• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

میرے پیارے دوست بودی شاہ آج طویل عرصے کے بعد میرے پاس آئے ہیں مگر حالات کو دیکھ کر لگتا ہے کہ ان کی عادتیں وہی پرانی ہیں، ان کا جلال بھی وہی ہے اور کمال بھی پہلے جیسا ہے۔ اب جب ان کے سامنے چائے آ چکی ہے، وہ حقے کے کش لگا رہے ہیں اور مسلسل یہ کہہ رہے ہیں کہ آج زبردست گپ شپ ہو گی مگر کچھ دیر بعد ہو گی۔ بالآخر وہ لمحہ آن پہنچا ہے جب بودی شاہ زبردست باتیں کرنے والا ہے۔ میں نے شاہ صاحب کا موڈ خوشگوار دیکھ کر سوال کر ہی دیا کہ بودی شاہ جی کچھ ملکی حالات پر بھی روشنی ڈالیں۔ جواباً بودی شاہ غصے میں بولا ’’ایک تو تم صحافیوں کو ہر وقت خبروں کی پڑی رہتی ہے، کسی شادی میں مل جائو تب خبروں کا پوچھتے ہو، اگر کسی جنازے میں مل جائو تب بھی مرنے والے سے زیادہ آپ لوگوں کو خبروں کی فکر ہوتی ہے، ابھی میں آ کر بیٹھا ہی ہوں کہ پوچھنا شروع کر دیا ہے، چپ ہو جائو۔ ‘‘

اس حکم نامے کے بعد میں بالکل خاموش ہو گیا مگر میری خاموشی شاہ صاحب سے کہاں برداشت ہوتی ہے، تھوڑی دیر بعد بودی شاہ بولا اور کہنے لگا ’’اچھا بابا معاف کرو، کوئی گستاخی ہوئی ہے تو معاف کرو، اب تم سنتے جائو کہ اس ملک میں کیا کچھ ہوتا رہا ہے اور کیا کچھ ہو رہا ہے۔ آپ بڑے صحافی بنے پھرتے ہیں، آپ کو پتہ ہے کہ کس اہم شخصیت کو ایک اور شخصیت کے ذریعے جوہانسبرگ (افریقہ) میں ادائیگی ہو گئی ہے۔ دیکھنے والوں کو اس کے اثرات بھی نظر آ چکے ہیں۔ آپ کو پتہ ہے کہ لندن میں کس شخصیت کو ادائیگی ہوئی ہے، چلو آپ کو یہ تو پتہ ہو گا کہ کس اہم شخصیت کا داماد میڈیسنز کا کاروبار کرتا ہے اور اب دوائوں کی کیا صورتحال ہے۔ آپ کو کم از کم یہ تو پتہ ہونا چاہئے کہ کونسا اعلیٰ افسر آج سے چودہ پندرہ سال پہلے نیب کے کاغذوں میں مر گیا تھا، پھر اس مردے میں جان ڈال دی گئی اور اب وہ ایک بڑے ادارے کا ڈی جی ہے، پتہ ہے آپ کو کہ اس ڈی جی کے بیرونی دنیا میں پچاس سے زائد اکائونٹس ہیں، یہ ماضی میں بھی بڑی ہستیوں کے ساتھ تھا، اب بھی بڑی ہستیوں کے ساتھ ہے، اس پر ایک اعلیٰ ہستی کا سایہ ہے، ویسے تو اب موسم شدید ہے، درختوں کے رہے سہے پتے بھی سلامت نہیں رہیں گے، جونہی یہ سایہ ختم ہو گا اس افسر کو دھر لیا جائے گا پھر کئی بڑے اسکینڈلز سامنے آئیں گے، بڑی بڑی پاک سمجھی جانے والی ہستیاں بے نقاب ہو جائیں گی، بے نقاب ہونے والوں میں ماضی اور حال کے کردار ہوں گے۔ سنا ہے کہ مبینہ طور پر ایک وفاقی وزیر کے بعد ایک مرکزی مشیر نے بھی شادی رچا لی ہے، ان شادیوں پر وہی پرانی سیاسی چالیں ہیں جو ماضی کے وزیر اختیار کرتے رہے۔ آپ کو پتہ ہے، وہ کون ہے جو صدر بننا چاہتا تھا اور نہ بن سکا، کیا آپ کو خبر ہے کہ کوئی چیئرمین نیب بننا چاہتا تھا اور اُسے جواب ہو گیا ہے، آپ کو پتہ ہے کہ سینیٹ کی ایک سیٹ کا الیکشن باپ اور بی این پی کی وجہ سے پی ٹی آئی کے گلے کی ہڈی بنا ہوا ہے۔ اس سے کام خراب بھی ہو سکتا ہے۔ اختر مینگل کے پاس اور آفرز موجود ہیں مگر شاید ابھی ان آفرز پر عملدرآمد کا وقت نہیں آیا۔ ہفتے دس دن میں ایک بڑا اسکینڈل منظر عام پر آنے والا ہے۔ اس کے بڑے کردار چند روز میں سامنے آنے والے ہیں اگرچہ یہ ایل این جی کا اسیکنڈل ہے مگر اس میں پی ٹی آئی کے دو اہم رہنمائوں کے نام شامل ہیں، ایک مرکزی رہنما ہے جبکہ دوسرا چہیتا وزیر ہے۔ اسی وزیر بہادر نے ایک بڑی منظوری دے رکھی ہے، آپ کو پتہ ہے کہ اس ایل این جی کے باعث پاکستان 2017ء سے ساڑھے دس ارب روپے ادا کر رہا ہے یعنی پاکستانی لوگ جو گیس ابھی استعمال بھی نہیں کر رہے،اس کی ادائیگی کر رہے ہیں۔ یہ معاہدہ دو حکومتوں کے درمیان بھی نہیں ہے بلکہ قطر سے قطری خط کے مالک کے بھائی ہیں، ایک سابق پاکستانی سینیٹر اُدھر سے پارٹنر ہیں، ان صاحب کی کئی ایک چائنیز کمپنیوں کے ساتھ بھی پارٹنر شپ ہے۔ یہ اسکینڈل بڑے بڑے پول کھول دے گا اس میں دو سابق وزرائے اعظم، دو سابق وزراء، ایک موجودہ وزیر، ایک پی ٹی آئی کا مرکزی رہنما، اس کے علاوہ ایک سابق سیکرٹری اور ایک حاضر سروس سیکرٹری سمیت کئی دیگر افسران شامل ہیں۔ اسی دوران آڈیٹر جنرل آف پاکستان کی تازہ رپورٹ آئی ہے۔ اس رپورٹ کے مطابق چیئرپرسن اوگرا کی تقرری قانونی تقاضوں کو پورا کئے بغیر ہوئی ہے۔ موجودہ حکومت نے ایک ثقافتی شخصیت کے کہنے پر اوگرا کی چیئرپرسن کو کام جاری رکھنے کا کہا ہے مگر اس رپورٹ کے بعد پتہ نہیں کیا ہوتا ہے۔ اب تک اس سلسلے میں نیب میں 54افراد کی پیشی ہو چکی ہے اب بڑی پیشیاں ہوں گی۔ آپ کو پتہ ہے عمران خان حکومت پر دو بڑے حملے ہو چکے ہیں، ایک حملہ ایک وزیر نے کیا اس نے کسی خاص کے کہنے پر روپیہ گرا دیا۔ دوسرا حملہ اور نوعیت کا ہے، کسی اہم شخصیت نے افغانستان میں رابطہ کیا تھا، یہ کال ریکارڈ ہو گئی تھی، اس کال کے بعد وزیر اعظم کی سیکورٹی بڑھا دی گئی۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ ان برے حالات میں بعض اچھی خبریں بھی ہیں اگرچہ بہت سے وزراء اس سلسلے میں سرتوڑ کوشش کر رہے ہیں کہ عمران خان ناکام ہو جائیں مگر قسمت وزیراعظم عمران خان پر مہربان ہے۔ خراب معاشی صورتحال کے حامل ملک میں چالیس سے پچاس بلین ڈالر کی سرمایہ کاری آ رہی ہے۔ ہو سکتا ہے کہ سرمایہ کاری زیادہ ہو جائے کیونکہ چند دنوں میں عمران خان ایک اور عرب ملک میں جا رہے ہیں۔ آپ کو پتہ ہے کہ بیورو کریسی پی ٹی آئی حکومت کو ناکام کرنے کے لئے انتھک محنت کر رہی ہے۔ عمران خان کو ماضی سے سبق سیکھنا چاہئے۔ بھٹو صاحب نے 1300بیورو کریٹس کو فارغ کیا تھا جبکہ جنرل یحییٰ خان نے بھی مستی کرنے والے 303بیورو کریٹس کو فارغ کیا تھا۔ آپ کو پتہ ہونا چاہئے کہ ایک ٹی وی اینکر جیل میں ہے، اسے جس مقدمے میں اندر رکھا گیا ہے اس کے پیسوں کی ریکوری 2012ء میں ہو گئی تھی، اب کہا جا رہا ہے کہ اس کرپشن میں ان کا مشورہ شامل تھا، اس اینکر کا نام ڈاکٹر شاہد مسعود ہے، جس پر ابھی تک فردِ جرم عائد نہیں ہو سکی اور وہ پچھلے ڈیڑھ ماہ سے جیل کی سلاخوں کے پیچھے ہے۔ ‘‘

خواتین و حضرات! یہ تھی بودی شاہ کی گفتگو، آج کا پورا کالم یہ گفتگو کھا گئی ہے، میرے لئے اب ایک شعر بچ گیا ہے، نائلہ انجم کا شعر پڑھیے کہ ؎

ایسے منظر بھی گزر جاتے ہیں آنکھوں سے جنہیں

ہم نہیں دیکھتے، حالات دکھا جاتے ہیں

تازہ ترین