• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

اسلام کا نظام عفت وعصمت …سورہ نور کی روشنی میں

تحریر:حافظ عبدالاعلیٰ درانی…بریڈفورڈ
(گزشتہ سے پیوشتہ)
نوربھرے ایمان کی طرف دعوت
{آیت۴۱ - ۴۶} کیا تم نے نہیں دیکھا کہ اللہ کی تسبیح میں مشغول ہے آسمان و زمین کی ہر مخلوق اور پر پھیلائے اڑنے والے کل پرند۔ ہر ایک کی نماز اور تسبیح اسے معلوم ہے ‘اور یہ سب جو کچھ کرتے ہیں اس سے اللہ خوب واقف ہے(۴۱) زمین و آسمان کی بادشاہت اللہ ہی کی ہے اور سب کواللہ ہی کی طرف لوٹنا ہے(۴۲) کیا تم نے نہیں دیکھا کہ اللہ بادلوں کودھیرے دھیرے چلاتا ہے‘ پھر اس کے ٹکڑوں کو باہم جوڑتا ہے پھر انہیں تہ بہ تہ بادل کر دیتا ہے‘ پھر تم دیکھتے ہوکہ اس کے خول سے بارش کے قطرے ٹپکتے چلے آتے ہیں۔ وہی آسمان سے اولوں کے پہاڑ میں سے اولے برساتا ہے‘پھر جنہیں چاہے ان سے نقصان پہنچائے اور جسے چاہے ان سے بچالیتا ہے۔ بادلوں سے نکلنے والی بجلی کی چمک آنکھوں کو گویا چندھیا کردیتی ہے (۴۳) اللہ ہی دن اور رات کا ردوبدل وہی کرتا رہتا ہے ‘ آنکھوں والوں کے لیے تو اس میں یقیناً بڑی بڑی عبرتیں ہیں(۴۴) تمام کے تمام چلنے پھرنے والے جانداروں کو اللہ نے پانی سے پیدا کیا ہے۔ کچھ پیٹ کے بل رینگتے ہیں‘ کچھ دو ٹانگوں پر ‘ اور کچھ چار ٹانگوں پر چلتے ہیں‘اللہ جو چاہتا ہے پیدا کرتا ہے بیشک اللہ ہر چیز پر قادر ہے(۴۵) بے شک ہم نے روشن اور واضح آیات اتار ی ہیں اللہ جسے چاہے سیدھی راہ دکھا دیتا ہے(۴۶)ایمان و کفر کی حقیقت واضح کردینے کے بعد ایمان باللہ کی دعوت دی جارہی ہے۔ پہلے اللہ تعالیٰ کی ان صفات اور نشانیوں کی طرف توجہ دلائی جو شہادت دیتی ہیں کہ اس کائنات میں اس اللہ وحدہ لاشریک کا تصرف ہے ‘ کسی اور کا اس میں دخل و عمل نہیں ہے۔ استدلال کیلئے آفاق کے دلائل پیش کیے گئے ہیں کہ اس کائنات میں مصرف حقیقی ‘ صرف اللہ وحدہ لاشریک ہے۔ ہر چیز اسی کی حمد وتسبیح کرتی ہے! اس وجہ سے انسانوں کا بھی فرض ہے کہ اس خدائے وحدہ لاشریک پر ایمان لائیں‘ اس لئے ضروری ہے کہ عبادت و اطاعت میں کسی اور کو شریک کرکے اپنے آپ کو اس کے غضب کا مستحق نہ بنائیں!
یکسوئی کے ساتھ اللہ و رسول کی تابعداری کرو
{آیت۴۷-۵۴}منافق لوگ کہتے ہیں کہ ہم اللہ اور رسول پر ایمان لائے اوران کے فرماں بردار ہوئے‘ پھر ان میں سے ایک فرقہ اس کے بعد بھی مُکر جاتا ہے۔ کیونکہ یہ لوگ ہرگزایمان والے نہیں ہیں(۴۷) جب یہ اس بات کی طرف بلائے جاتے ہیں کہ اللہ اور اس کا رسول ان کے باہمی جھگڑے چکا دے تو بھی ان کی ایک فریق کترا جاتا ہے(۴۸) ہاں اگر حق انہی کا نکلنا ہوتا ہے ہو تو بڑے مطیع و فرماں بردار بن کر رسول کی طرف چلے آتے ہیں(۴۹) کیا ان کے دلوں میں بیماری ہے؟ یا یہ شک میں پڑے ہوئے ہیں؟ یا انہیں اس بات کا ڈر ہے کہ اللہ اور اس کا رسول ان کی حق تلفی کریں گے؟ بات یہ ہے کہ یہ لوگ خود ہی بڑے ظالم ہیں(۵۰) ایمان والوں کا قول تو یہ ہے کہ جب انہیں اس لیے بلایا جاتا ہے کہ اللہ اور اس کا رسول ان میں فیصلہ کر دے تو وہ کہتے ہیں کہ ہم نے سنا اور مان لیایہی لوگ کامیاب ہونے والے ہیں(۵۱) جو بھی اللہ اور اس کے رسول کی فرماں برداری کریں‘ اس کا خوف رکھیں اور اس کے عذاب سے ڈرتے رہیں‘ وہی نجات پانے والے ہیں(۵۲) بڑی پختگی کے ساتھ اللہ کی قسمیں کھا کھا کر کہتے ہیں کہ تمہارا حکم ہوتے ہی نکل کھڑے ہوں گے فرما دو! بس قسمیں نہ کھائو تمہاری اطاعت کی حقیقت معلوم ہے ‘ جو کچھ تم کر رہے ہو اللہ اس سے باخبر ہے(۵۳) فرما دو کہ اللہ کا حکم مانو‘ رسول اللہ کی اطاعت کرو‘ پھر بھی اگر تم نے روگردانی کی تو رسول کے ذمے تو صرف وہی ہے جو اس پر لازم کر دیا گیا ہے ‘ اور تم پر اس کی جوابدہی ہے جو تم کرو گے اور ان کا بوجھ انہی پر رکھا گیا ہے ہدایت تو تمہیں اسی وقت ملے گی جب اطاعت کرو گے۔ سنو ! رسول کے ذمے تو صرف صاف پہنچادینا ہے(۵۴)ٓان آیات میں خاص طو پرمنافقین کو تنبیہ کی گئی ہے کہ ان کی یہ منقسم وفاداری کی پالیسی چلنے والی نہیں ہے ‘ کہ اپنے مفاد کے حدتک تو وہ اللہ ورسول ؐ کا کلمہ پڑھیں اور اگر کوئی بات ان کو اپنے مفاد کے خلاف نظر آئے تو اللہ اور رسول ؐ کو چھوڑ کراپنی من مانی کریں۔اگر فوز وفلاح مطلوب ہے تو یکسوئی کے ساتھ رسولؐ کا ساتھ دیں ورنہ جس وادی میں بھٹکنا چاہتے ہیں اس میں بھٹکتے پھریں ‘ اللہ کو ان کی کوئی پرواہ نہیں ہے۔ اور یہ بھی یاد رکھیں کہ اصل چیز ایمان و طاعت ہے یَقُوْلُوْا سَمِعْنَا وَاَطَعْنَا… جھوٹی قسموں سے رسول ؐ کو جُل دینے کی کوشش نہ کریں۔ رسول کا کام اللہ کے دین کو پہنچادیناتھا‘ وہ اس نے پہنچادیا ۔ اب لوگوں کی ذمہ داری ہے۔ ہر شخص اپنے اپنے انجام کو اچھی طرح سوچ لے۔
خلافت ارضی کا وعدہ ربانی
{آیت۵۵ -۵۷} اللہ نے وعدہ فرمایا ہے تم میں سے ان لوگوں کے ساتھ جو مومن ہوئے ‘ اور نیک اعمال کئے ‘ کہ انہیں ضرور زمین میں خلیفہ بنائے گا جس طرح ان سے پہلے لوگوں کو خلیفہ بنایا تھا۔ اور یقیناًان کے لیے ان کے اس دین کو مضبوطی بنیادوں پر قائم کردے گا جسے ان کے حق میں وہ پسند فرماچکا ہے۔ اور ان کے خوف و خطر کو وہ امن و امان سے بدل دے گا‘بس وہ میری عبادت کریں ‘ میرے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہرائیں ۔ اور اس کے بعد جو کفر کرے توایسے لوگ فاسق ہیں(۵۵) نماز کی پابندی کرو‘ زکٰوۃ ادا کرو اور اللہ کے رسول کی فرمانبرداری میں لگے رہو تاکہ تم پر رحم کیا جائے (۵۶) ہرگز کافر یہ نہ سمجھیں کہ وہ ہمارے قابو سے نکل جائیں گے ۔ ان کا ٹھکانا جہنم ہے جو یقیناً بہت ہی برا ٹھکانا ہے(۵۷) رسول اللہ ﷺ کے راست باز ساتھیوں کو نہایت واضح الفاظ میں خلافت ارضی عطا کئے جانے کی بشارت کہ تمہارے مخالفین اور دین کے اعداء تمہارا یا تمھارے دین کا کچھ نہ بگاڑ سکیں گے۔ تمھیں خلافت ملے گی ‘ جس طرح پہلے لوگوں کو دی جاتی رہی ہے۔ ‘ تم نماز کا اہتمام رکھو‘ زکوٰۃ ادا کرتے رہو۔ پوری دلجمعی کے ساتھ رسول کی اطاعت پر جمے رہو اور جلد وہ وقت آنے والاہے کہ اللہ تعالیٰ اس خوف کی حالت کو امن و اطمینان سے بدل دے گا۔ اس ارشاد سے مقصود منافقین کو متنبہ کرنا ہے کہ اللہ نے مسلمانوں کو خلافت عطا فرمانے کا جو وعدہ کیا اس کے مخاطب وہ صادق الایمان مسلمان ہیں جن کے اخلاق و اعمال صالح ہوں ‘ اللہ کے پسندیدہ دین کا اتباع کرنے والے ہوں اور ہر طرح کے شرک سے پاک ہوکر خالص اللہ کی بندگی وغلامی کے پابند ہوں۔ ان صفات سے عاری اور محض زبان سے ایمان کے مدعی لوگ نہ اس وعدے کے اہل ہیں اور نہ اس کے مصداق‘ لہٰذاوہ اس میں حصہ دار ہونے کی توقع نہ رکھیں۔
تازہ ترین