• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

 پاکستان میں ان دنوں بڑھتی ہوئی بے روزگاری اور منہگائی کے مسائل زبان زدِ عام ہیں۔ اگرچہ یہ مسائل ایک روز میں پیدا نہیں ہوئے،لیکن ان دنوں اس کی بازگشت شاید اس لیے زیادہ سنائی دے رہی ہے کہ نئی حکومت آئی ہے اورجو سیاسی جماعت اس وقت برسر اقتدار ہے اس نےعوام کو نیا پاکستان بنانے کی امید دلائی تھی۔ایسا پاکستان جس میں عوام کے سارے دیرینہ مسائل حل ہوجائیں گے۔ لیکن کئی ماہ گزرنے کے باوجود عوام کوئی راحتِ جاں خبر سننے میں ناکام رہے ہیں۔یہ درست ہے کہ دہائیوں پر محیط مسائل چند ماہ میں کم یا ختم نہیں ہوسکتے،لیکن عوام کو ان مسائل کی باریکیوں کی خبر نہیں۔وہ سوال کرتے ہیں کہ اگر فوری کوئی تبدیلی نہیں لائی جاسکتی تھی تو اتنے دل فریب نعرے کیوں لگائے گئے تھے کہ نئی حکومت آتے ہی بیرون ملک سے اربوں ڈالرز کی بارش شروع ہوجائے گی؟

ان حالات میں نوجوان نسل بہت پریشان دکھائی دیتی ہے۔وہ نوجوان جو کسی بھی ملک کی ترقی میں بنیادی کردار ادا کرتے ہیں ۔ لیکن کس قدر دکھ کی بات ہے کہ ہم نے ان کی صلاحیتوں سے فائدہ اٹھانے کےبجائے انہیں بےروزگاری کے سیلاب کی نذر کر دیا ہے ۔اقوام متحدہ کے ذیلی ادارے یونائیٹڈ نیشنل ڈیولپمنٹ پروگرام کی مئی 2018 کی رپورٹ کے مطابق پاکستان میں صرف 39 فی صد نوجوانوں کو روزگار کے مواقعےحاصل ہیں، دو فی صد مردوں اور خواتین کو روزگار کی تلاش ہے اور57 فی صد بے روزگاروں کو ملازمت کی تلاش ہی نہیں۔پاکستان میں 77 فی صد نوجوان روزگار کی خاطر تعلیم ادھوری چھوڑ دیتے ہیں۔ 15 سے 29 سال کی آبادی ملک کی مجموعی لیبر فورس کا 41.6 فی صدہے۔40 لاکھ نوجوان ہر سال جاب مارکیٹ میں داخل ہو رہے ہیں۔ اقوام متحدہ کے مطابق پاکستان کو چاہیے کہ وہ ہرسال دس لاکھ افراد کے لیے روزگار کے مواقعے فراہم کرے۔

غلط اعدادوشمار کا گورکھ دھندا

ہمارے متعلقہ سرکاری ادارے عوام کو بے وقوف بنانے اور انہیں اندھیرے میں رکھنے کے لیے عموما غلط اعدادوشمار پیش کرتے ہیں۔چناں چہ ایسا ہی معاملہ ملک میںبے روزگاری کی شرح کے ضمن میں بھی ہے۔لیکن آزاد ذرایع اکثر و بیش تر ان اعدادوشمار کی قلعی کھولتے رہتے ہیں۔ایسا ہی گزشتہ برس دسمبر کے مہینے میںہوا ۔ اکیسویں سسٹین ایبل ڈیولپمنٹ کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے ممتاز ماہر اقتصادیات اورسابق وزیر خزانہ ڈاکٹر حفیظ پاشا نے حاضرین کو بتایا کہ ملک میں بے روزگاری کی حقیقی شرح نو فی صد ہے نہ کہ سرکاری طورپر بیان کی جانے والی پانچ فی صد۔ان کا کہنا تھا کہ ملک کے ستّر لاکھ تعلیم یافتہ بے روزگار نوجوانوں کو مناسب ملازمتیں فراہم نہیں کی گئیں توخطرہ ہے کہ وہ عرب بہار کی طرح کی کسی تحریک کا حصّہ بن سکتے ہیں۔

اقتصادی ماہرین کے مطابق افرادی قوت کی پاکستانی منڈی لاکھوں بے روزگار نوجوانوں کی موجودگی سے فائدہ نہیں اٹھا رہی۔حالاں کہ پاکستان کا شمار ان ممالک میں ہوتا ہے، جن کی آبادی کا بڑا حصہ نوجوانوں پر مشتمل ہے۔ ماہرین کے مطابق آبادی کے 60 فی صد حصے پر مشتمل اس طبقے کا آج کا سب سے بڑا مسئلہ بے روزگاری اور غربت ہے۔ہمارے برعکس دنیا بھر میںآج اس بات پربہت زیادہ زور دیا جا رہا ہے کہ نوجوانوں کو کس طرح بے روزگاری اورغربت کی دلدل سے نکالا جائے۔

افرادی قوت بہت ،مگر روزگار نہیں

بدقسمتی دیکھیے کہ پاکستان اپنی بہت زیادہ افرادی قوت کے اعتبار سے دنیا میں دسویں نمبر پر ہے، لیکن روزگار کی مقامی منڈی میں اتنی بڑی افرادی قوت کی خاطر خواہ کھپت نہیں ہے۔ ماہرین کے مطابق اسی وجہ سے بے روزگاری اور غربت میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے، جو نوجوانوں کو مایوسی کی جانب دھکیل رہی ہیں۔ممتاز ماہر اقتصادیات ڈاکٹر حفیظ احمد نے کچھ عرصہ قبل ایک رپورٹ شائع کی تھی جس کے مطابق ملک میں ایک اندازے کے مطابق تقریباً چار ملین نوجوان تعلیم حاصل کر رہے ہیں اور نہ ہی ان کے پاس کوئی روزگار ہے۔ لاکھوں نوجوان بے روزگار ہیں اور یہ بات غربت میں اضافے کا باعث بنی ہے۔ماہر اقتصادیات ڈاکٹر اشفاق حسن خان کا کہنا ہے کہ پاکستان کا شمار دنیا کی دس بڑی افرادی قوتوں میں ہوتاہے اور اتنی بڑی تعداد میں نوجوان آبادی کو روزگار دینے کے لیے ضروری ہے کہ ملکی معیشت سالانہ سات فی صد کی شرح سے ترقی کرے۔ لیکن چند برسوں میں پاکستان میں اقتصادی شرح نمو اتنی نہیں رہی ہے۔

ایک اندازے کے مطابق پاکستان میں ہر سال 20 لاکھ نوجوان یونیورسٹی کی تعلیم مکمل کر کے نوکریاں تلاش کرتے ہیں۔ اس کے باوجود ملک میں 21 سے 24 سال کی عمر کے افراد میں بے روزگاری کی شرح نو فی صد ہے۔ ڈاکٹر اشفاق کے مطابق اس کی ایک وجہ نصاب تعلیم کا وقت کے تقاضوں سے ہم آہنگ نہ ہونا بھی ہے۔ ہماری جامعات ایسے تعلیم یافتہ افراد پیدا کر رہی ہیں جو بے روزگار ہیں اور ایسے تعلیم یافتہ افراد کی مارکیٹ میں کوئی کھپت نہیں ہے۔

کچھ عرصہ قبل پاکستانی تھنک ٹینک،انسٹی ٹیوٹ فار پالیسی ریفارمز نے ملک میں روزگارکے مواقعے اور بے روزگاری پر ایک حقائق نامہ جاری کیاتھا۔ اس کے مطابق مالی سال دو ہزار بارہ تیرہ اور دو ہزار تیرہ چودہ میں صرف 13 لاکھ کارکن ملکی لیبر مارکیٹ میں داخل ہوئے تھے۔ اس سے پہلے ہر سال 15 لاکھ کارکن روزگار کی قومی منڈی میں شامل ہوتے تھے۔ لہٰذا اس طرح ان برسوں میں تقریباً 17 لاکھ ورکرز یا تو لیبر مارکیٹ میں آئے ہی نہیں یا پھر قومی ادارہ شماریات اس بات کا صحیح اندازہ ہی نہیں لگا سکا۔اس رپورٹ میں مزید کہا گیاتھا کہ تکلیف دہ بات یہ ہے کہ بے روزگار مردوں کی عمریں 15 سے 29 سال تک ہیں اور یہ نوجوان مرد تعلیم حاصل کر رہے ہیں اور نہ ہی ملازمتیں تلاش کر رہے ہیں۔ ان نوجوان بے روزگاروں کی تعداد 10 لاکھ سے بھی زیادہ ہے۔ لہٰذا ممکنہ طور پر ایسے افراد مختلف جرائم کی طرف با آسانی مائل ہو سکتے ہیں ۔ایسے میں بد قسمتی سے حکومت کی طرف سے شروع کیے گئے مختلف یوتھ پروگرامز بھی کام یاب نہیں ہو سکے۔

انسٹی ٹیوٹ فار پالیسی ریفارمز کے اقتصادی ماہرین کے مطابق مجموعی طور پر پاکستان میں لیبر مارکیٹ میں منفی اور مثبت دونوں رجحان دیکھے گئے ہیں۔ لیکن اگر پائے دار انداز میں ملک میں بے روزگاری میں کمی کی جائے تو یہ عمل مجموعی قومی پیداوار میں چھ فی صد تک اضافے میں معاون ثابت ہو سکتا ہے۔ اس کےلیے سرکاری اور نجی شعبوں کوچاہیے کہ وہ ہنر مند افراد تیار کرنے اور انہیں ملازمتوں کی فراہمی کے لیے زیادہ سے زیادہ سرمایہ کاری کریں۔

ناقص منصوبہ بندی

ماہرین کے مطابق آج جن حالات سے ہم گزر رہے ہیں وہ ہماری ناقص منصوبہ بندی کا نتیجہ ہیں۔ پاکستان میں قائم ہونے والی ہر حکومت نے اپنی سیاسی دکان چمکانے کی غرض سے نوجوانوں کے لیے کئی ا سکیمز شروع کیں اور بھاری سرمایہ خرچ کرکے اس کی بے پناہ تشہیر بھی کی، لیکن یہ ساری اسکیمز کوئی قابل ذکر کام یابی حاصل کیے بغیر ٹھپ ہوگئیں۔ ہمارا نوجوان اگر کسی تعلیمی ادارے سے اعلیٰ تعلیم حاصل کربھی لیتا ہے تو وہ اپنی ڈگری ہاتھ میں لیے نوکری کی تلاش میں مارا مارا پھرتارہتا ہے۔ اقتصادی سروے آف پاکستان کے مطابق پاکستان میں بیس سے 35 سال تک کے افراد کی تعداد پانچ کروڑ سے تجاوز کر چکی ہے۔ یقینا یہ پاکستان کے لیے بہت بڑا سرمایہ ہے جسے ہم اپنی ذہانت، منصوبہ بندی اور حکمت عملی سے ملک کی تعمیر و ترقی میں استعمال کرسکتے ہیں۔لیکن سوال یہ ہے کہ ایسا کرے گا کون؟ کیا ہمارے سیاست داں نوجوانوں کی صلاحیتوں سے فائدہ اٹھانے کے بجائے انہیں اپنے جلسوں کی رونق بڑھانے کے لیے اسی طرح استعمال کرتے رہیں گے؟ کیا حکومت نوجوانوں کے لیے روزگار کے مناسب مواقعے پیدا کرنےکے بجائے انہیں یوں ہی سبز باغ دکھاتی رہے گی؟ حکومت کی طرف سے طلبا کو لیپ ٹاپ دینا احسن قدم ہے، لیکن تعلیم حاصل کرنے کے بعد انہیں مناسب روزگار دینا آخر کس کا فرض ہے؟خود روزگار اسکیم ہو یا آسان شرائط پر نوجوانوں کو کاروبار کے لیے قرضے فراہم کرنے کا معاملہ ہو، اس کا طریقہ کار اس قدر طویل،پے چیدہ اور مشکل ہے کہ اس سےبہت کم نوجوان ہی فائدہ اٹھا سکتے ہیں۔ دوسری جانب ضرورت مند ،مگر بےروزگار کی ضمانت کوئی بھی دینے کو تیار نہیںہوتا۔ وہ بےچارا کس سے فریاد کرے اور کس کو اپنی مدد پر آمادہ کرے، کس سیاست داں یابااثرشخص کی منتیں کرے۔

ایک انار،سو بیمار

اس وقت پاکستان میں بےروزگاری عروج پرہے ۔ایک ایک اسامی کے لیے ہزاروں درخواستیں آجاتی ہیں۔ افسوس اور دکھ کی بات یہ ہے کہ پی ایچ ڈی، ایم فل، ایم ایس سی، ایم اے اور ایم کام بھی ہاتھوں میں ڈگریاں تھامے روزگار کی تلاش میں سرگرداں ہیں ۔ پاکستان کے کئی نجی بینکس میں ہزاروں اعلیٰ تعلیم یافتہ نوجوان معمولی کمیشن پر مشکل ترین کام،یعنی قرضے دینے کے لیے صارفین کی تلاش کا فریضہ انجام دے رہے ہیں یا پھر قرضوں کی وصولی کے لیے گلی ،محلوں کے دھکے کھاتے پھر رہے ہیں ۔ اس وقت ملک میں سرکاری، نیم سرکاری، خود مختار سرکاری ادارے،حتیٰ کہ نجی ادارے بھی جب کسی اسامی پر بھرتی کے لیے درخواستیں طلب کرتے ہیں تو ساتھ میں ان بےروزگاروں سے پانچ سو سے لے کر15 سو روپے تک کا پے آرڈر یا بینک ڈرافٹ بھی طلب کرتے ہیں۔اس طرح ہر سال کروڑوں روپےدرخواستوں کی مد میں ان سے اینٹھ لیے جاتے ہیں۔ امیدوار جب اس محکمے یا ادارے میں ٹیسٹ اور انٹرویوکے لیے جاتاہے تو اسے بیٹھنے کے لیے مناسب جگہ ملتی ہے اور نہ ہی پینے کے لیے پانی دست یاب ہوتا ہے۔ وہ بےچارا روزگار کی تلاش میں یہ سب ستم برداشت کرتا ہے۔ جنرل پرویز مشرف کے دور میں نیشنل ٹیسٹنگ سروس کے تحت تعلیمی اداروں میں اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کے لیے امتحان لینے کا سلسلہ شروع ہواتھا۔بعد میں اس ادارے نے مختلف محکموں میں بھرتی کے لیے ٹیسٹ لینے کا سلسلہ شروع کیا ۔آج این ٹی ایس کا دائرہ کاربہت وسیع ہوچکاہے۔ تمام اہم سرکاری اوربعض نجی ادارے بھی اس نظام کے ذریعے امیدواروں کا انتخاب کرنے کو ترجیح دیتے ہیں۔لیکن دل چسپ بات یہ ہے کہ دو گھنٹے کے اس ٹیسٹ میں امیدواروں کو سو کے لگ بھگ سوالات معروضی سوالات(MCQ ) کے جواب دینے ہوتے ہیں جن کے ذریعے امیدوار کی اہلیت اورذہانت جانچنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ دوسری اہم بات یہ ہے کہ بےروزگار نوجوانوں سے ان کی تعلیمی اسناد کی فوٹو کاپیز اور تصاویر کے دو یا تین سیٹ اور ساتھ میں پے آرڈر یا بینک ڈرافٹ کس کھاتے میں لیے جاتے ہیں ۔اس کے علاوہ امیدوارسے کہاجاتاہے کہ وہ اپنی سی وی اور سرٹیفکیٹس لازماً ای میل بھی کرے ۔یعنی سافٹ اور ہارڈ کاپی دونوں ہی ارسال کرے۔ہارڈ کاپیز بہ ذریعہ کورئیر سروس بھیجی جائیںجس پر تقریباً دو سو روپے خرچ آتاہے۔ آخر بے روزگار نوجوانوں پر اس قدر زیادتیاں کیوں کی جارہی ہیں ۔ ان کے والدین پر اس قدر مالی بوجھ کیوں ڈالا جارہا ہے۔

حکمت عملی تبدیل کرنے کی اشد ضرورت

ماہرین کے مطابق ملک میں بڑھتی ہوئی بےروزگاری کے خاتمے کے لیے ضروری ہے کہ ہم صنعتی، تجارتی اور کاروباری شعبے کی ترقی کی طرف خصوصی توجہ دیں۔ خاص طور پر دیہی علاقوں سے شہری علاقوں کی طرف آبادی کی تیزی سے بڑھتی ہوئی نقل مکانی کو روکنے کے لیے زراعت پر مبنی صنعتیںلگانے کی غرض سے ترجیحی بنیادوں پر فوری منصوبہ بندی کریں۔ اس سے دیہی علاقوں کے لوگوں کو مقامی طور پر روزگار مل سکے گا۔

آنکھیں کھول دینے والے حقائق

گزشتہ برس مئی کے مہینے میں یہ خبر آئی تھی کہ پاکستان میں نوجوانوں کی تعداد تاریخ کی بلند ترین سطح پر پہنچ گئی ہے اوردوسری جانب بے روزگاری کی شرح نواعشاریہ ایک فی صد ہوگئی ہے۔یہ اعداد و شمار اقوام متحدہ کے ذیلی ادارے یونائیٹڈ نیشنل ڈیولپمنٹ پروگرام کی رپورٹ میں پیش کیے گئے تھے۔اس رپورٹ کے مطابق پاکستان میں نوجوان مردوں اور خواتین کی شرح برابر ہے جبکہ 70 فیصد نوجوان پڑھے لکھے ہیں۔

پاکستان کے بارے میں اس چشم کشا رپورٹ نے ہمارے حکم رانوں کے بہت سے دعووں کی قلعی کھول دی ہے۔اس میں بتایا گیا ہے کہ پاکستان کی آبادی کا 64 فی صد 30 سال سے کم عمرکےافرادپر مشتمل ہےاور 29 فی صد کی عمر 15 سے 29 سال کے درمیان ہے۔

رپورٹ کے مطابق صرف 24 فی صد نوجوانوں کو سیاست دانوں پر اعتماد ہے۔ صرف 39 فی صد نو جو ا نو ں کو روزگار کے مواقعے حاصل ہیں۔ دوفی صد مردوں اور خواتین کو روزگار کی تلاش ہےاور57 فی صد بے روزگاروں کو ملازمت کی تلاش ہی نہیں۔ملک میں 77 فی صد نوجوان روزگار کی خاطر تعلیم ادھوری چھوڑ دیتے ہیں۔15 سے 29 سال کی آبادی ملک کی مجموعی لیبر فورس کا 41.6 فی صد ہے۔ 40 لاکھ نوجوان ہرسال جاب مارکیٹ میں داخل ہو رہے ہیں۔ ہیومن ڈیولپمنٹ انڈیکس (ایچ ڈی آئی) میں اسلام آباد ملک میں سب سے آگے ہے۔ کاروبار، تعلیم اورملازمت کے مواقعے شہراقتدار میں سب سے زیادہ ہیں۔ اسلام آباد کا ایچ ڈی آئی، صفراعشاریہ آٹھ سات پانچ (0.875) ہے۔ اس کے بعد آزاد کشمیرمیں مواقعے سب سے زیادہ ہیں جہاں انڈیکس صفراعشاریہ سات تین چار(0.734) ہے۔

دوسری جانب پاکستان نیشنل ہیومن ڈیولپمنٹ کے مطابق ملک میں تعلیم اور روزگار کے اعداد و شمار تسلی بخش نہیں ہیں۔ملک کے 36 فی صدنوجوان اپنے مستقبل سے ناامید ہیں۔ 16 فی صد کی رائے ہے کہ مستقبل میں کچھ تبدیل نہیں ہوگا۔ اسکولز میں داخلے کی شرح ایک فی صدبھی نہیں بڑھ رہی۔ انرولمنٹ کی موجودہ رفتارمیں اضافہ نہ ہوا تو سکولزسے باہر موجودبچوں کی شرح صفر کرنے کا ہدف پورا کرنے میں 60 سال لگ جائیں گے۔صوبوں کے ضمن میں پنجاب کا ایچ ڈی آئی صفر اعشاریہ سات تین دو (0.732) کے ساتھ سب سے بہتر ہے۔ بلوچستان صفراعشاریہ چاردوایک (0.421) کے ساتھ سب سے پیچھے ہے۔

فیصلے کی گھڑی

ماہرین کے بہ قول ان حالات میںہمیں یہ فیصلہ کرنا ہے کہ رٹو طوطے گریجویٹس پیدا کرنا جاری رکھیں یا پھر اپنی سوچ درست کر کےتیکنیکی تعلیم پر توجہ دیں۔وہ کہتے ہیں کہ یہ کہنا ٹھیک نہیں ہو گا کہ وفاقی اور صوبائی حکومتوں نے اس مسئلے سے نمٹنے کے لیے کچھ نہیں کیا- تاہم یہ بھی سچ ہے کہ اس حوالے سے انہوں نے جو طریقہ کار اپنایا وہ نہ صرف غلط ہے بلکہ اس میں انقلابی تبدیلیاں لانے کی ضرورت ہے-بے روزگاری کےضمن میں پراسرار اور غیر پیداواری سمجھ بھی اس مسئلےکی ایک اہم وجہ ہے، حالاں کہ اس مسئلے پر مسلسل خطیر رقوم خرچ کی جا رہی ہیں-آج کے زمانے میں ضرورت اس بات کی ہے کہ نوکریاں پیدا کرنے اور معاشی بہتری لانےکے لیے ہم اپنی فکر ٹھیک کریں، کیوں کہ موجودہ پالیسیز ہمیں غلط سمت میں لےکر جا رہی ہیں-ہمیں اس مسئلے کے ضمن میں ان تمام نکات کا جائزہ لینے کی ضرورت ہے جو ہمارے لیے مسائل پیدا کررہے ہیںاور جن کی وجہ سے ہم مسائل کی دلدل میںپھنسے ہوئے ہیں ۔ اس کے علاوہ ان کے ایسے متبادل پیش کرنے کی بھی ضرورت ہےجو دنیا بھر میں کام یاب ہونےکےباوجودہمارےفیصلہ سازوںنے نظرانداز کیے ہوئے ہیں-

محنت کشوں کے حالات اور اقتصادی امور پر نظر رکھنے والے ماہرین کے مطابق آج یہ خیال ہی غلط ہے کہ حکومت کو روزگار کے مواقعے پیدا کرنے چاہییں-وہ کہتے ہیں کہ یہ حکومت کا کام نہیں ہےکہ وہ روزگارکے مواقعے پیدا کرے- اس کا کام تو یہ ہے کہ وہ ایسا ماحول پیدا کرے جس میں نجی ادارے اورتجارتی ادارے پھل پھول سکیں اور اس کے نتیجے میں روزگار کے مواقعے پیدا ہوں-ہمارے ہاں اصل گڑبڑ یہی ہے کہ حکومتیں روزگار کے مواقع پیدا کرنے کی کوششیں کر تی رہی ہیں، اس بات کا احساس کیے بغیر کہ پیسہ پھینکنےسےیہ مسئلہ حل نہیں ہونے والابلکہ ایسا کرنے سے صرف غلط تاثر ہی ملتا ہے- اس حوالے سے گزشتہ سالوں میں مختلف قرضہ اسکیمزکے نام پر خرچ کیے جانے والے فنڈز کی مثالیں ہمارے سامنے ہیں۔ایسے ہر معاملے میں حکومت روزگارکے مواقعے پیدا کرنے کی کوشش کرتی ہے اور آخر میں نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ ایک بہت بڑی نوکر شاہی کی فوج پیدا ہو جاتی ہے جو حکومت کے سیاسی مفادات کے نام پر پیسہ خرچ کر رہی ہوتی ہے۔بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام (بی آئی ایس پی) کی مثال لے لیں۔ایسا پروگرام جس کا انکم سپورٹ والا جزو خاصا کارآمد ہے اور اس کا اثر بھی ہو رہا ہے (محدود علاقوں میں ہی سہی)،لیکن قرضہ اسکیم کی وجہ سے روزگار کے مواقعے پیدا نہیں ہو رہے، لہٰذا حکومت اسے جاری رکھنے پر مجبور ہے۔ایسے کیس میں ٹیکس دینے والے، روزگار کے مواقعے پیدا کرنے کے لیے پیسہ دے رہے ہیں ۔لیکن اصل میں ہو یہ رہا ہے کہ روزگار کے مناسب مواقعے تو پیدا ہو نہیں رہے،تاہم سیاست داں اپنے حلقوں میں اثر و رسوخ مزید بڑھانے کے لیے اسے استعمال کر رہے ہیں-

کچھ ایسا ہی معاملہ زیادہ تر دیگر اسکیمز کا بھی ہے جن کا بنیادی مقصد روزگار کے مواقعے پیدا کرنا ہے- اصل گڑبڑ یہ ہے کہ پیسہ صرف لٹایا جا رہا ہے، بجائے اس کے کہ اس پیسے کو موجودہ اور نئے برنسز کے فروغ اور استحکام کے لیے استعمال کیا جائے-یہاں یہ سوال پیدا ہوتاہے کہ حکومت یہ جانتے ہوئے بھی کہ اس کا کوئی فائدہ نہیں، ایسا کیوں کرتی ہے؟اس کا سیدھا سادہ جواب یہ ہے کہ سیاسی پوائنٹ اسکورنگ کے لیے یہ حکومت کی بہترین چال ہے اور بس-

ہمیں یہ فکر بھی تبدیل کرنا ہوگی کہ روایتی تعلیم سے زیادہ سے زیادہ لوگوں کو روزگار حاصل ہو گا-یہ بھی درحقیت ایک فرسودہ خیال کے سوا کچھ نہیں ہے جسے تبدیل کرنے کی ضرورت ہے- زیادہ تر لوگوں کا خیال ہے کہ اعلیٰ تعلیم، بہترین نوکریاں حاصل کرنے کے لیے لازمی ہے-اس غلط انداز فکر کی وجہ سے ڈگری فراہم کرنے والی ایسی فیکٹریز قائم ہو گئی ہیں جہاں طالب علم، 'ایم سی کیوز کے ذریعے جاب مارکیٹ میں داخل ہونے کی کوشش میں مصروف رہتے ہیں اور جس سے ایک ایسی مارکیٹ نے جنم لے لیا ہے جس میں زیادہ تر افرادی قوت کو آپس میں تبدیل کیا جا سکتا ہے، کیوںکہ ان سب کی صلاحیتیں ایک جیسی ہیں-ایک سائز سب کے لیے والے اس رجحان نے ڈگری کے حامل نوجوانوں کی فوج ظفر موج پیدا کر دی ہے جنہیں یہ بھی نہیں معلوم کہ انہیں کیا چاہیے اور وہ ایک دوسرے میں فرق کرنے کے قابل بھی نہیں ہیں ۔ایسی صورت حال میں خاص طور پر جب نئے مواقعے بھی پیدا نہ ہو رہے ہوں، آجر چاہتے ہیں کہ انہیں سب سے سستا امیدوار مل جائے، کیوں کہ ان کے خیال میں تمام کے تمام امیدوار آخر ایک ہی فیکٹری کی پیداوار ہیں-

اس مسئلے کو مزید پے چیدہ بنانے کے لیے 'انڈر ایمپلائمنٹ کا معاملہ بھی ہے۔ یعنی زیادہ کوالیفائیڈ لوگ بنیادی نوکریاں کر رہے ہیں- لہٰذا آئندہ جب بھی ہم اعلیٰ تعلیم کے حوالے سے شیخیاں بگھاریں اس بات کا خصوصی خیال رکھا جائے کہ صرف زیادہ جامعات اور کالجز قائم کرنے سے طویل مدت میں زیادہ روزگار کے مواقعے پیدا کرنے کی ضمانت نہیں ملتی-

ہمارے ہاں آج کل نیا کاروبار شروع کرنے کا جنون بھی پروان چڑھ رہا ہےجو کافی حد تک غلط ہے-گو کہ یہ خیال بنیادی طور پر اچھا اور قابل تعریف ہے۔ تاہم اس خیال میں بنیادی خامی یہ ہے کہ اس میں مقامی آبادی کی کاروباری صلاحیت اور قابلیت کو 'اوراسٹیمیٹ کیا جاتا ہے-کاروباری صلاحیت اور قابلیت، پروڈکشن کے حوا لے سے ایک اہم عنصر ہے اور جس نے بھی معاشیات پڑھی ہے اسے علم ہو گا کہ پروڈکشن کے تمام ہی عناصر نایاب ہوتے ہیں۔ایسے میں یہ تاثردینا یا لینا کہ اگر ریاست سیکڑوں، ہزاروں کی تعداد میں نئے کاروبار شروع کروانے کے لیےپیسے لگائے گی تو معیشت ایک دم صحیح ہو جائے گی،درست نہیں ہے۔

حقیقت یہ ہے کہ بے روزگاری کے مسئلے سے نمٹنے کے لیے ہمیں کئی جہتی حکمت عملی اپنانی ہوگی اور یہ مہینوں میں حل ہونے والا مسئلہ نہیں ہے۔البتہ خلوص نیت اور مہارت کے ساتھ اٹھائے جانےوالے اقدامات دوتین برسوں میں کچھ اثر دکھانا شروع کرسکتے ہیں۔

تازہ ترین