• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ماسوائے حکومت کے ہر کوئی پریشان ہے کہ ملکی معیشت کے حالات بہتری کے بجائے‘ باوجود دوست ممالک کی خاطر خواہ امداد کے، خرابی کی طرف رواں دواں ہیں۔ حکومتی وزراء اور تحریک انصاف کے رہنما پُرامید ہیں کہ معیشت کے حالات اب بہتری کی طرف گامزن ہوں گے، مہنگائی کم ہو گی، روزگار کے مواقع میں اضافہ ہو گا، پاکستان کی ایکسپورٹس بڑھیں گی اور ملک کی صنعت اور کاروبار ترقی کرے گا۔ سارا زور ’’گا، گی، گے‘‘ پر ہے کہ یہ ہو گا، وہ کریں گے۔ گزشتہ چار پانچ ماہ کے دوران جو کچھ کیا، اُس سے تو بہتری کے بجائے معاشی حالات مزید خراب ہو رہے ہیں۔ جن کو چور، ڈاکو کہہ کہہ کر حکومتی اہلکار نہیں تھکتے، اُن کے مقابلے میں اِن چار، پانچ ماہ کے دوران مہنگائی کافی بڑھ چکی ہے، بجلی، گیس، ایل پی جی، سی این جی اور پیٹرول سب کچھ مہنگا ہو گیا ہے۔ کاروباری طبقہ معیشت کے حوالے سے بہت پریشان ہے جبکہ چند دن قبل تک تحریک انصاف حکومت کے ترجمان برائے معاشی امور‘ ڈاکٹر فرخ سلیم نے اپنے تازہ آرٹیکل میں معیشت کے جو اعداد و شمار پیش کیے، وہ انتہائی پریشان کن ہیں۔ مجھے ایک ریٹائرڈ جنرل صاحب جو اکثر ٹی وی چینلز پر ٹاک شوز میں نظر آتے ہیں، نے آف دی ریکارڈ گفتگو میں بتایا کہ حکومت کی معاشی پالیسی اور حکومتی ارکان کی طرف سے سیاسی عدم استحکام کی صورت حال پیدا کیے جانے پر ریاستی اداروں کو بھی پریشانی لاحق ہے۔ جنرل صاحب نے مجھے بتایا کہ تحریک انصاف کی حکومت کو ریاستی اداروں کی طرف سے بھی Conveyکیا گیا ہے کہ سیاسی عدم استحکام پیدا کرنے سے گریز کریں اور معیشت کی بہتری پر توجہ دیں۔ ٹی وی ٹاک شوز میں شرکت کرنے والے ریٹائرڈ جنرل صاحبان کو آج کل سنیں تو وہ بھی حکومت کی معاشی پالیسی اور بلاوجہ کے سیاسی لڑائی جھگڑوں سے کافی نالاں نظر آتے ہیں۔

حکومت کو مشورہ دیا جاتا ہے کہ نیب اور ایف آئی اے کو احتساب کرنے دیں اور اپنے بچکانہ بیانات سے سیاسی تلخی کو اتنا نہ بڑھائیں کہ سیاسی عدم استحکام کے حالات پیدا ہوں کہ جس میں نہ کوئی قانون سازی ممکن ہے اور نہ ہی معیشت اور کاروباری حالات بہتر ہو سکتے ہیں۔ یہاں تو بہت سے حکومت کے خیر خواہ حیران ہیں کہ چند ووٹوں کی اکثریت سے قائم ہونے والی مخلوط حکومت کے وزراء کس طرح اپنے مخالفین کی صوبائی حکومت کو ختم کرنے کی بات کر کے دراصل اپنی ہی حکومت کے لیے مشکلات پیدا کر رہے ہیں۔ ایسے سیاسی ماحول میں معیشت اور کاروبار کی بہتری ناممکن ہے۔ یہ وہ نکتہ ہے جو تحریک انصاف کی سیاسی قیادت اور وزراء کو سمجھنے کی اشد ضرورت ہے۔ اپوزیشن کا کہنا ہے کہ وہ حکومت کو گرانے کے بجائے اس کو اپنے ہی بوجھ تلے دبتا دیکھنے کے انتظار میں ہے۔ ن لیگ کے رہنما سعد رفیق کا ایک معنی خیز بیان آج کے اخبارات میں شائع ہوا۔ سعد رفیق کا کہنا ہے کہ پاکستان کو نالائقوں کے حوالے کرنے والے بھی پچھتا رہے ہیں۔ پاکستان کے لیے یہی بہتر ہے کہ موجودہ تحریک انصاف کی حکومت کامیاب ہو، ہماری معیشت بہتر ہو، یہاں کاروبار بڑھے اور روزگار کے مواقع میں اضافہ ہو۔ لیکن ایسا اُسی صورت میں ممکن ہو گا جب عمران خان کی حکومت سیاسی استحکام لانے میں کامیاب ہو گی اور اپنے ایسے وزراء اور رہنمائوں کو نکیل ڈالے گی جو دن رات اپوزیشن جماعتوں کو چور، ڈاکو کہتے نہیں تھکتے اور روز نت نئے تنازعات پیدا کر کے حکومت کے لیے محض مشکلات پیدا کر رہے ہیں۔

معیشت کا سیاسی استحکام سے گہرا تعلق ہے۔ اگر حکومت مستحکم نہیں ہو گی اور سیاسی عدم استحکام کے حالات کا ملک کو سامنا ہو گا تو کچھ بھی کر لیں، معیشت میں بہتری ممکن نہیں۔ حکومت کو یہ بھی سمجھنے کی ضرورت ہے کہ اگر آج پاکستان کے دوست ممالک پاکستان کو معاشی مشکلات سے نکالنے کے لیے مدد کر رہے ہیں تو ایسا بار بار ممکن نہیں ہو گا۔ ایسا نہ ہو کہ ایک یا دو سال کے بعد ہماری وہی معاشی حالت دوبارہ ہو، جس کا ہمیں آج سامنا ہے۔

(کالم نگار کے نام کے ساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائے دیں 00923004647998)

تازہ ترین