• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
تحریر:محمدسجاد رضوی…ہیلی فیکس
دسمبر 2018کا تیسرا دن نہ صرف ہمارے خاندان بلکہ دنیا کے گوشے گوشے میں بسنے والے عشاقِ رسول کریم ﷺ کے دلوں پر نقشِ وفا ثبت کرگیا جب ایک بزرگ عالم دین حضرت علامہ محمد یوسف سلطانی علیہ الرحمہ کی جیل میں شہادت ہوئی جو تحفظِ ناموسِ رسالت کی تحریک کے سلسلے میں 23نومبر 2018کو اپنے مدرسہ جامعہ غوثیہ رضویہ لکھنوال (نزد جلالپور جٹاں گجرات۔ پاکستان) سے گرفتار کئے گئے تھے، راقم کو شہادت کی خبر برطانیہ میں ملی۔ سات سمندر پار اپنے ضعیف العمر والد کے وصال کی خبر سن کر ایک بیٹا جس صدمے سے گزرتا ہے وہ کیفیت صرف محسوس کی جاسکتی ہے ' بیان نہیں اور وہ بھی جیل کے اندر وصال جو شدید ضعف، علالت اور "مسلمان حکومت" کی دیدہ و دانستہ جبر کے نتیجے میں ہوئی۔ ایک ایسا والد جس کی صرف نسبی اولاد ہی نہیں ہزاروں کی تعداد میں روحانی اولاد بھی ان کے تقویٰ، ورع، اخلاص، علم دوستی، قرانی شغف اور عدم تشدد پسندی کی ببانگِ دہل گواہ ہے جس کی ذات سے اپنے تو کجا ' دیگر مکاتب فکر کو بھی تمام عمر ذرہ بھر گزند نہیں پہنچا جس نے 55سال سے زائد "فلسفۂ اخلاص و للھیت" کی عملی تصویر بن کر دین متین کی خدمت کی جن میں سے تقریباً 40سال مسلسل گجرات کی نواحی سرزمین لکھنوال (جس کا ذکر اوپر گزر چکا) میں گزرے اور اس کے ثمرات ظاہری کے طور پر دو مرکز ' جامعہ غوثیہ رضویہ اور جامعہ ام الخیر کے ساتھ ساتھ تقریباً 10مختلف برانچز کا قیام جبکہ ہزاروں کی تعداد میں طلبہ و طالبات کی علمی ' فکری اور نظریاتی تعمیر کی شکل میں ظاہر و عیاں ہوئے۔ جامعہ فیضیہ مہلو (حضرتِ شہیدؒ) کے آبائی گاوں میں جہاں آپ کے والد گرامی فیضِ ملت صوفی عالم اور مقبولِ بارگاہِ جلالت حضرت علامہ فیض احمد چشتی علیہ الرحمہ کا مرقد انور ہے وہاں بھی آپؒ نے مزار کو تعمیری شوکت دینے کی بجائے ' عالیشان مدرسہ کی تعمیر فرمائی اور اپنے خونِ جگر سے آباد کیا۔ایسے عالم دین کو رات کے وقت صرف اس لئے گرفتار کیا گیا کہ لوگ ان کی آواز پر لبیک کہتے ہیں اور ان کو پورا علاقہ اپنا روحانی و دینی سربراہ مانتا ہے اس لئے کہیں وہ حکومت کےلیے خطرہ ثابت نہ ہوں۔ صرف اس شبے کی بنا پر اسلامی جمہوریہ پاکستان کی "اسلام پسند" قوتوں نے ایک ضعیف شخصیت کو ' اس کی ساری خدمات اور عالیشان کردار پر یہ صلہ دیا کہ سخت سردی کے عالم میں فقط ایک شلوار قمیص کے اندر انھیں جلالپور جٹاں پھر سرائے عالمگیر اور آخر کار حافظ آباد لے جایا گیا جہاں 3دسمبر 2018کو آپ کی شہادت ہوئی اور "گویا" پاکستان کا ایک خطرناک "ملزم" اپنے نبی ﷺ کی ناموس کی حفاظت کرتے کرتے دنیا سے رخصت ہوگیا۔ مجیب الرحمٰن شامی، اوریا مقبول جان، 'مفتی منیب الرحمٰن ، مفتی محمد نعیم، ' علامہ کوکب نورانی تنظیم المدارس پاکستان اور دیگر کثیر دینی و سیاسی تنظیمات اور بے شمار عدل پسند لوگوں نے اپنے اپنے ذرائع کے مطابق شدید احتجاج کیا، ایک ایک کلپ بلامبالغہ لاکھوں کی تعداد میں دیکھا سنا اور شیئر کیا گیا جن میں اس شہادت کے ذمہ داروں کے خلاف ایکشن لینے اور حقیقت عوام کے سامنے لانے کی درخواست کی گئی مگر ہائے حسرت کہ عدل کے شہسوار اس وقت برطانیہ میں چندہ اکھٹا کررہے تھے اور حکومت اس ملک کو ریاست مدینہ میں تبدیل کررہی تھی بھلا ایسی "چھوٹی" باتوں کا نوٹس کون لیتا۔ بہرحال 4دسمبر کو آپ کے آبائی گائوں مہلو ضلع گجرات میں ہزاروں لوگوں نے پولیس، رینجرز اور دیگر فورسز کے سائے میں نماز جنازہ ادا کی جس کی امامت کی سعادت راقم کو حاصل ہوئی تقریباً ڈیڑھ مہینے کا وقت بیت چکا مگر ایک مسلمان ریاست کے تمام مختار ادارے اس سے چشم پوشی کئے ہوئے ہیں راقم اور اس کے برادران صاحبزادہ پروفیسر محمد الیاس صدیقی، صاحبزادہ حافظ علی عباس قادری، صاحبزادہ مولانا فیض رسول قادری ان ہزاروں دینی و سیاسی اور سماجی قائدین کے ساتھ اپنی عوام کے شکر گزارہیں جنہوں نے ہمیں اس مرحلے میں اپنے تعزیتی پیغامات سے حوصلہ دیا اور جگہ جگہ ایصال ثواب کی محفلین منعقد کرکے آنحضرت ﷺ کے ساتھ اپنے عشق کا اظہار کیا اور آخر میں حقیقت یہی ہے کہ علامہ محمد یوسف سلطانی علیہ الرحمہ نے نہ صرف ہمارے خاندان بلکہ قافلہ عشق و محبت کے شرکاء کا سر قیامت تک کیلئےفخر سے بلند کردیا آپ کا خلا پُر نہیں ہوسکے گا مگر آپ کے اعزاز کی رفعت اور بلندی بھی ناقابلِ پیمائش رہے گی۔
تازہ ترین