوا۔ چیف جسٹس میاں ثاقب نثار کے استفسار پر اٹارنی جنرل نے کہا کہ یہ اقدام جے آئی ٹی کے سربراہ احسان صادق نے حکومت کو لکھے گئے خط کی بنیاد پر کیا گیا جے آئی ٹی کے سربراہ نے اپنے خط میں لکھا کہ پیپلز پارٹی کے 172 رہنمائوں کے نام ای سی ایل میں ڈال دیئے جائیں جس پر کابینہ نے فیصلہ دیا چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے پوچھا کیا ہم نے کہا تھا کہ ان افراد کے نام ای سی ایل میں ڈالدیں تو احسان صادق نے کہا کہ میرا فرض تھا کہ ملزمان کے بارے میں حکومت کو آگاہ کروں۔ہم نے تو نہیں کہا تھا ان افراد کے نام ای سی ایل میں ڈال دیں ۔وزیر اعلیٰ سندھ مراد علی شاہ کا نام بھی ای سی ایل میں ڈال دیا ،کیا اتنے بڑے صوبے کا وزیر اعلیٰ کہیں بھاگ رہا تھا ۔کیوں نہ وزیر اعلیٰ پنجاب کا نام بھی ای سی ایل میں ڈال دیں۔ جے آئی ٹی اپنے اختیارات سے تجاوز نہ کریں جے آئی ٹی اتنا کام کرے جتنا اسے اختیار ہے اسکے ساتھ ہی چیف جسٹس میاں ثاقب نثار اور جسٹس اعجاز الحسن صاحب پر مشتمل بنچ نے نام ای سی ایل سے نکالنے کی ہدایت کر دی ۔چیف جسٹس نے جے آئی ٹی کے سربراہ کی سرزنش کرتے ہوئے کہا کہ یہ سارا بحران آپکا پیدا کردہ ہے اسی دوران ایڈووکیٹ جنرل سندھ سے وزیراعلیٰ سندھ کا نام ای سی ایل سے نکالنے کی استدعا کی تو چیف جسٹس صاحب نے کہا کہ اگر وزیراعلیٰ سندھ نے باہر جاتا ہے تو درخواست دیں ہم مراد علی شاہ کا نام ای سی ایل سے نکلوا دیں گے۔ میاں ثاقب نثار نے کہا کہ ہم سندھ میں گورنر راج نہیں لگنے دیں گے اور نہ ہی جمہوریت کو ڈی ریل نہیں ہونے دیں گے جے آئی ٹی کی رپورٹ آسمانی صحیفہ نہیں اگر جے آئی ٹی کے سربراہ کا نام بھی ای سی ایل میں ڈال دیں تو یہ آپ پر ایک داغ نہیں۔ موجودہ وزیراعلیٰ کا نام ای سی ایل میں ڈال کر ایک دھبہ لگایا گیا ہے گورنر راج آئین کے مطابق لگ سکتا ہے حکومت اپنی پوزیشن کلیئر کیوں نہیں کرتی چیف جسٹس میاں ثاقب نثار صاحب کی سربراہی میں بینچ نے جے آئی کا فیصلہ مسترد کرکے ایک نئے بحران پر قابو پالیا ہے۔ یقیناً پیپلز پارٹی کی صفوں میں سکون کی لہر دوڑ گئی ہو گی۔ مگر پیپلز پارٹی کی قیادت کو بہت زیادہ مطمئن بھی نہیں ہونا چاہئے کیونکہ سپریم کورٹ میں جعلی اکائونٹس اور منی لانڈرنگ کا کیس زیر سماعت ہے اور پیپلز پارٹی کی اعلیٰ قیادت پر اس کیس کی تلوار لٹک رہی ہے اور چیف جسٹس صاحب نے اپنی مدت ملازمت پوری ہونے سے پہلے اس اہم کیس کا فیصلہ لازماً کرنا ہے دیکھتے ہیں کہ اس کیس کا کیا نتیجہ نکلتا ہے سیاسی مبصرین کا یہی خیال ہے کہ پیپلز پارٹی کے مرکزی لیڈروں کی گرفتاری کا امکان ہے تا ہم سپریم کورٹ نے آصف علی زرداری اور فریال تالپور کو جواب دائر کرنے کی مہلت دیدی دیکھیں اونٹ کس کروٹ بیٹھتا ہے اگر آصف علی زرداری اور فریال تالپور اور بعض دیگر رہنما گرفتار ہوتے ہیں تو پیپلز پارٹی کوئی موثر ردعمل کر پائے گی اور کیا پیپلز پارٹی نے اپنے کارکنوں کو کسی بڑی جدوجہد کے لئے تیار کر لیا ہے پنجاب میں تو ایسی کوئی صورتحال نظر نہیں آتی کیونکہ پنجاب میں پیپلز پارٹی اپنی مقبولیت واپس لانے میں کامیاب نہیں ہوئی تا ہم سندھ میں شائد پیپلز پارٹی کوئی ردعمل ظاہر کر سکے مگر پارٹیوں کے کارکن اپنی قیادتوں سے مایوس اور بیزار ہیں کیونکہ جب سیاسی جماعتیں اقتدار میں ہوتی ہیں تو کارکنوں کو میلوں دور رکھتی ہیں یہی حال پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن کا ہے مسلم لیگ ن کی پوری قیادت جیل میں ہے ۔میاں نواز شریف کو دوسری مرتبہ سزا ہونے اور مسلم لیگ ن کے صدر میاں شہبا ز شریف کو گرفتار کئے جانے کے دوران مسلم لیگ ن اپنے گڑھ پنجاب میں کوئی تحریک چلانے یا لاکھوں کارکنوں کو باہر نکالنے میں کامیاب نہیں ہو سکی جس کی وجہ یہ ہے کہ میاں نواز شریف اور شہباز شریف نے اپنے دور اقتدار میں کارکنوں کو نہ قریب آنے دیا نہ ہی کارکنوں کے مسائل حل کئے ایک مخصوص طبقہ اور کچن کیبنٹ کے لوگ ہی انکے اردگرد رہے آج انکے لئے کوئی کارکن یا عام لوگ مار کھانے یا قید و بند کی صعوبتیں اٹھانے کے لئے تیار نہیں، یہی حال آصف علی زرداری صاحب کا ہے انکے دور میں وہ تو سیکورٹی حصار میں تھے مگر ان کے دو وزرائے اعظم سید یوسف رضا گیلانی، راجہ پرویز اشرف اور ان کی کابینہ کے ارکان نے کارکنوں کو نزدیک نہ آنے دیا اور وہ غریب جیالے مجبوراً اور انتقاماً اپنی وفاداریاں تبدیل کر کے تحریک انصاف میں جا گھسے، زرداری صاحب نے جن لوگوں پر نوازشات کیں وہ بھی مصیبت کے وقت کنارہ کشی اختیار کر گئے۔ اقتدار کے پجاری آج عمران خان کے ساتھ جا کر بیٹھ گئے وہ مفاد پرست جب دیکھیں گے کہ عمران خان کے اقتدار کا سورج غروب ہونے والا ہے وہ چھلانگ لگا کر دوسری جماعت میں جا گھسیں گے پیپلز پارٹی واحد جماعت ہے جس کے کارکن جئے بھٹو کے نظرئیے کو سینے سے لگائے بھوکے پیاسے قربانیاں دیتے رہے ہیں جن کارکنوں سے ذوالفقار علی بھٹو کے ساتھ ایسی سیاسی زندگی کا آغاز کیا انکی اولادوں کی اولادیں جئے بھٹو کے نعرے لگاتی رہیں حالانکہ انہوں نے بھٹو کو نہیں دیکھا انہوں نے بے نظیر بھٹو کا اس نعرے کے ساتھ جدوجہد کی مگر بعد میں نظر انداز ہونے کے بعد یا تو وہ اپنے گھروں میں بیٹھ گئے یا دوسری جماعتوں میں چلے گئے۔ دیکھنا یہ ہے کہ بلاول بھٹو اگر مقدمات سے بچے رہے اور انہیں سیاست جاری رکھنے کا موقع ملا تو وہ کیسے اپنے کارکنوں کو واپس لائیں گے اور پارٹی کو کیسے متحرک کریں گے۔ چیف جسٹس ثاقب نثار صاحب 17 جنوری کو اپنی مدت پوری ہونے پر ریٹائر ہو رہے ہیں میاں ثاقب نثار صاحب نے جس جرأت و بہادری سے ملک کی دولت لوٹنے والوں، زمینوں پر قبضہ کرنے والوں کو نتھ ڈالی وہ اپنی مثال آپ ہے بڑے بڑے بدمعاشوں اور بااثر لوگوں کو سپریم کورٹ میں ہاتھ باندھتے ہوئے دیکھا جس طرح انہوں نے دن رات عدالت لگائی اور چھٹیوں کے دنوں میں بھی کیسوں کی سماعت کی ہزاروں لوگوں کو ریلیف دیا انکا سب سے بڑا کارنامہ قوم کو پانی کے آنے والے سنگین بحران سے آگاہ کیا اور قوم اور حکومت کو ڈیم بنانے پر آمادہ کیا ان کا یہ اقدام عدلیہ کی تاریخ میں سنہری حروف میں لکھا جائے گا انکے ساتھ دن رات کام کرنے والے انکی ٹیم کے ججز جسٹس عطا بندیال، جسٹس اعجازالحسن، جسٹس فیصل عرب، جسٹس عظمت شیخ بھی خراج تحسین کے مستحق ہیں۔ چیف جسٹس میاں ثاقب نثار کے جانے سے یقیناً کرپٹ لوگ خوش ہونگے مگر شائد وہ بھول گئے ہیں کہ آئندہ آنے والے چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ بھی لٹیروں کو رعایت دینے والے نہیں وہ بھی خاصے سخت جج ہیں اور چیف جسٹس ثاقب نثار صاحب نے ٹرینڈ سیٹ کیا ہے یقیناً وہ بھی اس پر کاربند رہیں گے اور انکے دور میں بھی پسے ہوئے طبقات کو ریلیف ملے گا اور وہ قومی دولت لوٹنے والوں کے ساتھ آہنی ہاتھوں سے نمٹیں گے آصف سعید کھوسہ صاحب 18جنوری 2019ء کو نئے چیف جسٹس کے طور پر ذمہ داریاں سنبھالیں گے اور 20دسمبر 2019ءتک چیف جسٹس رہیں گے۔ اس سال ریٹائر ہونے والے دیگر ججوں میں جسٹس عظمت سعید ہیں جو 19 اگست 2019ء میں ہم چیف جسٹس میاں ثاقب نثار صاحب کو ڈھیروں دعائوں اور نیک دعائوں کے ساتھ رخصت کر رہے ہیں وہ جہاں بھی رہیں اپنے بچوں اور خاندان کے ساتھ خوش و خرم رہیں امید ہے وہ ریٹائرمنٹ کے بعد بھی ملک و قوم کے لئے اپنی خدمات جاری رکھیں گے۔

تازہ ترین
تازہ ترین