• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
علامہ طاہر القادری کے اجتماع پر مخالف سیاسی و مذہبی جماعتوں کے علاوہ بعض آئینی ماہرین کے تبصرے پڑھ اور سن کر سچی بات ہے مجھے تو رونا آ رہا ہے۔ آئین کی مختلف شقوں پر عملدرآمد کے مطالبہ کو ملک کے لئے مزید خطرات کا موجب قرار دینا اور انتخابی اصلاحات پر ناک بھوں چڑھانا؟ بریں عقل و دانش بباید گریست ہوتی۔ خود کشی پر آمادہ بلکہ دلائل سے افادیت ثابت کرنے پر مصر یہ انٹیلی جنشیا۔ خدا کی پناہ؟
حیرت اس بات پر ہے کہ کینیڈا کی شہریت رکھنے والے ایک شخص کے معتقدغریب دیہاتیوں کی چھوٹی سی ”رینٹ اے ریلی“ 10 جنوری کی مذاق ڈیڈ لائن“ اور ”انتخابات سے قبل اصلاحات کے گھسے پٹے نعرے“ پر ”عوام میں مقبول“، ”سیاسی طور پر مضبوط“ اور” قومی خدمت کے جذبے سے سرشار“جماعتوں میں سراسیمگی کی لہر کیوں دوڑ گئی ہے اور بعض دانشوروں سے مل کر ان کی اجتماعی نوحہ گری کا سبب کیا ہے؟ اندر کا خوف، اپنی ناکامیوں کا شعور، عوامی بیداری کا ادراک یا قومی موڈ کا اندازہ؟
کچھ تو ہے جس کی پردہ داری ہے
گزشتہ شب تحریک انصاف کے صدر مخدوم جاوید ہاشمی کے ساتھ گپ شپ کی محفل میں شہروں کی نوجوان نسل میں بیداری کا ذکر چھڑا اور موجودہ سیاسی، انتخابی و سماجی ڈھانچے سے عوامی بیز اری پر بات چلی تو چالیس برس سے عوامی جذبات و احساسات کی نمائندگی کرنے والے اس سیاستدان نے دیہی آبادی میں موجودہ سیاسی اشرافیہ کے خلاف پائے جانے والے اشتعال اور غصہ کی نشاندہی کی اور غربت و افلاس، بے روزگاری، مہنگائی، بدامنی اور لاقانونیت کا عذاب سہنے والے دیہی عوام کے بارے میں بتایا کہ الیکٹرانک میڈیا کے طفیل وہ اس اشرافیہ کی لوٹ مار، فضول خرچی، ٹیکس چوری، قرضہ خوری اور انسانیت دشمنی سے واقف ہیں اور 1970 کی طرح تبدیلی کے خواب دیکھنے لگے ہیں۔
وہ روائتی حلقہ جاتی سیاست میں میاں نواز شریف کی پیش قدمی کا اعتراف کرتے ہوئے اس بات پر حیران تھے کہ معلوم نہیں میاں صاحب زرداری صاحب کی طرح یہ حقیقت کیوں فراموش کر بیٹھے ہیں کہ جن ELECTABLES کی لوٹ مار، قانون شکنی، سیاسی بے وفائی، مظالم اور اقربا پروری، خویش نوازی سے عوام بالخصوص نوجوان تنگ ہیں انہیں گلے لگا کر مسلم لیگ (ن) گھاٹے کا سودا کر رہی ہے اور یہ تاثر پختہ کر رہی ہے کہ دونوں بڑی جماعتوں میں کوئی فرق نہیں اور وہ عمران خان سے خوفزدہ ہیں؟
اس بات سے قطع نظر کہ جاوید ہاشمی کیا کہتے ہیں اور اب علامہ طاہر القادری کے کامیاب اجتماع سے سیاسی جماعتوں کو کیا پیغام ملا ہے اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں کہ آصف زرداری جناب ذوالفقار علی بھٹو کی طرح پیپلز پارٹی کو 1977 کے انجام کی طرف دھکیل رہے ہیں اور ان کی حریف جماعت مسلم لیگ (ن) 2007کے آخری دنوں میں مسلم لیگ (ق) کی طرف سے اختیار کی گئی حکمت عملی پر کاربند نظر آتی ہے کہ حلقوں میں مضبوط امیدواروں اور ترقیاتی منصوبوں کی تکمیل کے بل بوتے پر عام انتخابات کا ہمالیہ سر کیا جائے جو تجزیہ کار اور دانشور ان دنوں واہ واہ مرحبا کی صدائیں بلند کر رہے ہیں وہ 2007 میں مسلم لیگ (ق) کی 115 نشستوں پر کامیابی کی مٹھائی تناول کرنے کے بعد صرف اس بات پر بحث کیا کرتے کہ جنرل پرویز مشرف کے وزیراعظم چوہدری پرویز الٰہی ہوں گے یا مخدوم امین فہیم؟ اللہ اللہ خیر سلا۔
صدر آصف علی زرداری پہلے اپنے باکمال سسر قائد عوام ذوالفقار علی بھٹو کی طرح پیپلز پارٹی کے دیرینہ کارکنوں اور محترمہ کے ساتھیوں ناہید خان، صفدر عباسی، ڈاکٹر بابر اعوان، ڈاکٹر ذوالفقار علی مرزا، رحیم داد خان، عزیز الرحمن چن کو مختار رانا، غلام مصطفی کھر، مبشر حسن، احمد رضا قصوری کے انجام سے دوچار کرنے کے بعد غلام اسحاق خان کے داماد انور سیف اللہ، میاں منظور وٹو، احمد محمود اور حاجی نواز کھوکھر کے ذریعے پیپلز پارٹی کی کشتی انتخابی دریا میں اتارنا چاہتے ہیں جبکہ مسلم لیگ (ن) میں جنرل پرویز مشرف کے دیگر ساتھیوں کے بعد اب بریگیڈیئر اعجاز شاہ کو شامل کرنے کی بحث چل رہی ہے معلوم نہیں جنرل (ر) محمود، ندیم، اعجاز اور صلاح الدین ستی نے اپنا کوئی حلقہ انتخاب بنایا ہے یا نہیں اگر بنایا ہے تو ان کا حق بریگیڈیئر (ر) اعجاز شاہ سے فائق ہے۔
لوگ حیران ہیں کہ اگر عشروں سے قوم کی گردن پر سوار یہ سانپ اور سنپولئے ہی ایک مخصوص اجارہ دارانہ انتخابی سسٹم کے طفیل الیکٹ ایبلز بن جانے کی وجہ سے قوم کی قسمت سنوار سکتے ہیں تو اب تک کیوں نہیں سدھار سکے اور اب محض وفا داری تبدیل کرنے سے ان میں کونسی اہلیت، صلاحیت، خدا خوفی اور عوام دوستی پیدا ہو جائے گی کہ وہ کسی قسم کی مفید اور نتیجہ خیز اصلاحات کے بغیر انتخابات میں کامیابی کے بعد دودھ شہد کی نہریں بہا دیں گے اس لئے سیاسی جماعتوں کو ان کی اجارہ داری، دھڑے بندی، دھن دھونس، دھاندلی کے سامنے سرنڈر کر دینا چاہئے اور طاقت کا سرچشمہ عوام یا اقدار کی سیاست کے اصولی نعروں کو فراموش کر کے اپنی جماعتوں کی باگ ڈور اور اگلی حکومت ان کے ہاتھوں میں تھما دینی چاہئے کیونکہ یہ لوٹ مار کی دولت، ذات برادری، زبان و نسل اور مسلک کے تعصبات اور غنڈہ گردی کے زور پر انتخابی عمل پر ڈاکہ مار سکتے ہیں اور کامیابی کے مکروہ گر جانتے ہیں۔
تبدیلی کے نعرے کو ایجنسیوں کا کھیل قرار دیا گیا، انتخابی اصلاحات کے مطالبہ سے کوئی سنجیدہ اعتراض کرنے کے بجائے اخراجات کی تفصیل طلب کی جا رہی ہے گویا کوئی عوامی اجتماع صرف سرکاری وسائل اور پٹواری تھانیدار کی مدد سے منعقد کرنا جائز ہے کارکنوں کے عطیات اور ایثار سے ممکن نہیں۔ خدا کا شکر ہے کسی کو اقبال پارک کا طول و عرض مانپنے کی نہیں سوجھی حالانکہ ان سب سیانوں اور سیاست کے فرعونوں، معیشت کے قارونوں اور طاقت و اختیار کے نمرودوں کو اس وقت صرف یہ سوچنا چاہئے کہ لوگ اتنی بڑی تعداد میں سڑکوں پر نکل کر We Want Change کا نعرہ کیوں لگا رہے ہیں اسلام آباد کی طرف مارچ کی دعوت پر لبیک کیوں کہہ رہے ہیں اور موجودہ آدم خور سیاسی انتخابی، سماجی اور معاشی ڈھانچے سے ان کی نفرت کی وجہ کیا ہے؟ مگر کوئی سوچے تو؟
تازہ ترین