• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
,

چاند کی ’’خاموشی‘‘ اور ’’تاریک پہلو‘‘ سے پردہ اُٹھنے کو ہے

صادقہ خان

یوں تو چاند ابتدائی ادوار سے ہی انسان کی دل چسپی کا مرکز رہا ہے اور قدیم زمانے سے اس کے متعلق طرح طرح کے قصے اور کہانیاں مشہور رہی ہیں ،مگر گزشتہ ایک صدی کے دوران بہتر ذرائع اور اعلیٰ ٹیکنالوجی کی بدولت چاند کو تسخیر کرنے کی کوششوں میں تیزی آتی گئی۔ اب تک چاند کی جانب جتنے بھی مشن بھیجے گئے ہیں وہ صرف اس کے سامنے والے حصے یا رخ تک ہی رسائی حاصل کرسکے ہیں ۔ اپولو الیون مشن میں نیل آرم اسٹرانگ نے بھی چاند کے اسی حصے پر پہلا قدم رکھ کر تاریخ رقم کی تھی ، مگر سائنس داں اب تک چاند کے دوسرے تاریک حصے سے ناواقف تھے۔

گزشتہ دو دہائیوں میں امریکا ، روس ، اور یورپین ایجنسی کے بعد ہمارا ہمسایہ ملک چین خلائی دوڑ میں ایک نیا امیدوار بن کر سامنے آیا ہے ۔ زمین کے گرد لو ارتھ آربٹ میں ’’ہیونلی پیلس‘‘ یا خلائی محل کے نام سے اپنا خلائی مرکز قائم کرنے کے علاوہ چین اب تک خلا میں کئی انسانی مشن بھی بھیج چکا ہے جن میں سے متعدد کو ناکامی کا سامنا بھی کرنا پڑا اور گزشتہ برس تکنیکی خرابیوں کے باعث چین کا خلائی مرکز بھی تباہ ہو کر زمین پر آگرا تھا،مگر ان تمام ناکامیوں کے باوجود بھی چین کے خلائی تسخیر میں عزائم اب تک بلند ہیں، جس کی ایک تازہ مثال چاند کے تاریک حصے کی جانب بھیجا گیا چین کا خلائی مشن ’’چانگ ای فور‘‘ ہے۔

تقریبا ًایک ماہ قبل دسمبر 2018 میں یہ مشن زمین سے چاند کی جانب بھیجا گیا تھا ۔جب 12 دسمبر کو یہ چاند کے مدار میں داخل ہوا تو اس کی کامیا بی کے امکانات زیادہ نہیں تھے، کیوں کہ چاند کے جس حصے کی جانب اس نے لینڈ کرنا تھا وہ زمین سے بہت زیادہ فاصلے پر ہے اور وہاں زمین سے آپریٹر کا اس خلائی گاڑی سے رابطہ ممکن نہیںہے۔اس مسئلے کو حل کرنے کے لیئے چینی سائنس دانوں نے ایک متبادل راستہ اختیار کیا اور چاند کے گرد گردش کرتے ہوئے ایک مصنو عی کمیونیکیشن سٹیلائٹ کے ذریعے اس خلائی گاڑی سے رابطہ رکھنے کا منصوبہ بنایا ہے۔ اگرچہ یہ ایک رسکی طریقۂ کار ہے، مگر چینی سائنس دانوںکے پاس اس کے علاوہ کوئی حل نہیں تھا۔

بہرحال ابتدائی خطرات سے با حفاظت نمٹتے ہوئے چانگ ای فور نامی خلائی گاڑی نے رواں ماہ کامیابی کے ساتھ چاند کی تاریک سطح میں واقع "وان کارمان کریٹر" پر لینڈ کیاہے۔ اس کریٹر کا نام امریکی خلائی انجینئر اور ریاضی دان’’ تھیوڈور وان کارمان ‘‘کے نام پر رکھا گیا تھا جو تقریباً 110 میل یا 186 کلومیٹر کے وسیع رقبے پر مشتمل ہے ۔ چاند کے جس حصے پر اس اسپیس کرافٹ نے لینڈ کیا ہے اسے ’’چاند کا جنوبی قطب یا ایشکن ‘‘کہا جاتا ہے۔ چانگ ای فور کے چاند کی تاریک سطح پر کامیابی سے لینڈ کر نے کے واقعے کو نیل آرم اسٹرانگ کے چاند پر پہلے قدم کی طرح ایک اہم سنگِ میل قرار دیا جا رہا ہے۔ اس اسپیس کرافٹ نے لینڈ کرنے کے ایک گھنٹے بعد زمین پر آپریٹر کو چاند کی سطح کی کچھ تصاویر بھی بھیجی جو کافی واضح تھیں ۔

چاند کی وہ سطح جو زمین سے بہت زیادہ فاصلے پر واقع ہونے کی وجہ سے اب تک انسان سے پوشیدہ ہے اسے فلکیات کی اصطلاح میں " کوائیٹ پلیس" یا خاموش مقام کہا جاتا ہے ،کیوں کہ یہ حصہ اب تک زمین سے پہنچنے والے سگنلز کی زد سے محفوظ ہے اور اس وجہ سے یہاں ریڈیائی لہروں کا شور بالکل بھی نہیں ہے۔ اسی لیے یہ حصہ سائنس دانوںکی خصوصی توجہ کا مرکز رہا ہے، کیوںکہ وہ سمجھتے ہیں کہ یہ جگہ ریڈیو ایسٹرانامی کے تجربات کے لیے بہترین ہے۔ اس مقصد کے لیے چانگ ای فور میں مخصوص اسپیکٹرو میٹرز نصب کیے گئے ہیں جو چاند پر ریڈیو ایسٹرانامی کے تجربات کے لیےاستعمال ہوں گے۔ اس کے علاوہ اس ا سپیس کرافٹ میں ایک خاص آلہ " ایڈوانسڈ انالائزر" بھی لگایا گیا ہے جو سورج سے چاند کی جانب آنے والی مخصوص شعاؤں کا تجزیہ کرے گا۔ ان شعاؤں کو سولر وائنڈز کہا جاتا ہے اور سائنس داں یہ معلوم کرنا چاہتے ہیں کہ چاند کی سطح پر ان سولر وائنڈز سے کون سی تبدیلیاں رونما ہوتی ہیں ۔ عام اندازے کے مطابق اسپیس کرافٹ میں نصب اس آلے اور متعدد کیمروں سے پہلا ڈیٹا 11 فروری تک زمین پر آپریٹر کو موصول ہوجائے گا۔ اس کے علاوہ اس مشن میں شامل اہم مقاصد میں چاند کی سطح پر تابکار ی کے اثرات معلوم کرنے کے لیےتجزیہ بھی شامل ہے، جس کے لیے اس ا سپیس کرافٹ اور روور میں مخصوص کیمرے اور آلات نصب کیے گئے ہیں۔

چوں کہ ابتدا میں اس مشن کی کامیا بی کے امکا نات محدود تھے اس لیے مشن بھیجتے وقت اس کے ابتدائی مقاصد کو زیادہ طول نہیں دیا گیاتھا،مگر ماہرین کے مطابق چاند کی اس تاریک اور گمنام سطح پر تلاش کرنے اور تسخیر کرنے کے لیےبہت کچھ ہے۔ سب سے پہلے تو جنوبی قطب یا ایشکن پر واقع جس کریٹر پراس اسپیس کرافٹ نے لینڈ کیا ہے وہاں چاند کی اندرونی سطح کا مواد یا مینٹل موجود ہے جو زمانۂ قدیم میں کسی فلکیاتی جسم سے ٹکراؤ یا شدید دھماکے کے باعث باہر آگیا ہوگا۔ اس مینٹل کا تجزیہ کر کے ماہرین یہ معلوم کرسکیں گے کہ چاند کی اندرونی سطح کیسی ہے اور اس میں کس طرح کے مادّے موجود ہیں ۔اس کے ساتھ ہی چاند کے بارے میں ایک پرانے سوال کا جواب بھی شاید ماہرین حاصل کر لیں کہ اس کی اوپر کی سطح یا کرسٹ اس قدر پتلی کیوں ہے۔

براؤن یو نیورسٹی سے تعلق رکھنے والے ماہرین جنہوں نے چانگ ای فور کی لانچنگ سے قبل اس کی لینڈنگ کی جگہ کا تجزیہ کیا تھا وہ کامیاب لینڈنگ کے بعد چاند کے اس مقام پر ریڈیو ایسٹرانامی کی ایک آبزرویٹری قائم کرنے کا خواب دیکھ رہے ہیں، کیوں کہ مکمل سکوت کے باعث یہ اس طرح کے تجربات کے لیے ایک آئیڈیل جگہ ہے۔ ان کے مطابق چین کے اس مشن کی کامیابی سے نا صرف ہمیں چاند کی سطح کو پورے طور پر سمجھنے میں مدد ملے گی بلکہ ناسا سمیت دیگر خلائی تحقیقاتی ادارے مستقبل میں بہتر منصوبہ بندی کے ساتھ چاند پر انسانی مشن بھی بھیج سکیں گے۔ بلکہ چاند کی تاریک سطح پر کیے جانے والے تجربات اور تجزیوں سے ماہرین کو نظام ِ شمسی کے دیگر سیاروں کو بھی سمجھنے میں مدد ملے گی۔اگرچہ ناسا مریخ کی جانب بھیجے جانے والے مشن کی مکمل منصوبہ بندی کر چکا ہے ،مگر ابھی تک کسی اور سیارے پر رہا ئش کا انسانی خواب تعبیر سے بہت دور ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ بہترین ٹیکنالوجی اور ذرائع میسر ہونے کے باوجود ہم ابھی تک اپنے نظام ِ شمسی یا اس سے باہر کوئی بھی ایسا سیارہ ڈھونڈنے میں کامیاب نہیں ہو سکے جہاں کا ماحول زمین کے مشابہہ یا زندگی کے لیےمواقف ہو، مگر چاند کی جانب بھیجے گئے چانگ ای فور مشن کے کامیابی سے لینڈ کر جانے بعد سائنس داں پر اُمید ہیں کہ وہ نظام ِ شمسی کے دوسرے سیاروں ، ان کی اندرونی سطح اور ماحول کو اب بہتر طور پر سمجھ سکیں گے۔

تازہ ترین
تازہ ترین