• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
انداز بیاں … سردار احمد قادری
مراکش ( المغرب) میرا دوسرا گھر ہے جب بھی وہاں جانا ہوتا ہے مجھے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ میں اپنے گھر میں جارہا ہوں۔ اس بار دسمبر2018کی چھٹیوں میں ایک بار پھر مراکش کے تاریخی اور حسین شہر فاس جانے کا موقع ملا، اب تو میں نے گننا بھی چھوڑ دیا کہ اس سے پہلے کتنی مرتبہ فاس آنے کا موقع ملا تھا، جب بھی فاس جائوں جتنی بار بھی جائوں ہربار نیا لطف نیا روحانی سرور ملتا ہے اور ہربار نئے روحانی تجربات حاصل ہوتے ہیں۔ اسبار تو روحانی اثرات کا غلبہ ہر جگہ اور بارہا دیکھنے کا موقع ملا، شیخ احمد دباغ اگرچہ میرے ساتھ نہیں تھے لیکن وہ دور کہاں تھے۔ ایسا لگا کہ وہ میرے ہم سفر ہیں میرے ساتھ ہیں گویا ہم اکھٹے ہی سفر کررہے ہیں۔ شیخ احمد دباغ کو جب میرے فاس جانے کے پروگرام کے متعلق معلوم ہوا تو وہ بہت خوش ہوئے اور کہنے لگے کہ اچھا ہے آپ اکیلئے جائیں آپ کو ایسے ایسے روحانی اسرار خود نظر آئیں گے کہ آپ کو اس سفر کی معنویت اور اس سفر کی برکات کا احساس ہوگا، اس بار میں نے ہوٹل میں نہ ٹھہرنے کا ارادہ کیا تھا ایک تو وجہ یہ تھی کہ میں اکیلا تھا سوچا اگر ہوٹل میں کمرہ لے کر پڑارہا تو جانے کا مقصد فوت ہوجائے گا۔ فاس میں’’ الطریقۃ المحمدیہ‘‘ کے دوستوں کو اپنی آمد سے مطلع کیا تو ڈاکٹر عزیز ادریسی اور پروفیسر محمد بوشیشن دونوں نے اصرار کیاکہ میں ان کے ہاں ٹھہروں طے یہ ہوا کہ دونوں حضرات کے ہاں باری بار قیام ہوگا۔ میرا سات دن کا قیام تھا، پانچ دن سے پہلے ڈاکٹر سید عزیز ادریسی نے اپنے آرام دہ اپارٹمنٹ سے جانے کی اجازت نہ دی اس دوران انہوں نے مہمان نوازی اس انداز سے کی کہ میں سوچتا رہا کہ سیدنا امام حسن رضی اللہ عنہ کے خانوادے کے اس علمی چشم وچراغ سے ایسے ہی حسن اخلاق محبت وشفقت کی توقع کی جاسکتی تھی۔ پروفیسر محمد بوشیشن فاس یونیورسٹی میں شعبہ اسلامی تاریخ کے پروفیسر ہیں انہوں نے بھی دو دن اپنی وسیع وعریض قیام گاہ میں مہمان نوازی کا حق ادا کردیا۔ ان دونوں دوستوں کے ساتھ وقت گزارنے کا فائدہ یہ ہوا کہ انہوں نے مجھے مصروف رکھا اور جب وہ اپنی تدریسی اور علمی مصروفیات کی وجہ سے موجود نہیں ہوتے تھے تو اپنے کسی شاگرد اور عزیز کو میری ہمراہی کے لئے مقرر کردیتے تھے جو میرے لئے کسی شیخ طریقت کے مزار کی زیارت کا پروگرام طے کرلیتے تھے ، آپ فاس جائیں اور ’’ زر ہون‘‘ نہ جائیں یہ تقریبا ناممکن ہے، زر ہون کیا ہے ؟ یہ فاس سے پچاس سے ساٹھ میل کے فاصلے پر پہاڑوں کے دامن میں سفید گھروں اور سرخ چھتوں کے ایک حسین قصبے کا نام ہے جہاں سیدنا امام حسنؓکے پڑ پوتے آرام فرمارہےہیں۔ سیدنا امام حسنؓ کے بڑے صاحبزادے آپ ہی کی شخصیت کا عکس اور حسین مظہر تھے۔ انہیں حسن مثنیٰ کے نام سے تاریخ نے یاد رکھا۔ حضرت حسن مثنیٰ کے صاحبزادے عبداللہ الکامل تھے۔ ان کے ایک صاحبزادے محمد نفس زکیہ مدینہ منورہ اور عرب کی سر زمین کے حکمران تھے جنہیں ظالم عباس حکمرانوں نے مدینہ منورہ پر حملہ کرکے شہید کردیا۔ ان کے ایک بھائی حضرت ادریس تھے جو ’’المغرب‘‘ تشریف لے آئے، انہیں ’’ ادریس اول ‘‘ کے نام سے پکارا جاتا ہے۔ زر ہون کے قرب وجوار میں سیدنا ادریس اول نے افریقہ کے شمال میں پہلی اسلامی حکومت کی بنیاد رکھی لیکن بغداد کے عباس حکمرانوں کی نظر میں یہ حکومت بہت کھٹکتی تھی اور وہیں ہوا جو مسلمانوں کی تاریخ میں کئی بار ہوا، یعنی مسلمانوں نے جس نبی آخر الزماں ﷺ کا کلمہ پڑھا ہے اور شفیع المذنبین ﷺ کی شفاعت کے طلب گار ہیں آپ ﷺ کی اولاد اطہار کو ہی بار بار شہید کیا اور بے دردی سے شہید کیا ۔یہ صلہ دیا کہ امت نے اپنے پیارے نبی کی اولاد پاک کو حضرت امام حسنؓ کو زہردے کر شہید کیا ۔ حضرت امام حسینؓ اور آپ کے صاحبزادوں اور اہل خاندان کو نہ صرف بے دردی سے شہید کیا گیا بلکہ ان کے مبارک جسموں پر شہادت کے بعد گھوڑے دوڑائے گئے اور سر مبارک کاٹ کر نیزوں پر فاتحانہ انداز میں لہرائے گئے سیدنا امام زین العابدینؓ اور امام محمد باقر نے مدینہ منورہ میں بیٹھ کر مسند ارشاد پر نبی کرم نور مجسم رحمت العالمین سیدنا محمد الرسول اللہ ﷺ کے علمی روحانی ، عرفانی فیض کا چشمہ جاری رکھا۔ لیکن ان کی مقبولیت سے افسوس ظالم حکمران گھبراتے تھےلیکن وہ ایک اور کربلا کی ہمت نہ کرسکے امام جعفر صادقؓ کے وقت عباسی حکومت میں آچکے تھے اگرچہ نبی کریم ﷺ کے چچا حضرت عباس رضی اللہ عنہ کے خاندان کے یہ لوگ آل نبی اولاد علی کے ہمدرد بن کر اور ان کے ساتھ ہونے والے ظلم کا انتقام لینے کا سیاسی نعرہ لگا کر اقتدار میں آئے تھے لیکن حکومت مضبوط ہوتے ہی وہ اس طرح اپنے وعدوں کو بھول گئے جس طرح آج کل کے وعدہ خلاف مکار حکمران بھول جاتے ہیں نہ صرف یہ کہ بلکہ ابو جعفر منصور نے امام جعفر صادق رضی اللہ عنہ کو شہید کرنے کا منصوبہ بنایا لیکن ناکام رہا عباسیوں نے ہی امام موسیٰ کاظم کو جیل کی سلاخوں کے پیچھے بند رکھا اور انہیں اذیت دے کر خوش ہوتے رہے لیکن امام جعفر صادق کے یہ نور نظر خندہ شیانی نے ظلم وستم کا سامنا کرتے رہے اور قید وبند کی مصیبتیں برداشت کرتے رہے۔ مگر سید المرسلین ﷺ کی سنت پر عمل کرتے ہوئے کلمہ حق سے دستبردار نہ ہوئے ان کے صاحبزادے امام علی رضا کو حکمران بنانے کا وعدہ کیا گیا لیکن انہیں بھی بالآخر زہر دے کر شہید کردیا گیا۔ الغرض سرزمین عرب پر کسی سیدزادے کا رہنا مشکل ہوگیا تھا۔ خاص طورپر ائمہ اہل بیت اطہار کی مقبولیت اور عوامی پزیرائی اور امت کے دلوں میں ان کی محبت و مؤدت سے نام نہاد مسلمان حکمران خائف اور پریشان رہتے تھے اور آل نبی اولاد علی کو ختم کرنے کے منصوبے بناتے رہتے تھے اس لئے امام ادریس اول نے افریقہ کا سفر اختیار کیا وہاں اسلامی حکومت قائم کی لیکن ہارون الرشید کب برداشت کرسکتا تھا کہ شمالی افریقہ میں ایک ایسی اسلامی حکومت قائم رہے جس کا سربراہ آل نبی سے ہو اور لوگ دل سے اس کا احترام کرتے ہوں اس لئے اس نے اپنے انٹیلی جنس ادارے کے خفیہ افراد امام ادریس کے پاس بھیجے۔ ان جاسوسوں نے سازش کرکے امام ادریس اول کو زہر دے دیا، آپ نے اپنی اہلیہ سے فرمایا کہ میرے بعد میرے بیٹے کو میرا جانشین بنانا اور جس اسلامی حکومت کا میں نے آغاز کیا ہے وہ اس کو تکمیل تک پہنچائے گا۔آپ کی اہلیہ اس وقت حاملہ تھیں امام ادریس اول کی شہادت کے کچھ مہینوں بعد انہوں نے ایک خوبصورت بیٹے کو جنم دیا اس کو والد کا نام دیا گیا یہ ادریس ثانی کے نام سے جانے جاتے ہیں انہوں نے جوانی میں ہی اسلامی حکومت کو استحکام بخشا اور فاس شہر کی بنیاد رکھی، فاس میں جانے والا ہر صاحب نظر امام ادریس ثانی کے مزار پر حاضری دے کر انہیں خراج عقیدت پیش کرتا ہے، میں امام ادریس ثانی کے مزار پر حاضری دے چکا تھا اب امام ادریس اول کے مزار پُر انوار کی حاضری کے لئے ’’زرہون‘‘ جارہا تھا جیسے نماز ظہر پڑھ کر آپ کے قدموں میں بیٹھا تو روحانی دنیا میں دیکھا کہ آپ مزار شریف سے نہیں بلکہ بیرونی دروازے سے ایک جماعت کے ہمراہ تشریف لارہے ہیں۔
تازہ ترین