• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

کراچی کے بارے میں ماہر ارضیات کی رائے ہے کہ زمانہ قدیم میں یہ قدیم ترین قوموں کی آماجگاہ رہا ہے اور اس خطے سے قوموں کے قافلے گزرتے رہے ہیں۔ چار سو سال قبل مسیح میں یونان کے عظیم فاتح سکندر اعظم نے منوڑہ کے جزیرے پر قیام کرتے ہوئے بیسولینا پر حملے کے لیے اپنا بڑا بحری بیڑہ تیار کیا تھا۔ پھر712ء میں محمد بن قاسم نے سندھ فتح کر لیا، بعدازاں اٹھارہویں صدی تک اس تمام خطے میں ترک، افغان، مغل پھر کلہوڑو خاندان، تالپور خاندان حکمراں رہے اور 1839ء میں انگریزوں نے یہاں اپنی حکومت قائم کی۔ تب سے کراچی ، جو’’ کولاچی ‘‘کہلا تا تھا، یہاں بلوچ مچھیروں کی بستی آباد تھی، انگریز راج میں اس خطے کی اہم بندرگاہ اور ایک چھوٹا خوب صورت شہر بن کر اُبھرا۔ بلاشبہ انگریزوں نے اپنی ضروریات کے تحت اس چھوٹے علاقے کو ترقی اور روشنی سے ہم کنار کیا، بیسویں صدی کے اوائل میں جس کی آبادی دو، ڈھائی لاکھ افراد پر مشتمل تھی،وہاںدو درجن سے زائد خوب صورت اور مضبوط عمارتیں تعمیر کیں، جن میں فریئر ہال، کراچی پورٹ، بندرگاہ روڈ، ایمپریس مارکیٹ، میونسپل بلڈنگ، کینٹ اسٹیشن، میری ویدر ٹاور، اسمبلی بلڈنگ، سندھ ہائی کورٹ، ڈینسو ہال، کراچی پریس کلب بلڈنگ، خالق دینا ہال، مورس والا بلڈنگ، لوٹیا بلڈنگ، لیڈی ڈفرن اسپتال، گورنر ہائوس، موہتہ پیلس، سینٹ پال چرچ، سینٹ پیٹرک چرچ، منوڑہ پیلس، چیمبر آف کامرس بلڈنگ، ڈی جے کالج، سندھ مدرستہ الاسلام اور جیم خانہ وغیرہ شامل ہیں۔ مذکورہ عمارتوں کی تعمیر میں انگریز حکمرانوں کے علاوہ پارسی اور ہندو کمیونٹی نے اہم کردارادا کیا۔ بیسویں صدی کے وسط تک یہاں ہندو، پارسی، انگریز، گوئن، گوا ،کے تارکین وطن اور مسلم کمیونٹی کے افراد کی تعداد چار لاکھ تک پہنچ چکی تھی ، کراچی ایک خوب صورت، صاف ستھرا، پُرامن تجارتی مرکز بن چکا تھا، جہاں سے انگریزی اخبارات نیو ٹائمز، سندھ آبزرور، ڈیلی گزٹ سمیت ایک سندھی اخباراور سنا سماچار شائع ہوتے۔ یہاں مسلمانوں کی تعداد بہت کم تھی، تاہم اسکول، کالج، اسپتال، پارکس اور دیگر تفریحی مقامات نمایاں تھے، یہاں انگریزوں کے علاوہ پارسی اور ہندو کمیونٹی بہت فعال تھی۔

ایک دَور میں انگریزوں نے سندھ کو بمبئی کے ساتھ ملا دیا تھا، مگر بمبئی کے لوگ اس کو ناپسند کرتے تھے ، کیوں کہ اُس وقت سندھ سے آمدنی کم اور خرچ زیادہ ہو رہا تھا۔ تب انگریزوں نے سندھ کو علیحدہ صوبہ بنا کر اسے بمبئی سے علیحدہ کر دیا۔ اُس وقت ہِزہائنیس آغا خان نے انگریزوں کو اپنی خدمات اور خطیر رقم کے عوض اس صوبے کو خریدنے کی پیش کش بھی کی تھی ،مگر اکثریت اس سودے کے خلاف تھی، جس کی وجہ سے یہ تجویز مسترد کر دی گئی۔

کراچی کی تاریخ کا جدید ترین دور قیام پاکستان کے بعد شروع ہوا۔ 1947ء میں اِس کی آبادی تقریباًچار لاکھ تھی، جو 1951ء میں بیس لاکھ سے تجاوز کر گئی، جب کہ 1961ء تک آبادی تقریباً تیس لاکھ ہوگئی تھی ۔ تقسیم ہند کے نتیجے میں ہندوستان کے مختلف علاقوں سے ہجرت کرنے والوں نے زیادہ تر کراچی کو اپنا مسکن بنایا، اُس دور میں یہ شہرآبادی کے لحاظ سے ہی نہیں بلکہ اپنی صنعتی ترقی کی وجہ سے بھی نمایاں تھا۔ 1947ء میں کراچی میں چالیس صنعتی کارخانے تھے، جو ساٹھ کی دَہائی میں بڑھ کر تین ہزار سے زائد ہو گئے تھے۔کراچی سندھ کے بہ جائے وفاق کا حصہ تھا، تاہم1954ء میں سندھ اسمبلی نے کراچی کو سندھ سے ملانے کا مطالبہ کیا ،مگر وفاق اور صوبۂ سندھ میں حکومتوں کی بار بار تبدیلی، علاقائی سازشیں اور افسر شاہی کی سیاست میں مداخلت نے پورے ملک میں سیاسی ہلچل مچائی ہوئی تھی ،جس کو جواز بنا کر 1958ء میں جنرل محمد ایوب خان نے حکومت برطرف کر کے ملک میں مارشل لاء نافذ کر دیا، بعدازاں 1960ء میں کراچی کے بہ جائے اسلام آباد کو دارالخلافہ بنانے کا اعلان کیا گیا،جس کی وجہ سے کراچی کے عوام کو خاصی مایوسی کا سامنا کرنا پڑا۔اس طرح روشنیوں کے شہر، کو وفاق سے علیحدہ کرکے سندھ کا دارالخلافہ بنا دیا گیا۔اس کے باوجوداس شہر کی ترقی اور آبادی میں کمی نہیں آئی، اس میںبتدریج اضافہ ہوتا رہا، مگر ستّر کی دَہائی میں صنعتوں کو قومی ملکیت میں لینے کے فیصلے کے بعد کراچی کی صنعتی ترقی کا پہیہ لگ بھگ جام ہو گیا، مگر سیاسی، انتظامی، سماجی اور دیگر مسائل کے باوجود یہ شہر تاحال ملک کو سب سے زیادہ ریونیو دیتا ہے۔

1998ء کی مردم شماری کے مطابق کراچی کی آبادی ڈیڑھ کروڑ بتائی گئی تھی، مگر انیس سال بعد2017ء کی مردم شماری میں کراچی کی آبادی ایک کروڑ چالیس لاکھ دکھائی گئی ہے، جب کہ غیر سرکاری اعدادوشمار کے مطابق اس شہر کی آبادی دو کروڑ سے تجاوز کر چکی ہے ،جس کا ایک ثبوت کچی آبادیوں میں بے ہنگم اضافہ، سڑکوں پر عوام کا اژدھام اور آبادی میں اضافے کے دیگر مسائل ہیں، جس کی وجہ سے بلاشبہ یہ مسائل کا شہر بن کر رہ گیا ہےاور آبادی میں بتدریج اضافے کی وجہ سے روزگار کی جدوجہد میں مصروف افراد نے شہر کی فٹ پاتھوں پر اپنی دکانیں سجا لیں، ٹھیلوں نے سڑکوں کے کنارے جگہ بنا لی اور اس سے بھی زیادہ ستم یہ ہوا کہ آہستہ آہستہ کراچی کے پارکس، فلاحی پلاٹ اور سرکاری اداروں کی زمینوں تک پر ناجائز قبضہ، غیرقانونی تعمیرات اور لینڈ مافیا کی زور زبردستی نے اس شہر کا حلیہ بگاڑ کر رکھ دیا۔ کچھ علاقوں کو دیکھ کر تو یہ گمان ہوتا تھا، گویا شہر نہیںبلکہ گنجان آباد گائوں ہے۔ ان حالات میں سپریم کورٹ آف پاکستان نے قدم بڑھایا اورسابق چیف جسٹس ثاقب نثار نے پورے ملک سے بالخصوص کراچی شہر سے تجاوزات ختم کرنے کا حکم نامہ بھی جاری کیا۔ 16 اور30نومبر2017ء ، پھر3فروری2018ء کو اعلامیے جاری کیےگئے، جن کی رُو سے فلاحی پلاٹوں، ناجائز تعمیرات، پبلک پارکس اور فٹ پاتھوں سے تجاوزات ہٹانے کا کام شروع ہوا، اس میں کراچی میونسپل کارپوریشن، کے ڈی اے اور میئر کراچی وسیم اختر ایکشن میں نظر آئے اور دو ہفتوں میں صدر، ایمپریس مارکیٹ ، برنس روڈ، لائٹ ہائوس ، لیاقت آباد، ملیر جعفر طیار، کے ایم سی مارکیٹ، رینبو سینٹر کے اطراف کی دُکانیں، گلشن اقبال، نیپا چورنگی ، جوڑیا بازار، بولٹن مارکیٹ کے اطراف قائم تجاوزات مسمار کر دی گئی ہیں۔ کچھ عرصہ قبل ، ایک مسئلہ مارٹن کوارٹرز کا اُٹھا، ان میں تقریباً چالیس ، پچاس برسوں سے رہنے والے افراد جن کے پاس قانونی دستاویزات بھی موجود تھیں، ان کے علاقوں میں بھی توڑ پھوڑ کا سلسلہ شروع کیا گیا۔دوسری جانب لیاری ٹائون شپ میں بھی تجاوزات اور غیرقانونی تعمیرات کو مسمار کرنے کا عندیہ دیا گیا ، جب کہ ملیر ڈیولپمنٹ اتھارٹی کے علاقوں میں ایسا کوئی قدم نہیں اٹھایا گیا ۔ اس تمام داستانِ اَلم میں سب سے بڑا سوال یہ ہے کہ حکومت کی جانب سے اس توڑ پھوڑ سے قبل بے گھر اور بے روزگار ہونے والوں کو کوئی متبادل جگہ فراہم نہیں کی گئی، اگر متبادل جگہ دست یاب نہیں تھی، تو پھر اس یک طرفہ کارروائی کو کیا عنوان دیا جائے۔تجاوزات، دُکانوں اور فٹ پاتھوں پر قائم پتھاروں کو ہٹانے پرکچھ افراد کو،بے گھر و بے روزگار ہونے والوں سے ہم دردی ہے ،مگر دوسری طرف عوام کی ایک نمایاں تعداد اس قدم کو مثبت قرار دے رہی ہے ،کیوں کہ ان کی وجہ سے فٹ پاتھ پر چلنا اور سڑکوں سے گزرنا بہت مشکل ہوتا ، شہر بھی بے ہنگم دِکھائی دیتا تھا۔

لیکن یہاں ایک سوال یہ بھی اُٹھتا ہے کہ پبلک پارکس، فلاحی پلاٹوں اور سرکاری زمینوں پر قبضہ کرنے والے، غیرقانونی تعمیرات کرانے والے اور لینڈ مافیا کے ہرکارے جب اپنا کام شروع کرتے ہیں، تو متعلقہ ادارے اور علاقے کی پولیس کہاں ہوتی ہے؟ برسوں بعد کس طرح ذمے داران کو پکڑا جائے گا؟ برس ہا برس سے ،اربوں ،کھربوں روپے کی زمینوں پر جعلی دستاویزات تیار کر کے تعمیرات کا سلسلہ جاری ہے، اس کوتاہی اور فرائض سے نظر چرانے کا ذمے دار کون ہے؟یہ اس امر کی بھی نشان دَہی کرتا ہے کہ کراچی میں لینڈ مافیا بہت منظم ہے۔ اب جب کہ کراچی میں اتنے بڑے پیمانے پر عمارتوں، دکانوں، شادی ہالوں اور دیگر تجاوزات کے واقعات سامنے آئے ہیں، تو دیکھنا یہ ہے کہ متعلقہ ادارے ،کوتاہی ، غفلت یا بدعنوانی کی ذمہ داری کس پر عائد کرتے ہیں۔

کراچی ڈیولپمنٹ اتھارٹی1957ء میں قائم کی گئی تھی، اس سے قبل کراچی امپروومنٹ ٹرسٹ (کے آئی ٹی) کے نام سے ایک ادارہ کام کر رہا تھا، جس کو 1957ء میں ختم کر دیا گیا۔ کے ڈی اے کو ماسٹر پلان کے تحت ترقیاتی کام کو آگے بڑھانے اور کراچی کی زمینیں رئیل اسٹیٹ والوں کو فروخت کرنے کی ذمے داری سونپی گئی تھی۔اس نے سب سے پہلے اسکیم ون، جو اسٹیڈیم کے قریب ہے، تیار کی، اس کے بعد اسکیم ون اے، دھوراجی سوسائٹی بنائی،پھرکے ڈی اے کو شہر کو وسیع کرنے کی اجازت دے دی گئی جس کے بعد اس ادارے نے کورنگی ٹائون شپ، ڈرگ کالونی ٹائون شپ، ملیر ٹائون شپ، ملیر توسیع ٹائون شپ، نارتھ کراچی، ناظم آباد، نارتھ ناظم آباد، اورنگی ٹائون شپ، بلدیہ ٹائون شپ، لیاری ٹائون، ہاکس بے اسکیم، شاہ لطیف ٹائون، مہران ٹائون، لانڈھی انڈسٹریل ایریا، لانڈھی رہائشی اسکیم، میٹروول ون سے تھری تک، گلزار ہجری، گلشن اقبال، گلستان جوہر، تیسر ٹائون، کورنگی انڈسٹریل ایریا اور سائٹ میٹرول اسکیمیں تیار کی تھیں۔ کے ڈی اے نے مزید نجی ہائوسنگ اسکیم کراچی میں تعمیر کرنے کی اجازت دی۔ 1993ء میں حکومت سندھ نے ملیر ڈیولپمنٹ اتھارٹی قائم کر دی، اس کا مقصد یہ بتایا گیا، ایم ڈی اے ان علاقوں کو ترقی دے گی، جن کو ماضی میں نظرانداز کیا گیا تھا۔ اس نے سپرہائی وے کی دو جانب کی زمینوں پر ہائوسنگ اسکیمیں تیار کیں اور کراچی کو مزید وسعت دی۔ شاہ لطیف ٹائون شپ اور تیسر ٹائون شپ بھی ملیر ڈیولپمنٹ اتھارٹی کے تحت کام کر رہی ہے۔ ان علاقوں کو ایم ڈی اے نے نیا روپ دیا اور رہائشی اسکیموں کے علاوہ کمرشل اسکیمیں بھی تیار کیں۔ اس حوالے سے ملیر ٹائون شپ وسیع ہوتی جا رہی ہے اور نئی نئی عمارتیں ابھر رہی ہیں۔علاوہ ازیں سپریم کورٹ نے کراچی میں کنٹونمنٹ کے علاقوں میں بنی غیرقانونی تعمیرات اور تجاوزات کو بھی مسمار کرنے کا حکم جاری کیا۔ میئر وسیم اختر کا اس ضمن میں یہ استدلال یہ ہے کہ ان تجاوزات کے خاتمے کی ذمے داری کے ایم سی یا کے ڈی اے کی نہیں بلکہ کنٹونمنٹ بورڈ کی ہے۔تاحال کراچی میں غیرقانونی تعمیرات اور تجاوزات کی وجہ سے ایک محتاط جائزے کے مطابق ایک لاکھ سے زائد دُکانیں ، پتھارے یا رہائشی یونٹوں کو مسمار کرنے کے نتیجے میں ہزاروں بے گھر اور لاکھوں افراد بے روزگار ہو چکے ہیں ،جس کی وجہ سے متاثرہ حلقوں کے عوام میں غم و غصہ پایا جاتا ہے۔ دوسری جانب اس صورت حال کے پیش نظر یہ خدشات بھی ظاہر کیےجا رہے ہیں ،کہ یہاں جرائم کی شرح میں بھی اضافہ ہو سکتا ہے۔ بے روز گار، محنت کش افراد شدید مایوسی و افرا تفری کا شکار ہیں۔یہ سب کچھ ناقص منصوبہ بندی، افسر شاہی اور متعلقہ محکموں کی نااہلی کا نتیجہ ہے۔سندھ کی صوبائی حکومت اس تمام معاملے میں چپ سادھے بیٹھی ہے۔ منتخب نمائندے،جو کراچی سے منتخب ہوئے ہیں، ان کو بھی جیسے سانپ سونگھ گیا ہے۔ یہ درست ہے کہ شہر کو تجاوزات سے پاک کرنا ضروری تھا،مگر اس کا متبادل بھی پہلے سے طے کر نا بھی ضروری تھا۔ لگتا ہے کسی کے پاس کوئی ٹھوس منصوبہ بندی نہیں ہے۔ دوسرے لفظوں میں حکومت اور متعلقہ ادارے ایک دوسرے کا منہ دیکھ رہے ہیں۔

تازہ ترین