• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
ٹوکیو کی بلند و بالا عمارتوں کو پیچھے چھوڑتے ہوئے اب ہم لکڑی کے بنے ہوئے مکانوں اور نسبتاً کم اونچی عمارتوں کے علاقے میں داخل ہوچکے تھے۔ ٹوکیو کی حدود سے باہر نکلتے ہی ایک نیا جاپان دیکھنے کو ملتا ہے جس کی جاپان سے باہر رہنے والوں کو توقع کم ہی ہوتی ہے۔ صاف ستھری پتلی پتلی سڑکوں کے ساتھ لہلہاتے کھیت ایسا تاثر دیتے ہیں کہ انسان شاید پاکستان کے کسی ترقی یافتہ دیہی علاقے میں آچکا ہے یا یورپ کے کسی پُرفضا مقام پر سیاحت کے لئے رواں دواں ہے۔آج بھی موسم انتہائی خوشگوار تھا سرد موسم میں ہلکی ہلکی دھوپ علاقے کی خوبصورتی کو چار چاند لگارہی تھی بلاشبہ جاپان جیسے صنعتی ترقی یافتہ ملک میں اس قدر سبزہ اور ہریالی دیکھ کر پہلی بار جاپان آنے والے کے لئے حیران ہونا فطری اَمر ہے، میرے ساتھ آنے والے مہمان بھی چند منٹوں قبل آسمان کو چھوتی عمارتوں کو دیکھنے کے فوراً بعد ہی ایک نئے جاپان سے متعارف ہوتے ہوئے کافی حیران نظر آرہے تھے۔ آج جمعہ کے دن تھا اور میر ی گاڑی قانونی حد کے مطابق پوری رفتار کے ساتھ ٹوکیو سے چالیس کلومیٹر کے فاصلے پر واقع جاپان کے صوبے ایباراکی کین کی ایک معروف مسجد کی جانب رواں دواں تھی، پاکستان سے آئے ہوئے مہمان بھی میرے ساتھ ہی بیٹھے تھے کہ مسجد سے تقریباً پانچ کلو میٹر کے فاصلے پر گاڑی سے کچھ ایسی آوازیں آنا شروع ہوئیں کہ خدشہ پیدا ہوا کہ گاڑی کسی بھی وقت بند ہوسکتی ہے اور اگلے چند ہی لمحوں میں یہ خدشہ درست ثابت ہوا اور گاڑی مکمل طور پر بند ہوچکی تھی اور باوجود کوشش کہ دوبارہ اسٹارٹ ہونے کا نام نہیں لے رہی تھی ، مسجد یہاں سے پندرہ منٹ کی مسافت پر تھی تاہم مسجد وقت سے پہلے پہنچنے کی کوشش میں جس راستے کا انتخاب کیا گیا تھا وہاں ٹریفک برائے نام ہی تھی جبکہ کسی جاپانی شہری سے یہ توقع رکھنا کہ وہ ایک غیر ملکی کو لفٹ دیکر منزل مقصود پر پہنچادے گا آج کل کے حالات میں مشکل سی بات ہے۔ میں نے جاپان آٹو فیڈریشن کو بذریعہ فون مطلع کیا جنہوں نے ایک گھنٹے بعد لفٹر بھیجنے کی اطلاع دی ، جس کے بعد میں گاڑی لاک کرکے مہمان کے ساتھ مسجد کی جانب پیدل ہی سفر شروع کرچکا تھا کہ پیچھے سے آنے والے ہارن کی آواز نے مجھے رکنے پر مجبورکر دیا،گاڑی سے اتر کر قریب آنے والی یہ شخصیت ایک بزرگ جاپانی شہری تھے، پستہ قد ،صاف ستھر لباس تاہم چہرے پر موجود عمرکے اثرات سے محسوس ہورہا تھا کہ موصوف عمر کی پچھتر بہاریں دیکھ چکے ہیں، قریب آتے ہی جاپانی زبان میں گویا ہوئے، لگتا ہے کہ آپ کی گاڑی خراب ہوگئی ہے اور آپ لوگ شاید مسجد تک جانا چاہ رہے ہیں اگر آپ برا نہ سمجھیں تو میں بھی نماز جمعہ ادا کرنے مسجد تک جارہا ہوں آپ میرے ساتھ گاڑی میں مسجد تک چل سکتے ہیں بلاشبہ میرے لئے یہ ایک خوشگوار اتفاق تھا کہ ایک جاپانی مسلمان کے دل میں اپنے پاکستانی مسلمان بھائی کی مدد کا جذبہ موجود تھا، اگلے چند لمحوں میں،میں اپنے دوست کے ساتھ اپنے نو مسلم جاپانی دوست کی گاڑی میں سوار ہوچکا تھا ، میں چاہتا تھا کہ اپنے نو مسلم جاپانی دوست کے قبول اسلام کے حالات سے واقفیت حاصل کروں تاہم نماز کا وقت قریب ہوچکا تھا اور چند منٹوں کی ڈرائیو کے بعد ہم بھی مسجد پہنچ چکے تھے لہٰذا نماز کے بعد ایک بار پھر اپنے جاپانی دوست کے قریب پہنچا اور ان سے صحافت کے حوالے سے اپنا تعارف کرانے کے بعد دین اسلام میں ان کے داخلے کی وجہ دریافت کرتے ہوئے عرض کیا کہ کیا وجہ ہے کہ آپ اردو ،انگریزی اور عربی سے عدم واقفیت کے باوجود دین اسلام میں داخل ہوئے، میرا یہ نو مسلم جاپانی دوست مجھے دیکھ کر مسکرایا اور پاس ہی موجود کرسی پر بیٹھے ہوئے گویا ہوا، جس مسجد میں ہم نے نماز جمعہ ادا کی ہے اس کا نام مرکز منہاج القرآن ہے میرا اس مسجد اور اس کے منتظمین سے بہت گہرا تعلق ہے، کچھ عرصہ قبل گھر والوں سے اختلافات کے بعد مجھے گھر چھوڑنا پڑا، بہت کچھ ہونے کے باوجود خالی ہاتھ گھر سے نکلا تھا کچھ معلوم نہیں تھا کہ کیا کرنا ہے اور کہاں جانا ہے اسی پریشانی کی حالت میں چلتے ہوئے میں مسجد کے قریب پہنچ چکا تھا اسی دوران اس مسجد کے منتظمین میں شامل ایک پاکستانی بھائی نے مسجد کے قریب دیکھ کر مجھ سے دریافت کیا حضور آپ کچھ پریشان لگتے ہیں اگر میں آپ کی کچھ مدد کرسکوں تو حاضر ہوں تاہم شرم اور اَنا کے باعث میں ان سے اپنی پریشانی بھی بیان نہ کرسکا اس کے باوجود وہ مجھے مسجد میں لے گئے،کھانے اور کپڑوں کا بندوبست کیا اور کئی روز تک مجھے مہمان خانے میں رکھا اور کبھی مجھ سے کسی طرح کا کوئی تقاضہ کیا اور نہ ہی اپنے مذہب میں داخل ہونے پر زور دیا تاہم میں ضرور جاننا چاہتا تھا کہ ایسا کون سا مذہب ہے جو غیروں کے ساتھ ایسی ہمدردی کا سبق دیتا ہے،کون سے مذہب کی ایسی تعلیمات ہیں جو غیر مسلم کو مسلمان ہونے پر مجبو ر کئے بغیر اس کی مشکلات میں مدد کرنے کی تلقین کرتی ہیں انہی سوچوں کے ساتھ میں نے مرکز منہاج القرآن جانا شروع کیا تو دیکھا وہ مسلمان جن کو اللہ تعالیٰ نے بے پنا ہ دولت سے نواز ا ہے وہ مسجد کے باہر نمازیوں کے چپلیں سیدھی کرتے ہوئے فخر محسوس کرتے ہیں، ہر ہفتے درس قرآن کے بعد سیکڑوں لوگوں کے کھانے کے انتظامات میں ہر آدمی بڑھ چڑھ کا حصہ لیتا ہے اور کئی لوگ باری نہ آنے کے باعث مایوس نظر آتے ہیں۔ اللہ کے نام پر خرچ کرکے لوگ خوشی محسوس کرتے ہیں ، یہ سب میرے لئے حیران کن تھا میں دین اسلام کے بارے میں مزید کچھ جاننا چاہتا تھا جس کے لئے میں نے اپنے محسن انعام الحق صاحب سے درخواست کی جنہوں نے مجھے منہاج القرآن کے سربراہ ڈاکٹر طاہر القادری کا جاپانی زبان میں ترجمہ کیا ہوا دین اسلام کے متعلق لٹریچر فراہم کیا جس نے میری زندگی میں واضح تبدیلی پیدا کی اور میں دین اسلام کی تعلیمات سے متاثر ہو کر دائرہ اسلام میں داخل ہوا ہوں اور اب اللہ تعالیٰ نے اسلام کی برکت سے میرے تمام معاملات بہتر کردیئے ہیں، خاندان کے ساتھ تعلقات بہتر ہوگئے ہیں، معاشی حالات بھی ٹھیک ہوگئے ہیں اور میری کوشش ہے کہ اپنے تمام جاپانی اہل خانہ کو بھی دین اسلام کی تعلیما ت کے ذریعے مسلمان کیا جائے۔ میرا یہ نو مسلم جاپانی دوست خاموش ہوچکا تھا صورتحال میری سمجھ میں آچکی تھی جو بلاشبہ میرے لئے جذبہ ہمدردی اور ایثاری کے ذریعے دین اسلام کے فروغ کی یہ بہترین مثال تھی۔ دوسری جانب منہاج القرآن اور ڈاکٹر طاہر القادری کے حوالے سے کئی واقعات میرے ذہن میں تازہ ہوگئے تھے جس میں سے چھ سال قبل دورہ لند ن کے دوران پیش آنے والا واقعہ اپنی مثال آپ ہے، چھ سال قبل میں لندن میں عزیز سے ملاقات کے لئے ایشیائی کمیونٹی کے حوالے سے معروف ایک لندن کے متوسط علاقے میں پہنچا مجھے بتایا گیا تھا کہ اسٹیشن سے پانچ منٹ کی پیدل مسافت پر نماز ادا کرکے گھر چلیں گے لیکن میرے لئے حیرانی کی بات یہ تھی کہ اسٹیشن سے پانچ منٹ کے مسافت کے دوران مجھے پانچ مساجد نظر آئیں اور ہر مسجد ایک مختلف فرقے کے افراد کی تعمیر کردہ تھی تاہم اس سے زیادہ حیرانی کی بات یہ تھی کہ پانچ منٹ کے بعد جس مسجد کے اندر میں داخل ہوا اس میں پانچوں فرقوں کے نمازی موجود تھے اور وہ مسجد منہاج القرآن کے زیر انتظام تھی جہاں تمام اہل مسلم چاہے ان کا تعلق کسی بھی فرقے سے ہوکو عبادت کرنے کی اجازت تھی، اسی طرح کی صورتحال کا سامنا مجھے کینیڈا اور ملائیشیا کے سفر کے دوران بھی ہوچکا ہے، دنیا بھر میں غیر ملکی اور غیر مسلم افراد اسلام کو صرف مذہب اسلام ہی سمجھتے ہیں ان کی نظر میں تمام کلمہ گو لوگ مسلمان ہیں تاہم یہ مسلمان ہی ہیں جو آپس میں فرقوں میں بٹے ہوئے ہیں اور ہر فرقہ اپنے آپ کو دوسرے فرقے کے مسلمان سے بہتر مسلمان ہونے پر یقین رکھتا ہے تاہم ڈاکٹر طاہر القادری کی سربراہی میں چلنے والی تنظیم تحریک منہاج القرآن فرقہ واریت سے گریز کا سبق دیتی ہے اور دنیا بھر میں مساجد اور کمیونٹی سینٹر کا بہترین انفرا اسٹرکچر تیار کرچکی ہے اور تعلیم یافتہ علمائے کرام جن کا عمل اور کردار دین اسلام کی تعلیمات کے عین مطابق ہے کی بہت بڑی تعداد دنیا بھر میں منہاج القرآن کے زیر انتظام مساجد اور کمیونٹی سینٹر میں خدمات انجام دے رہے ہیں جبکہ ڈاکٹر طاہر القادری اپنی دین اسلام کے لئے دی جانے والی خدمات کے باعث پاکستان سمیت دنیا بھر میں اپنے چاہنے والوں کا بہت بڑا حلقہ پیدا کرچکے ہیں جس کی مثالیں ان کے گزشتہ دورہ بھارت میں مل چکی ہے جہاں کئی مرتبہ بیس لاکھ یا اس سے بھی زائد افراد ان کے خطبات سننے کے لئے موجو د رہتے تھے جبکہ گزشتہ اتوار لاہور میں ہونے والے جلسے نے پاکستان میں بھی کئی طاقتوں کو نیند سے بیدار کردیا ہے تاہم ڈاکٹر طاہر القادری سے ایک درخواست ہر چاہنے والا کرتا ہے کہ سیاست کرنے والوں پر سیاست نہیں ریاست بچانے کے لئے دباؤ ضرور ڈالیں لیکن سیاست میں خود داخل ہونے سے ضرور گریز کریں تاکہ دنیا بھر میں ان کی عزت اور احترام اسی طرح برقرار رہے۔
تازہ ترین