• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

آئینِ پاکستان‘ جو گزرے ہوئے برسوں میں کئی ایک ترامیم دیکھ چکا ہے، اب ایک وفاقی دستاویز ہے۔ یہ آئین ایسی ذمہ داریاں اور اختیارات صوبوں کے سپرد کرتا ہے جنہیں معقول اور موثر طریقے سے صوبائی سطح پر ہی سرانجام دیا جا سکتا ہے۔ کرنسی، خارجہ پالیسی، مسلح افواج اور ادویات کا یکساں قومی معیار طے کرنا جیسے معاملات صوبوں کے دائرۂ کار سے باہر ہیں۔ یہ امور وفاقی حکومت کی ذمہ داری میں آتے ہیں۔ اختیارات کے وفاقی سطح سے صوبائی سطح تک منتقل ہونے کا فطری تقاضا ہے کہ اب صوبائی حکومتیں اختیارات نچلی سطح پر بھی منتقل کریں۔ اختیارات کی مقامی حکومتوں تک منتقلی ہی جمہوریت کی اصل روح ہے۔

ایڈم اسمتھ کی شہرہ آفاق تصنیف ’’ویلتھ آف نیشنز‘‘ کے بعد ماہرینِ معاشیات سمجھ چکے ہیں کہ اشیائے ضروریہ اور خدمات فراہم کرنے والا نجی شعبہ زیادہ منافع کمانے کی کوشش میں نجی شعبے میں کام کرنے والے دیگر حریفوں کو نرخوں اور معیار میں مات دینے کی کوشش کرے گا۔ اس کے نتیجے میں صارفین کو زیادہ سے زیادہ فائدہ پہنچے گا۔ ایک صورت یہ بھی ہو سکتی ہے کہ جب اسپلائرز کے پاس اجارہ داری ہو، اور وہ معیار بڑھانے یا قیمتیں کم کرنے کی ضرورت محسوس نہ کریں۔ یہی وجہ ہے کہ صنعتوں کیلئے اسپلائرز، جیسا کہ برقی رو کی فراہمی، کی قیمتوں کا فیصلہ کرنے کیلئے حکومت ریگولیٹرز مقرر کرتی ہے کیونکہ یہاں اسپلائرز کی تعداد محدود ہونے کی وجہ سے مسابقت نہیں ہوتی۔ اسی طرح جب یہ خدشہ محسوس ہوتا ہے کہ اسپلائرز ایک کارٹل بناتے ہوئے اہم اشیا کی قیمتوں کو کنٹرول کرنے کی پوزیشن میں آ جائیں گے تو وہاں بھی ریگولیٹرز مقرر کیے جاتے ہیں لیکن مسابقت کی مارکیٹ میں کام کرنے والی صنعتوں پر ریگولیٹرز کی ضرورت نہیں ہوتی کیونکہ مسابقت کی وجہ سے صارفین کے مفاد کو نقصان نہیں پہنچایا جا سکتا۔

لیکن حکومت کی طرف سے سروسز کی فراہمی پر یہ قانون لاگو نہیں ہوتا۔ اس بات کی جانچ کرنے اور یقینی بنانے کا کوئی نظام نہیں کہ حکومت محصولات کو ایک حد تک رکھتے ہوئے سروسز کو بہتر بنا رہی ہے۔ اس ضمن میں کوئی مسابقت نہیں ہوتی، اس لیے عوام کے پاس کوئی اور آپشن بھی نہیں ہوتی۔ اگرچہ مخصوص مدت کے بعد ہونے والے انتخابات کے ذریعے عوام سروسز کو بہتر بنانے کیلئے دبائو ڈال سکتے ہیں لیکن تھیوری کے اعتبار سے یا عملی طور پر اس بات کی کوئی ضمانت نہیں کہ حکومتیں شہریوں کی فلاح کیلئے ہر ممکن کوشش کر رہی ہیں۔ لیکن اگر حکومتیں چھوٹے چھوٹے علاقائی یونٹس پر مشتمل ہوں تو اُن کا ٹیکس ادا کرنے والے شہریوں سے براہ راست واسطہ پڑتا ہے، اور یہاں اعتماد جیتنے کیلئے دیگر دھڑوں سے مقابلہ کرنا پڑتا ہے۔ چنانچہ یہاں امید کی جا سکتی ہے کہ مقامی حکومتیں کم ٹیکس عائد کرتے ہوئے عوام کی خواہشات کے مطابق سہولتیں فراہم کرنے کی کوشش کریں گی۔ گویا چھوٹے حکومتی یونٹس کے درمیان مسابقت شہریوں کی فلاح کا باعث بنتی ہے۔

ہماری مختصر سی تاریخ میں ہم نے مقامی حکومتوں کے چند ایک نظاموں کا تجربہ کیا ہے۔ 1960ء کی دہائی میں ہم نے بنیادی جمہوریت اور ون یونٹ کا تجربہ کیا لیکن ایسا کرتے ہوئے بنگالی شہریوں کی مایوسی اور بے چینی کو نظر انداز کر دیا۔ 1971ء میں ہم نے اس کوتاہی کا خمیازہ بھگتا۔ اس کے بعد 1973ء کا آئین بنایا، جو ہماری آبادی کے تمام دھڑوں کی خواہشات کی عکاسی کرتا تھا چونکہ اُس وقت وفاقی یونٹس تیار نہیں تھے، اس لیے 1973ء کا آئین اُن ذمہ داریوں کا تعین کرتا ہے، جو آنے والے دس برسوں کے دوران صوبوں کو منتقل کی جانی تھیں۔

دس بلکہ 37برس گزر گئے، یہاں تک کہ 2010 ء میں اٹھارہویں ترمیم نے اُن ذمہ داریوں کا مسئلہ طے کرتے ہوئے وہ معلق فہرست منسوخ کر دی اور پاکستان حقیقی معنوں میں ایک وفاقی ریاست بن گیا۔ اس کے باوجود ملک میں‘ خاص طور پر چھوٹے صوبوں میں کسی قدر بے چینی پائی جاتی ہے۔ یہ خدشہ ہر وقت موجود رہتا ہے کہ ہمارے دشمن اس سے فائدہ اٹھانے کی کوشش کریں گے۔ چنانچہ ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم نچلی سطح پر مزید اختیارات منتقل کرتے جائیں، یہاں تک کہ تمام ملک ایک مرکزی قومی دھارے میں شامل ہو جائے۔ یہ عمل اس بات کو یقینی بنائے کہ ملک میں کوئی فرد بیگانگی اور تفریق محسوس نہیں کر رہا۔ سب کو احساس ہو کہ وہ اختیار رکھتے ہیں اور یہ ریاست اُن کی ہے۔

اس سے پہلے میں نے ان صفحات پر ساتویں این ایف سی ایوارڈ کا ذکر کیا۔ اس ایوارڈ کے تحت وفاق سے صوبوں کو بہت زیادہ رقم منتقل ہوئی۔ اس سے نہ صرف وفاق کی مالی حالت کمزور ہوئی بلکہ صوبوں کو بھی اپنے محصولات جمع کرنے میں دلچسپی نہ رہی۔ اٹھارہویں ترمیم یہ بات طے کرتی ہے کہ صوبوں کا حصہ 57.5فیصد کے قابلِ تقسیم اثاثوں میں کم نہ ہوگا۔ چنانچہ اس کی موجودگی میں مجھے وفاقی بجٹ کسی طور پر متوازن دکھائی نہیں دیتا۔ اگرچہ اس وقت، جیسا کہ کہا جاتا ہے، مرکز میں بہت ہی موثر اور کفایت شعار قیادت موجود ہے، وفاق مالی مسائل کا سامنا کر رہا ہے، تاہم ہمارے مالیاتی مسائل صرف اٹھارہویں ترمیم ختم کرنے سے حل نہیں ہوتے۔ ایک قوم، جو پہلے ہی دولخت ہونے کا عذاب سہہ چکی ہو اور جس کے دشمن اس کے درمیان کسی قسم کا رخنہ نمودار ہونے کے منتظر ہوں، ایسا کرنا ایک خطرناک عمل ہوگا۔ اس کا حل یہ ہے کہ صوبوں میں رقم تقسیم کرنے سے پہلے وفاق ماضی سے چلے آنے والے قرضہ جات کی ادائیگی کیلئے رقم الگ کر لے۔ ایسا بیک جنبش قلم کرنے کے بجائے بتدریج کیا جائے تو بہتر ہے۔ اس سے وقتی طور پر صوبوں کو ملنے والی رقم میں کمی آئے گی لیکن پھر صوبے اپنے محصولات جمع کرنے اور اپنے اخراجات کو معقول حد میں رکھنے کی کوشش کریں گے۔ نچلی سطح پر اختیارات کی منتقلی کے ساتھ ساتھ صوبوں اور مقامی حکومتوں کو ٹیکسز جمع کرنے کا حق بھی دینا ہوگا۔ اس سے ہماری قوم اور وفاق کمزور نہیں ہوں گے بلکہ اس سے بہتری یہ آئے گی کہ صوبے اور مقامی حکومتیں اپنی اپنی مالیاتی ذمہ داری خود اٹھائیں گے۔ وفاقی حکومت تمام ملک سے ٹیکس جمع کرکے صوبوں کو منتقل کرنے کی مشقت سے آزاد ہوکر اپنا کام، جو کہ انصاف، خارجہ پالیسی، دفاع اور تجارت وغیرہ ہے، کی طرف توجہ دے گی۔

این ایف سی ایوارڈ میں کچھ تبدیلیاں ایک طرف رکھتے ہوئے ہمیں اٹھارہویں ترمیم کا دائرۂ کار محدود کرنے کے بجائے وفاقی ڈھانچے اور ملک کو تقویت دینے کی کوشش کرنا چاہئے۔ پی ٹی آئی حکومت کے پاس جنوبی پنجاب اور بہاولپور کے نئے صوبے بنانے کا نہ صرف نادر موقع ہے بلکہ وہ ملک میں مقامی حکومتوں کا مستحکم اور فعال نظام بھی قائم کر سکتی ہے۔

(صاحبِ مضمون سابق وفاقی وزیر برائے مالیاتی امور ہیں)

تازہ ترین