• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

وزیر اعظم کی اپنی کابینہ بیوروکریسی سے سیاست ختم کرنیکی مخالف

اسلام آباد (انصار عباسی) کئی برسوں سے پاکستان تحریک انصاف کا بڑا نعرہ سمجھے جانے والے پولیس اور سویلین بیوروکریسی کو سیاست سے پاک کرنے کے اہم ترین معاملے پر وزیراعظم عمران خان کو اپنے ہی پارٹی رہنمائوں اور کابینہ کے وزراء سے حمایت نہیں مل رہی۔ ایک باخبر ذریعے اور سول سروسز میں اصلاحات کے کام میں شامل پی ٹی آئی حکومت کے ایک ذریعے نے دی نیوز کو بتایا کہ وزیراعظم عمران خان وفاقی سیکریٹریز کی تعیناتی کے حوالے سے اپنے صوابدیدی اختیارات سے دستبردار ہونے کیلئے تیار ہیں۔ لیکن ان کے کئی وزراء وفاقی سیکریٹریوں کو مقرر یا انہیں ہٹانے کیلئے اپنا کردار چاہتے ہیں۔ ذریعے نے اعتراف کیا کہ سیاسی مداخلت کے بغیر میرٹ کی بنیاد پر اداروں میں تقرر اور بیوروکریٹس کے عہدے کی مدت کا تحفظ سول بیوروکریسی کو سیاست سے پاک کرنے کی اہم شرائط ہیں جس کیلئے عمران خان تو تیار ہیں لیکن ان کے وزیر تیار نہیں۔ کہا جاتا ہے کہ جب عمران خان کو جب اس تجویز سے آگاہ کیا گیا کہ کسی بھی وزارت یا ڈویژن میں سیکریٹری یا کسی بھی افسر کو ہٹانے یا انہیں مقرر کرنے کیلئے ان کے بلا روک ٹوک صوابدیدی اختیارات ختم ہو سکتے ہیں تو انہوں نے اس پر آمادگی ظاہر کی۔ وزیراعظم کو بتایا گیا کہ درست عہدے کیلئے درست افسر کو مقرر کرنے اور ساتھ ہی وزیراعظم کی جانب سے صوابدیدی ا ختیارات استعمال کرنے کے عمل کو روکنے کیلئے سینئر بیوروکریٹس پر مشتمل تین رکنی کمیٹی تشکیل دی جائے گی جو سیکریٹری کے ہر عہدے کیلئے 3؍ موزوں امیدواروں کے نام تجویز کرے گی۔ مجوزہ اسکیم کے تحت، عمران خان کو بتایا گیا کہ وہ تین رکنی کمیٹی کی جانب سے پیش کردہ ناموں میں سے کسی ایک افسر کو سیکریٹری مقرر کر سکتے ہیں لیکن یکطرفہ طور پر کسی کو مقرر کر سکتے ہیں اور نہ ہی کسی کو عہدے سے ہٹا سکتے ہیں جیسا کہ فی الوقت رائج طریقہ کار ہے۔ ذریعے نے کہا کہ وزیراعظم وفاقی سیکریٹریوں کے عہدے کی مدت کے تحفظ اور ساتھ ہی کسی بھی سیکریٹری کو قبل از وقت ہٹانے کیلئے تحریری طور پر اس کی فائل میں ٹھوس وجوہات پیش کرنے کے عمل کے بھی حامی تھے۔ ذریعے نے افسوس کا اظہار کیا کہ سویلین بیوروکریسی کو سیاست سے پاک کرنے کی خاطر اختیارات سے دستبردار ہونے کیلئے عمران خان کی آمادگی کے باوجود ان کے وزراء نے اس اقدام کی مخالفت کی ہے اور چاہتے ہیں کہ سیکریٹریز کے اس معاملے میں ان کا کردار ہونا چاہئے۔ کہا جاتا ہے کہ وزراء کی اس دلیل میں نکات تھے۔ اول، کارکردگی کے حوالے سے وزیر کا احتساب اس وقت تک کیسے ہوگا جب اس کے پاس اپنی پسند کی ٹیم نہیں ہوگی۔ دوم، بیوروکریسی، جو پہلے ہی وفاقی حکومت کے کنٹرول میں نہیں ہے، کو عہدے کا تحفظ ملا تو وہ مکمل طور پر قابو سے باہر ہو جائے گی۔ ایک بیوروکریٹک ذریعے کے مطابق، پی ٹی آئی کے انتخابی منشور میں عمران خانے وعدہ کیا تھا کہ ان کی حکومت میں وزراء تبدیلی کے علمبردار ہوں گے لیکن اب وہ اسٹیٹس کو کے ایجنٹ اور خراب طرز حکمرانی کو فروغ دینے والے افراد معلوم ہو رہے ہیں۔ حکومت میں موجود وہ لوگ جو بیوروکریسی کو سیاست سے پاک کرنے کی ضرورت محسوس کرتے ہیں وہ یہ دلیل دیتے ہیں کہ اگر ’’بیوروکریٹس کو کنٹرول‘‘ کرنے اور ’’اپنی پسند کے افسران لگانے‘‘ کی عام سی سوچ برقرار رہی تو امید نہیں کہ بیوروکریسی میں عمران خان کی حکومت میں کوئی بہتری آ سکے گی۔ اپنی ہی کابینہ کے وزراء کی مخالفت کی وجہ سے عمران خان اب تک بیوروکریسی میں ایک بھی اصلاحات متعارف یا منظور نہیں کر اسکے۔ کابینہ کے وزراء کے دبائو کے بعد، وفاقی سیکریٹریوں کو لگانے یا انہیں ہٹانے میں وزیروں کے کردار کے حوالے سے ایک تجویز وزارتی کمیٹی نے کابینہ ڈویژن کو چند ہفتے قبل پیش کی تھی۔ اس کمیٹی کو وزارتوں اور ڈویژنوں کے سیکریٹریوں کے عہدے سے تحفظ کے حوالے سے سول سروسز ریفارم کی تجاویز پیش کرنے کیلئے کہا گیا تھا۔ وزارت سب کمیٹی کی سربراہی وزیراعظم کے مشیر برائے اسٹیبلشمنٹ ایم شہزاد ارباب کر رہے تھے۔ انہوں نے اداروں میں اصلاحات اور کفایت شعاری کے امور کیلئے وزیراعظم کے مشیر ڈاکٹر عشرت حسین کی تیار کردہ اُن اصلاحاتی تجاویز میں کچھ تبدیلیاں کیں جو گزشتہ سال نومبر میں کابینہ میں منظوری کیلئے پیش کی گئی تھیں۔ کابینہ کے وزیروں کے مطالبے کے پر اصلاحاتی تجاویز میں ترمیم کی گئی تاکہ سیکریٹری کے تقرر کے 6؍ ماہ بعد وزراء اپنے متعلقہ وفاقی سیکریٹری کو قبل از وقت ٹرانسفر یا ہٹا سکیں۔ 6؍ ماہ کے عرصہ کے بعد وفاقی سیکریٹری کو عہدے کا تحفظ اس وقت تک مل جائے گا جب تک حکومت ٹھوس وجوہات بیان کرکے اسے ہٹا نہ دے۔ یہ تجویز گزشتہ سال نومبر کے وسط میں وزارت کمیٹی کو پیش کی گئی جس کے بعد کابینہ میں اس تجویز کیخلاف کچھ آراء سامنے آئیں۔ دراصل، ڈاکٹر عشرت حسین کی قیادت میں ٹاسک فورس نے تجویز دی تھی کہ وزیراعظم کے تین سینئر بیوروکریٹک مشیروں (سیکریٹری کابینہ، اسٹیبلشمنٹ سیکریٹری اور پرنسپل سیکرٹری ٹُو پرائم منسٹر) پر مشتمل ایک کمیٹی تشکیل دی جائے جو وزیراعظم کو ہر وفاقی سیکریٹری کے عہدے کیلئے تین موزوں ترین امیدواروں کے نام پیش کرے۔ تجویز کے مطابق، وزیراعظم ان تین میں سے کسی ایک افسر کا نام وفاقی سیکریٹری کے مخصوص عہدے کیلئے منتخب کریں گے۔ تاہم، اگر وزیراعظم محسوس کریں کہ پیش کردہ تینوں نام موزوں نہیں تو کمیٹی نئے نام پیش کرے گی۔ اصلاحاتی تجویز میں وزیراعظم کو یہ اختیار نہیں دیا گیا کہ وہ اپنی مرضی سے کسی افسر کو وزارت یا ڈویژن میں سیکریٹری لگائیں جیسا کہ فی الوقت ہو رہا ہے۔ ڈاکٹر عشرت حسین کی ٹاسک فورس نے تجویز دی تھی کہ وزیراعظم کی جانب سے وزارت یا ڈویژن میں افسر مقرر کیے جانے کے بعد افسر کا 6؍ ماہ کیلئے آزمائشی طور پر جائزہ (Probation) لیا جائے گا اور اس عرصہ کے دوران سیکریٹری کو ہٹایا یا تبدیل کیا جا سکتا ہے۔ تاہم، یہ عرصہ مکمل ہونے کے بعد مذکورہ سیکریٹری کو عہدے کا پورے تین سال کیلئے تحفظ حاصل ہو جائے گا۔ وزارتی کمیٹی نے عشرت حسین کی پیش کردہ تجاویز کے مسودے میں دو تبدیلیاں کیں۔ اول، سیکریٹری کے تقرر کے معاملے میں Probation کے عرصہ کا ذکر شامل نہیں کیا گیا۔ دوم، وزیر کو یہ چانس دیا گیا کہ وہ اپنے سیکریٹری کو اس کی تقرری کے 6؍ ماہ کے اندر ہٹا یا تبدیل کر سکتا ہے۔ بیوروکریسی میں کچھ لوگوں کو ڈر ہے کہ سیکریٹری کے تقرر یا تبادلے میں وزیر کو کردار دینے سے عہدے کے تحفظ کی بجائے غیر محفوظ صورتحال پیدا ہوجائے گی۔ اسی طرح، خیبرپختونخوا کے سابق انسپکٹر جنرل ناصر درانی کو پنجاب میں پولیس کو سیاست سے پاک کرنے کیلئے اصلاحات کار اعلیٰ (Chief Reformist) مقرر کیا گیا تھا لیکن انہوں نے عہدے سے استعفیٰ دیدیا (جسے پولیس ریفارم کے مقصد کیلئے ایک بڑے دھچکا سمجھا گیا) جس کے بعد پی ٹی آئی حکومت نے موجودہ آئی جی پنجاب کو اصلاحاتی کمیٹی کی سربراہی دی لیکن بعد میں یہ معاملہ پنجاب کے وزیر قانون راجہ بشارت کےسپرد کر دیا گیا۔ اب ناصر درانی کی بجائے، ایک خالص سیاست دان اور پنجاب کے وزیر قانون راجہ بشارت پولیس میں اصلاحات لائیں گے۔

تازہ ترین