• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پاکستان کے مستقبل کے منظر نامہ کا تصوراتی خاکہ بنانے کی جب بھی کوشش کی جاتی ہے۔ اس وقت بعض تلخ حقائق ہمیں سوچ کے رنگ مہیا کرتے ہیں۔ موجودہ تلخ حقائق یہ کہ ملک کی دو بڑی سیاسی جماعتوں پاکستان پیپلز پارٹی اور پاکستان مسلم لیگ (ن) کی قیادت کے ساتھ حساب کے نام پرجو کچھ ہو رہا ہے، اسے وہ غیر سیاسی قوت کےاشاروں پر ہونے والی کارروائی سے تعبیر کر رہی ہیں۔ دوسری طرف عسکری قیادت کی جانب سے جمہوری عمل کی مکمل حمایت کا بار بار اعادہ کیا جا رہا ہے لیکن اس کے ساتھ ساتھ بین السطور سویلین حکومتوں کو کارکردگی بہتر بنانے کی بھی بات کی جا رہی ہے۔ یہی وہ بات ہے، جس کی بنیاد پر بعض سویلین حلقے بھی یہ رائے قائم کرتے ہیں کہ سیاسی حکومتوں کی خراب کارکردگی کی وجہ سے فوج کو مداخلت کرنا پڑتی ہے۔ اس وقت ہم اس بحث میں نہیں الجھیں گے کہ کس کا موقف درست ہے کیونکہ گزشتہ سات دہائیوں سے اس بحث میں کوئی درمیانی راستہ نہیں نکل سکا ہے۔ ایک تلخ حقیقت یہ ہے کہ سول ملٹری تعلقات میں بہتری نہ ہونے کے حوالے سے جو تاثر دنیا میں پہلے سے پایا جاتا تھا، وہ اب مزید گہرا ہو رہا ہے۔ سفارتی اور کاروباری حلقوں میں جو باتیں ہوتی ہیں، ان میں ایک نئی حقیقت بھی آشکار ہوئی ہے کہ پاکستان کے ساتھ مختلف معاہدے کرنے والے غیر ملکی سرکاری اور غیر سرکاری ادارے پاکستان کے سویلین اداروں کو ضامن کے طور پر تسلیم کرنے سے ہچکچاتے ہیں۔ ایک اور تلخ حقیقت، جواب لوگ محسوس کرنے لگے ہیں، یہ ہے کہ بہت امیدوں اور بڑی توقعات کے ساتھ قائم ہونے والی پاکستان تحریک انصاف کی سویلین حکومت بھی ابتدامیں ہی اپنی کارکردگی کے بارے میں اچھا تاثر نہیں بنا سکی اور پاکستان سویلین سسٹم کی ناکامی کی طرف بڑھ رہا ہے۔ 

ان سارے تلخ حقائق کو ایک اور انتہائی تلخ اور خوف ناک حقیقت سے جوڑا جائے تو مستقبل کا منظرنامہ ایسا نہیں بنتا، جسے ہم دیکھ کر خوش ہوں۔ پاکستان گلوبل فالٹ لائنز کا انٹر سیکشن (چوراہا) بن گیا ہے۔1979 ء میں سوویت یونین اور امریکہ و دیگر اتحادیوں کے درمیان پراکسی (Proxy) جنگوں سے ایک گلوبل فالٹ لائن بنی تھی۔ پاکستان اسی فالٹ لائن پر تھا اور تباہی کا شکار ہوا۔2001 ء میں نائن الیون کے واقعہ کے بعد امریکہ اور اس کے اتحادیوں نے انتہا پسندوں کے خلاف جو عالمی جنگ شروع کی، اس سے ایک اور گلوبل فالٹ لائن بنی۔ یہ بھی پراکسی جنگیں تھیں، جن سے پاکستان کو بہت نقصان ہوا۔ اب تیسری اور خوف ناک گلوبل فالٹ لائن بھی یہیں سے گزرتی ہے۔ چین کی بڑھتی ہوئی طاقت اور اس کا مقابلہ کرنے کے لئے دنیا میں نئی صف بندیاں ہو رہی ہیں اور پہلے سے زیادہ پراکسی جنگوں کے خطرات منڈ لا رہے ہیں۔ پاکستان ان تمام گلوبل فالٹ لائنز کا انٹرسیکشن ہے۔

بہتر سول ملٹری تعلقات کی آج پاکستان کو جتنی ضرورت ہے، شاید پہلے کبھی نہیں تھی۔ فوج اور سول سوسائٹی بشمول سیاسی جماعتیں اس ملک کا جزولا ینفک ہیں۔ صرف پاکستان میں ہی نہیں دنیا کے ہر ملک میں دونوں کے درمیان کھینچا تانی رہی ہے اور اب بھی ہے۔ کئی ممالک ایسے ہیں، جہاں اس مسئلے کو درمیانی راستہ نکال کر بہتر طور پر حل کیا گیا ہے۔ ان میں اسپین اور چلی کی مثال دی جا سکتی ہے۔ کئی ممالک ایسے ہیں، جہاں اب تک یہ مسئلہ حل نہیں ہو سکا ہے۔ ان میں افریقا اور لاطینی امریکہ کے بعض ممالک شامل ہیں۔ مشرق وسطی کے کچھ ملکوں میں نائن الیون کے بعد اس کشمکش کو تباہ کن کن بنا دیا گیا ہے۔

ہمارے ملک میں اس کھینچا تانی یا کشمکش کو ختم کرنے کے لئے عوامی سطح پر عوامل موجود ہیں۔ اس حوالے سے دسمبر 2017 کا گیلپ سروے دلچسپی کا حامل ہے، جس کے مطابق پاکستان کے 81 فیصد لوگ جمہوریت کو ترجیح دیتے ہیں۔ صرف 19 فیصد اس کے برعکس سوچتے ہیں۔ اسی طرح 82 فیصد لوگوں کا فوج کو اعتماد حاصل ہے۔ اس کے برعکس سیاست دانوں اور پارلیمنٹ کے حوالے سے 36 فیصد لوگ بہتر سوچتے ہیں۔ ان عوامی آراء کو بنانے میں پروپیگنڈا اور طاقتور میکانزم کا بھی کردار ہوتا ہے لیکن اس وقت یہی حقیقت ہے۔ پاکستان کے عوام اپنے مزاج اور جوہر میں جمہوری ہیں۔ 1970 ء سے اب تک ہونے والے تمام انتخابات میں ووٹوں کا تناسب 50 فیصد یا اس کے لگ بھگ رہا۔ پاکستان کے وکلا، صحافی، مزدور، تاجر، صنعت کار اور ہر شعبے کے لوگ ہر سال اپنے اداروں میں انتخابات کراتے ہیں۔ ہمارے سماج کا مجموعی رویہ شورائی اور شراکت داری والا ہے۔ آمرانہ اور مطلق العنانیت والے نظام اور افراد سے لوگ لاتعلقی اختیار کر لیتے ہیں اور اپنے انداز میں مزاحمت بھی کرتے ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ پاکستان کے لوگ اپنی افواج سے محبت بھی کرتے ہیں کیونکہ وہ سمجھتے ہیں کہ فوج قومی دفاع اور ملک کا تحفظ کرنے والاقابل اعتماد ادارہ ہے۔ فوج کے نظم و ضبط اور میرٹ والے نظام سے بھی لوگ متاثر ہیں۔ اسی طرح پاکستان کے عوام قائد اعظم محمد علی جناح اور ذوالفقار علی بھٹو سمیت بے شمار سیاست دانوں کا دل سے احترام کرتے ہیں اور انہیں اپنا لیڈر تصور کرتے ہیں۔ وہ یہ بھی سمجھتے ہیں کہ اس طرح کے لیڈر قوموں کے بحرانوں اور چیلنجز سے نمٹ سکتے ہیں۔ سیاسی جماعتوں کی جمہوریت کے لئے جدوجہد اور قربانیوں کی بھی قدر کی جاتی ہے۔ فوج اور سیاست دانوں کے لئے محبت اور احترام کے جذبات بھی موجود ہیں لیکن عوام میں کچھ باتوں پر ناپسندیدگی کا اظہار بھی کیاجاتا ہے یا ان کے ذہنوں میں کچھ منفی تاثر ات ہیں۔ سیاسی حکومتوں کی کارکردگی کے بارے میں جو تاثر پایا جاتا ہے، وہ حقیقت سے زیادہ مضبوط ہے۔ سیاست دانوں پر کرپشن کے الزامات سے بھی لوگ مایوس ہیں کیونکہ وہ سمجھتے ہیں پاکستان کو اچھی سیاسی قیادت میسر نہیں ہے۔

سویلین اور عسکری قیادت کے بارے میں مثبت سوچ کی بجائے ان کے بارے میں منفی تاثرات کو بعض حلقے بہت زیادہ ہوا دیتے ہیں۔ دونوں طرف سے کچھ انتہا پسند حلقے ایک دوسرے کے ساتھ کوئی رعایت نہ کرنے کی باتیں کرتے ہیں۔ اب ہمیں ان باتوں کا فوری تدارک کرنا ہے کیونکہ سول ملٹری تعلقات میںکوئی خرابی ملک کے لئےکسی بھی طرح ٹھیک نہیں ہے۔ خاص طور پر علاقائی اور عالمی سطح پر رونما ہونے والی تبدیلیوں اور ابھرتے ہوئے تضادات کے مرکز میں واقع پاکستان کے تمام شعبوں کے لوگوں کو تدبر سے کام لینا ہو گا اور روایتی سوچ سے نکلنا ہو گا۔ سول ملٹری تعلقات کو بہتر بنانے کے لئے دونوں طرف سے رابطوں کو زیادہ مضبوط بنانا ہو گا۔ ایک دوسرے کی بات کو سمجھنا ہو گا۔ اس حوالے سے پارلیمانی اور اداراتی سطح پر ورکنگ ریلیشن شپ کو بہتر بنانے کے ساتھ ساتھ فوج اور سول سوسائٹی کے اداروں کو باہمی عمل اور رابطوں کو وسعت دینا ہو گا۔ ماضی میں جو ہوا اسے بھلانا ہوگا۔ جمہوریت پسند اور فوج سے محبت کرنے والی پاکستانی آبادی متنوع خصوصیات کی حامل ہے۔ اگر سول ملٹری تعلقات میں کھچاؤ آیا تو یہ آبادی تقسیم در تقسیم کا شکار ہو سکتی ہے۔ آج کے حالات میں فوری طور پر ہمیں اس معاملے پو توجہ دینا ہو گی۔

تازہ ترین