ہماری مائوں کو لگتاہے کہ بچوں کو ہر وقت کھلانا پلانا انھیں صحت مند بناتا ہے اور اس کوشش میں وہ برگر، چپس، پیٹس، کوکیز، ڈونٹس، کیک غرض جو کچھ بھی ہاتھ آئے، وہ انھیں کھلا دیتی ہیں۔ پھر کچھ عرصے بعد جب بچوں کا جسم فربہ ہونا شروع ہوتا ہے تو پریشانی لاحق ہوجاتی ہے کیونکہ موٹاپا بہت سی بیماریوں کا پیش خیمہ ہے۔ دراصل بچے وہی کھاتے ہیں جو والدین کھانا پسند کرتے ہیں، اسی لئے والدین خصوصاً مائوں کو اس سلسلے میں ذرا احتیاط برتنے کی ضرورت ہے ۔
عالمی ادارہ ِ صحت کے مطابق دنیا بھر میں ترقی پذیر ممالک میں فربہ بچوں کی تعداد میں مسلسل اضافہ خطرے کا الارم بجا رہا ہے۔ ادارے کے مطابق ان ممالک کو ترجیحی بنیادوں پر اس مسئلے سے نمٹنے کے لیے کام کرنا ہوگا، ورنہ بچوں کا موٹاپا مستقبل میں انہیں بہت سی بیماریوں میں مبتلا کر سکتا ہے۔ افریقہ میں گذشتہ بیس برسوں میں موٹے بچوں کی تعداد دُگنی ہو چکی ہے۔
ماہرین BMI (Body Mass Index) کا سہارا لیتے ہوئے انسانی جسم کو قد، وزن اور عمر کے حساب سے پرکھتے ہیں۔ اس کے بعد ہی اس بات کا تعین کیا جاتا ہے کہ کس کو وزن بڑھانے کی ضرورت ہے، کس کا وزن درست ہے، کس کا وزن زیادہ ہے اور کس کا وزن تشویش ناک حد تک زیادہ ہے۔ عالمی ادارہ ِ صحت کہتا ہے کہ وزن میں زیادتی آگے چل کر زندگی میں بڑے طبی مسائل جیسا کہ ذیابطیس، دل کی بیماریوں اور فالج کا سبب بن سکتی ہے۔ اگر آپ اپنےبچوںمیں موٹاپے کی وجہ جاننا چاہتی ہیں تو وہ کچھ یوں ہیں ۔
بچوں کے کمرے میں ٹی وی
یونیورسٹی کالج لندن کے سائنسدانوں کا کہنا ہے جن بچوں کے کمرے میں ٹی وی ہے، ان میں دیگر ایسے بچوں کے مقابلے میں زائد وزن ہونے کا امکان زیادہ ہے، جن کے کمرے میں ٹی وی موجود نہیں ہے۔ سائنسدانوں نے بتایا کہ لڑکیوں میں بطور خاص یہ بات سامنے آئی ہے کہ وہ جتنا زیادہ وقت ٹی وی دیکھنے میں گزارتی ہیں، ان کا وزن اتنا ہی زیادہ بڑھتا ہے۔محققین کا کہنا ہے کہ اب یہ دیکھنا باقی ہے کہ آیا یہی حال لیپ ٹاپ اور فون کے معاملے میں بھی ہے یا نہیں۔ یہ تحقیق انٹرنیشنل جرنل آف اوبیسیٹی میں شائع ہوئی ہے، جس میں برطانیہ کے 12 ہزار بچوں کے اعداد و شمار کا تجزیہ کیا گیا ہے۔ سائنسدانوں کا کہنا ہے کہ ان میں سے نصف سے زیادہ بچوں کے کمروں میں سات سال کی عمر سے ٹی وی ہیں۔ محققین نے بچوں کی 11سال کی عمر میں بی ایم آئی یعنی قد اور وزن کے تناسب سے جسم میں چربی کی جانچ کی۔ مشاہدے میں یہ بات سامنے آئی کہ جن لڑکیوں کے کمروں میں سات سال کی عمر میں ٹی وی تھے، ان میں سے30فیصد لڑکیاںاسی عمر کی دیگر ایسی لڑکیوں کے مقابلے میں زائد وزن پائی گئیں، جن کے کمروں میں ٹی وی نہیں تھا۔ لڑکوں کے معاملے میں یہ خطرہ تقریباً20فیصد ہے۔
نیند کی کمی
برطانیہ میں کی گئی ایک طبی تحقیق میں بتایا گیا ہے کہ جو بچے نیند کی طبعی مقدار پوری نہیں کر پاتے، ان میں بڑے ہونے کے ساتھ موٹاپے کا شکار ہونے کے امکانات ہوتےہیں۔ برطانوی تحقیق کےدوران 18سال سے کم عمر کے 75ہزار499بچوں کی نیند کے معمولات کا مطالعہ کیا گیا ہے۔ماہرین صحت کا کہنا ہے کہ چار ماہ سے11ماہ تک کے بچوں کو کم سے کم 12سے15گھنٹے اور دو سال کی عمر کے بچوں کو 11سے 14گھنٹے سونا چاہیے۔ برطانیہ کی ’واریک‘ یونیورسٹی کے ماہرین کی تیار کردہ تحقیق، سائنسی جریدے ’Sleep‘ میں شائع کی گئی ہے۔ خیال رہے کہ یہ تحقیق جنوری 2018ء میں امریکا میں کی گئی ایک تحقیق کا تسلسل ہے، جس میں نیند کی کمی اور موٹاپے کے درمیان تعلق کا انکشاف کیا گیا تھا۔ امریکی رپورٹ میں کہا گیا تھا کہ وقفے وقفے سے بچوں کا سونا ان کے کھانے پینے کی عادات تبدیل کرنے کے ساتھ ان کے وزن میں تبدیلی اور غیرمعمولی موٹاپے کا سبب بن سکتا ہے۔
گھر کا ماحول
اپنے گھر میں روزمرہ کے کھانے میں صحت بخش غذائیں مثلاً تازہ اور صاف پانی کی سبزیاں، پھل، اناج ، دالیں اور پروٹین شامل کیجیے۔ پروسیسڈ فوڈ، چینی والے مشروبات،fizzy drinks ، زیادہ نمک، نشاستہ، چینی، چکنائی والے کھانے اور فاسٹ فوڈ کا استعمال کم سے کم کردیں۔ اپنے بچوں کے ساتھ مل بیٹھ کر اچھے ماحول میں کھانا کھائیں۔ تحقیق سے یہ ثابت ہوا ہے کہ بچے اچھے ماحول میں پیش کیا گیا کھانا کھانا زیادہ پسند کرتے ہیں۔ کھانے کے دوران ٹی وی دیکھنے سے پرہیز کیجیے، یہ وقت اپنی فیملی اور بچوں کو دیجیے۔
بچوں سے کام کرائیں
بچوں سے گھر کے چھوٹے موٹے کام کرواتی رہیں۔ اس سے ان کے اندر احساس ذمہ داری بڑھے گا اور وہ متحرک بھی رہیں گے۔
خود سبزیاں اُگائیں
اپنے گھر میں خود ہی سبزیاں اُگائیں اور بچوں کو بھی اس میں مشغول رکھیں۔ اگر آپ کے پاس کوئی کھلا احاطہ نہیں ہے تو گملوں میں بھی سبزیاں اُگائی جاسکتی ہیں جبکہ چھت پر بھی باغبانی کی جاسکتی ہے۔ اس طرح نہ صرف آپ بچوں کو کوئی جسمانی سرگرمی دے سکتی ہیں بلکہ انہیں موٹاپے سے بھی بچاسکتی ہیں۔