• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

حضرتِ انسان اس کرہ ارض پر جب سے آباد ہے، تب سے لمحہ موجود تک غفلت اور عدم توجہی کا شکار رہا ہے۔ جب تک پانی سر سے نہ گزر جائے، اس کی تدبیر نہیں کی جاتی۔ سمندری طوفانوں نے امریکا کو یہ باور کرایا کہ پانی کے آگے بند نہیں باندھا جاسکتا۔ ہمیں ایسی عمارتیں بنانی ہوں گی جوسطحِ سمندر سے اوپر مضبوط ستونوں پر قائم ہوں اور پانی ان کو نقصان پہنچائے بغیر نیچے سے بہہ کر نکل جائے۔ جب زلزلے کے جھٹکے لگے تو پیشگی زلزلہ الارم اور لچکدار زلزلہ پروف عمارتوں کا تصور سامنے آیا۔ عمارت بادباں کی طرح جھولے لیکن زمین بوس نہ ہو۔ ماحولیاتی آلودگی نے فطری توازن برباد کیا تو ہمیں یاد آیا کہ لینڈ اسکیپ آرکیٹیکچر اور ماحول دوست سبز عمارتوں کی ایسی بہار لائی جائے، جہاں حجر و شجر، پرندچرند ہمارے فطری ساتھی ہوں، ہرسُو سبزے کی چادر تنی ہو اور ہم فطرت کی آغوش میں سکون و آرام سےزندگی بسر کریں۔ جب سے اقوامِ متحدہ نے عالمی سطح پر حکومتوں کو پابند کیا ہے کہ وہ مکان، دکان، دفتر اور کارخانہ بناتے وقت تحفظِ ماحولیات کا لازمی خیال رکھیں، تب سے ماحول دوست منصوبے سامنے آنا شروع ہوگئے ہیں۔

لینڈ اسکیپ آرکیٹیکچر اور موسمیاتی تبدیلی کا چیلنج

کہتے ہیں کہ فطرت اپنے جوہر میں بہت سادہ اور کرخت ہوتی ہے، جسے جھاڑ جھنکار کے ساتھ الجھے کانٹوں اور سبزہ زار سے محبت ہوتی ہے۔ انسان کا جمالیاتی ذوق جنگل میں منگل کا سماں باندھ کر اپنی کاٹ چھانٹ سے ایسے شالامار باغ سجاتا ہے، جسے دیکھ کر احساس ہوتا ہے کہ فطرت کے گل بوٹے کے لیے باغبان کی تراش خراش درکار ہوتی ہے۔ یہی احساسِ محبت لینڈ اسکیپ آرکیٹیکچر میں پایا جاتا ہے، جہاں خود رو گھاس کو تراش کر د لکش بنایا جاتا ہے۔ ایسے لینڈ اسکیپ آرکیٹیکچر میں باغات، حجر و شجر، ہوا اور پانی کا گزر ڈیزائن کا ناگزیر حصہ ہوتے ہیں۔ پاکستان میں بڑے تعمیراتی منصوبوں کو لینڈ اسکیپ آرکیٹیکچر اسٹائل میں بنایا جارہا ہے۔ کراچی، لاہور، اسلام آباد، کوئٹہ اور پشاور کی شکل ماضی کے مقابلے میں خاصی تبدیل ہوچکی ہے۔

سماجی، سیاسی اور معاشی ترقی کے ساتھ قدرتی وسائل کے بڑھتے استعمال سے تشویش بڑھ رہی ہے۔ بڑھتی آبادی کے باعث وسائل کا دانش مندانہ استعمال اور کاشتکاری کو ہر گھر کا حصہ بنانے کے لیے لینڈ اسکیپ آرکیٹیکچر اور گرین ہاؤسز پر کام ہو رہا ہے۔ تعلیمی درس گاہوں کا ماحول فطرت سے مماثل کرنے کے لیے کئی بڑے منصوبے بن رہے ہیں۔ قدرتی وسائل کے زیاں کو روکنے اور پائیدار کمیونٹی کے قیام کے لیےآرکیٹیکٹس ماحول دوست عمارتیں بنانے کی صائب کوششیں کررہے ہیں۔ بابل کے معلق باغات ہوں یا الحمرا و غرناطہ اور مغل حکمرانوںکے شاہی باغات، فطرت شناس آرکیٹیکٹس تاریخ کے ہر دور میں اپنی عظمت کے جھنڈے لہرا چکے ہیں۔ امریکن لینڈ اسکیپ آرکیٹیکچرکے بانی فریڈرک لااولمسٹیڈ اور پامیلا برٹن، برازیلین کے رابرٹوبرلے مارکس، فرینچ جین چارلس الفنڈ اورآندرے لی نوٹرے اور جرمن امریکن جارج کیسلرجیسےبڑے ناموں کو فراموش نہیں کیا جاسکتا، جنہوں نے مکانات اور باغات کے حیرت انگیز ڈیزائن بنائے۔ ماحولیاتی آلودگی کو روکنے کے لیے آرکیٹیکٹس اور تعمیراتی کمپنیاںان کے نقشِ قدم پر چل کر زمین کو بچانے کے لیے مشترکہ کاوشیں کر رہے ہیں، جس میں پاکستان کی شجر کاری مہم کو بھی شامل کیا جاسکتا ہے۔

آرکیٹیکچرماحولیاتی تبدیلی کیسے روک سکتا ہے؟

اس وقت ہمیں جس عالمی درجہ حرارت و حدت اور موسمیاتی تبدیلیوں کا سامنا ہے، اس کی بنیادی وجہ صنعتی انقلاب اور تیزی سے جنگلات کا کٹاؤ ہے،جس نے فضا کو زہر آلود بناکر ہمیںفضائی وآبی آلودگی سے دوچار کردیا ہے۔ اس وقت دنیا بھر میں تحفظِ ماحولیات پر کام ہو رہا ہے۔ ہوا کو صاف کرنے کی ٹیکنالوجی اورفطرت کو ہمنوا بنانے کے لیے گرین کنسٹرکشن آرکیٹیکچر اینڈ ڈیزائن کا شعبہ بنایا جاچکا ہے۔ سیمنٹ کی حدت روکنے کے لیے مزاحم مٹیریل اور بیٹری کی طرح موسم کے مطابق درجہ حرارت تبدیل کرنے والی اینٹیںبھی بنائی جاچکی ہیں۔ ڈیزائن اور آرائش کے شعبوں میں ماحول دوست عمارت کا خاص دھیان رکھا جاتا ہے۔’ہوم پلانٹ‘ کے نام سے کئی منصوبوں پر کام ہورہا ہے، ان سبز عمارتوں کو کھیت کھلیان کہا جارہا ہے،جہاں ہر بالکنی اور چھت نامیاتی غذاؤں کی کاشت سے بھری نظر آئیں گے۔ فیکٹری کے جملہ معاملات میں تحفظِ ماحول کے لیے اقدامات کو ناگزیر کر دیا گیا ہے۔ فطرت، نباتات و جمادات کی معدومیت کے کنارے پر کھڑے ہم کلوننگ کے ذریعے نایاب اجناس کو اُگانے میں بھی خود کفیل ہوگئے ہیں۔ ہمارے اپنے زرعی تحقیقاتی ادارے کئی کار آمد بیج بنا چکے ہیں۔ یہ سب اقدامات مل کر ممکنہ طور پر عالمی حدت اور موسمیاتی تبدیلی کو روک سکتے ہیں۔

تازہ ترین