• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

بینا صدیقی

گھر میں بہت خوب صورت، نفیس اور قیمتی پیالیوں کا سیٹ تھا،جو برتنوں کی الماری میں سجا ہوا تھا۔ان پیالیوں کو ڈیکوریشن پیس کی حیثیت حاصل ہوگئی تھی۔ اسی بات پہ چائے کی پیالی روٹھی بیٹھی تھی۔اب توجو بھی مہمان آتا، موٹے بھدے دھندلے شیشوں والے ناٹے قد کے گلاسوں کی مراد بر آتی۔ انہیں شو کیس سے نکال کر ان میں کالی یا سفید کولڈ ڈرنک انڈیل کر مہمانوں کے سامنے دھکیل دی جاتی۔چائے کی پیالی کو شکوہ تھا کہ وہ بیش قیمت اور نفیس ہونے کے باوجود بے کار تھی۔ اور بھونڈے سستے گلاس کارآمد تھے کہ مہمانوں کے سامنے خاطر داری کا بھرم رکھنے کو وہی پیش کیے جاتے تھے۔ وجہ صرف یہ ہےکہ ہمارے ہاں خاطر داری کے آداب بدل گئے ہیں۔

لوگ اب خاطر داری میں بھی ’’سہل پسندی‘‘ کو اولین ترجیح دینے لگے ہیں۔ چاہتے ہیں کہ مہمانوں کی آمد پر کم سےکم محنت اورخرچہ ہو۔ چائے بنانے کے عمل کو اب ایک مشکل کام سمجھا جانے لگا ہے جس میں جھنجھٹ کولڈ ڈرنک سے زیادہ ہے۔

ماضی میں مہمان داری کا انداز ہی نرالا تھا۔ مہمانوں کی آمد پر ہاتھ سے بنی گھر کی اشیا سے ان کی تواضع کی جاتی تھی۔مثلاََ گھر کے بنے چھولے، دہی بڑے، کباب بناکر، چھولےاُبال کرفریزر میں رکھ دیتی تھیں کہ اچانک آنےوالے مہمان بھی خاطر داری سے محروم نہ رہ جائیں۔

رفتہ رفتہ وقت اور اخلاق میں بتدریج کمی ہوتی گئی اور مہمانوں کی تواضع کے لیے گھر کی بنی اشیا کے بجائے بازاری سموسوں، نمک پاروں اور نمکو مٹھائی نے لے لی۔یوںتواضع اور خاطر مدارات کے معیار بالکل ہی نیچے جاگرتےگئے۔اب توبہت سے گھروں میں چائے بنانا ہی کاردارد سمجھا جانے لگا ہے۔ چائے کا پانی رکھنا، پھر پتی، چینی، دودھ ملانا، تین تین چیزوں کا خرچہ۔ لمبا جھنجھٹ الگ۔ کسی کو تیز کڑک چائے پسند تو کوئی میٹھی اور دودھ پتی قسم کا شوقین، کسی نے چینی مزیدڈالنے کےلیے پیالی واپس کی تو کسی نے دودھ مزید ڈالنے کی فرمائش کر ڈالی، کسی نے چائے کو ٹھنڈا کر کےلانے کا کہا تو کسی نے گرم کی ضرورت محسوس کی،ان جھنجھٹوں سے بچنے کا سہل طریقہ یہ تلاش کیا گیا کہ سرے سے چائے ہی گول کردی جائے۔

اگرچہ اب بھی بہت سے گھروں میں مہمانوں کی عمدہ خاطر تواضع کی جاتی ہے لیکن ایسے گھرانوں کی بھی کمی نہیں جہاں مہمانوں سے ’’چائے یا ٹھنڈا‘‘ پوچھنے کا سوال ہی متروک ہوگیا۔ اب مہمانوں کی مرضی اور شوق کو قطعاً نظر انداز کرتے ہوئے میزبان اپنی سہولت دیکھتاہے۔

کولڈ ڈرنک کم خرچ بالانشیں ہونے کے ساتھ ساتھ ایک فائدہ اپنے ساتھ اور لائی کہ اس کے ساتھ کسی قسم کے لوازمات پیش کرنے کی ضرورت نہ رہی۔کولڈ ڈرنک کا ایک چھوٹا موٹا گلاس ہی تواضع کے سارے تقاضے نبھانے کو کافی سمجھا جانے لگا ہے۔نہ جانے کولڈ ڈرنک کے ساتھ بسکٹ، نمکو جیسے لوازمات پیش کرنا بدمذاقی سمجھا گیا یا جرم، بہرحال کولڈ ڈرنک ہر لحاظ سے تواضع کے لیے موزوں سمجھی جانے لگی، گرچہ جو مہمان کولڈ ڈرنک کے شوقین یا ساتھ میں بچے وغیرہ ہوں تو اُنہیں کولڈ ڈرنک پیش کرنا صحیح ہے لیکن جن مہمانوں کے بارے میں آپ کو علم ہو کہ وہ چائے کے شوقین ہیں، انہیں پوچھے بغیر کولڈ ڈرنک تھما دینا غلط ہے۔

مہمان نوازی کے پیمانے کب، کہاں اور کیسے بدلے گئے، اس کا تو سراغ نہیں ملتا،البتہ صرف ’’کیوں‘‘ کا جواب ملتا ہے ،وہ یہ کہ وقت کی کمی اور اخلاق میں فقدان کے ساتھ کولڈ ڈرنک نے گھروں کا راستہ دیکھ لیا۔کولڈ ڈرنک کے ساتھ ایک یہ غلط فہمی بھی نتھی ہوچکی ہے کہ اسے پیش کرنے سے پہلے مہمان سے پوچھنا ضروری نہیں ہے، جبکہ بعض جگہ ایسی صورت حال بھی ہوتی ہے کہ بغیر پوچھے کولڈ ڈرنک تھما دینا مہمانوں کے لیے خاصا تکلیف دہ تجربہ ثابت ہوتا ہے۔ مثال کے طور پر مہمان اگر ذیابیطس (شوگر) کا مریض ہو تو وہ میٹھی کولڈ ڈرنک نہیں پی سکتایا السر کا مریض ہے اور خالی پیٹ گیس والی کولڈ ڈرنک ہضم نہیں کرسکتایا پھر نزلے، زکام، گلے کے درد کا شکار رہے تو ٹھنڈی کولڈ ڈرنک اس کا مسئلہ مزید بگاڑ سکتی ہے۔ بزرگ مہمانوں کے لیے کولڈ ڈرنک دانتوں کی تکلیف کا باعث بن سکتا ہے۔ ان تمام باتوں پر غور سے پتہ چلتا ہے کہ ہمارے معاشرے میں خاطر تواضع کے لیے کولڈ ڈرنک کا رواج دراصل سہل پسندی کا نتیجہ ہے اور اگر چائے کی پیالی روٹھی ہےتو اس کی ناراضی بجا ہے۔

عرض یہ ہے کہ کولڈ ڈرنک سے مہمانوں کی تواضع ضرور کیجیے مگر ان سے پوچھ کر، صرف ان مہمانوں کو جو شوق سے کولڈ ڈرنک پیتے ہیں، جو مہمان چائے کا شوقین ہیں اور جب آپ ان کے گھر جاتے ہیں تو خاتون خانہ بڑی محنت سے چائے ہی بنا کے پلاتی ہیں تو اُن کی آمد پر آپ کا بھی فرض ہے کہ ان کے لیے چائے بنانے کی زحمت ضرور کیجیے۔ مہمان خدا کی رحمت ہوتے ہیں ، جن کے لیے اتنی تکلیف اٹھانے میں کوئی مضائقہ نہیں۔ اور یوں چائے کی پیالی کی ناراضی بھی دور ہوسکے گی۔

تازہ ترین