• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

سازشوں، شورشوں حکومتیں گرانے اور بنانے کی بھیانک تاریخ بہت پرانی اور بھیانک ہے۔ آج سیاسی چہرے تبدیل ہوتے جا رہے ہیں ۔ بددیانتی اور کرپشن کے تناور درخت اکھاڑے جا رہے ہیں۔ نئے وعدوں اور نعروں کی گونج میں قسمیں کھائی جا رہی ہیں کہ کوئی نا اہل، اہل کی جگہ اور بددیانت، دیانتدار کے مقام پر فائز نہیں ہونے پائے گا۔ ملک میں انقلاب آئے گا، تعلیم عام ہو گی، صحت کا فروغ ہو گا، کوئی بیروزگاری اور بھوک سے خود کشی نہیں کرے گا وغیرہ وغیرہ۔

تاریخ کا ایک اور سچ یہ بھی ہے کہ لارڈ مائونٹ بیٹن قیام پاکستان کے بعد ہندوستان اور پاکستان دونوں کے مشترکہ گورنر جنرل بننا چاہتے تھے۔ قائدا عظم کا ذہن ٹٹولنے کےلئے انہوں نے ایک ملاقات میں قائداعظم سے سوال کیا کہ پاکستان میں گورنر جنرل کون ہو گا۔ قائداعظم لارڈ مائونٹ بیٹن کی خواہش بھانپ گئے برجستہ جواب دیا ’’میں گورنر جنرل ہوں گا‘‘۔ اس پر لارڈ مائونٹ بیٹن نے کہا ’’لیکن پاکستان تو پارلیمانی جمہوریت ہو گا جس میں وزیراعظم سب سے مقتدر ہوتا ہے۔ قائداعظم نے مسکراتے ہوئے کہا ’’میرے پاکستان میں ایسا نہیں ہو گا‘‘ (India The Transfer Of Power Papers- 1942-47)

جس عجلت میں ایک سو چودہ دن میں برصغیر کو تقسیم کیا گیا، سرحدوں کے تعین کے بارے میں جو تباہ کن ناانصافیاں کی گئیں اس کے نتیجہ میں ایک کروڑ چالیس لاکھ افراد گھر سے بے گھر ہو گئے اور پانچ لاکھ سے زیادہ افراد اس کی بھینٹ چڑھے۔

اقتدار اور طاقت کے کھیل نرالے ہوتے ہیں۔ موجودہ حالات، بیانات اور رویئے خطرناک رجحان کی عکاسی کرتے ہیں۔ سیاست میں ایک دوسرے پر الزام تراشی کوئی نئی بات نہیں اور پاکستان ہی نہیں دوسرے ممالک میں بھی یہ سلسلہ چلتا رہتا ہے لیکن بنیادی فرق یہ ہے کہ دوسری جماعتوں کے رہنما اور ان کے پیرو کار اس طرح کے بیانات کو سیاسی سطح پر پرکھتے ہوئے زیادہ سنجیدہ نہیں لیتے۔

مغرب میں بیسویں صدی کے دوسرے اور تیسرے عشرے کی سیاسی تاریخ انتہائی ڈرائونی ہے جب ایک مہذب معاشرہ ایک ایسے انسانی المیہ کا شکار ہوا کہ وہ آج تک یہ سمجھنے کی کوشش میں مصروف ہے کہ ایسا کیوں ہوا تھا کہ انتہائی تعلیم یافتہ اور ترقی یافتہ معاشرے کس طرح پاپولزم کی سیاست کا شکار ہو کر ہٹلر اور سولینی جیسے افراد کی جھولی میں جاگرے اس المیے کا تجزیہ آج بھی جاری ہے۔ تمام تر تحفظات اور قباحتوں کے باوجود دو ماہی حکومت کے خلاف عدم اعتماد لانے یا اسے ہر طور گرانے کے رویوں کی تائید کرنا جمہوریت کے لئے سود مند ہو گا نہ ہی اس طرز عمل سے ملک میں سیاسی بحران ختم کر کے جمہوری قوتوں کو مضبوط کرنے کی روایت آگے بڑھ سکے گی۔ اصل مقصد بظاہر حکومت گرانے سے زیادہ اسے ڈرانا ہے تاکہ سیاسی بے چینی کا سلسلہ جاری رہے، موجودہ حکومت کی سر پرستی کرنے والی قوتوں کو اپنی غلطی کا احساس ہونے لگے۔ جس کے بعد طوائف الملوکی کا ایسا دور شروع ہو سکے جس میں کسی بھی سیاسی پارٹی کو اختیار حاصل نہ ہو اور حصول اقتدار کے لئے ہر پارٹی اور لیڈر اپنا زور لگا سکے۔ اس ملک میں 90کی دہائی کے علاوہ 2008ء سے شروع ہونے والے جمہوریت کے نئے دور میں بھی ایک دوسرے کی ٹانگ کھینچنے کا سلسلہ جاری رہا اگر چہ اسے سیاسی تفہیم اور میثاق جمہوریت کا دور کہا جاتا ہے لیکن اس معاہدے پر بوجوہ عمل نہ ہو سکا جس کے سیاسی نتائج کا آج سیاسی پارٹیاں سامنا بھی کر رہی ہیں۔ اب اگر ایک بار پھر تیسری سیاسی قوت کے خلاف وہی طرز عمل اختیار کیا گیا تو اس سے برسراقتدار جماعت کے بجائے اصل نقصان جمہوریت کو پہنچے گا۔

جواز یہ بھی پیش کیا جا رہا ہے کہ اس وقت ملک میں سیاسی بے اختیاری کا دور دورہ ہے اور منتخب حکومت کے اختیارات دراصل غیر منتخب ادارے استعمال کر رہے ہیں۔ اگر یہ بات درست ہے تو جہاں دیدہ سیاستدانوں کو یہ خبر ہونی چاہئے کہ ان حالات میں کسی بھی قسم کی سیاسی طبع آزمائی سے وہی عناصر طاقتور ہوں گے جنہیں اس وقت جمہوریت کے لئے سب سے بڑا خطرہ سمجھا اور کہا جا رہا ہے۔ غیر منتخب قوتوں کے اختیارات اور معاملات پر ان کی استعداد کم کرنے کے لئے سیاسی قوتوں کے درمیان وسیع تر ہم آہنگی اور اشتراک عمل بے حد ضروری ہے۔ گزشتہ چند دہائیوں کی تاریخ گواہ ہے کہ ملک کی بیشتر سیاسی جماعتوں نے کبھی اس حقیقت کو تسلیم نہیں کیا، البتہ جب ان کے مفادات کو زک پہنچی تو اقتدار بچانے یا اسے حاصل کرنے کے لئے انہی قوتوں سے تعاون حاصل کیا گیا۔ یہ تسلیم کرنا بے حد ضروری ہے کہ سیاست حکومت بنانے یا گرانے کا نام نہیں بلکہ اس میں بنیادی حقوق کے تحفظ کے لئے منتخب اداروں کو ڈھال بنایا جاتا ہے۔ آزادی اظہار کو لاحق شدید خطرات، میڈیا پر سخت دبائو اور عددی لحاظ سے مضبوط اپوزیشن ہونے کے باوجود سیاسی سناٹا طاری ہوتا ہے۔ احتساب کے نام پر بنیادی حقوق کو روندتے ہوئے سیاسی انتقام کا ماحول کیوں پیدا کیا جا رہا ہے۔ یہ وہ سوال ہے جو اصل میں غور طلب ہے۔ اہل نظر کو تبدیلی پر کڑی نظر رکھنا ہو گی ورنہ یہ واقعی کسی ایسی تبدیلی کا روپ دھار سکتی ہے جو پورے معاشرے کا تارو پود بکھیر دے کیا دربدری کی تاریخ پھر ہماری منتظر ہے۔

ہمارے نزدیک جمہوری تسلسل کے معاملے میں موجودہ اپوزیشن نہایت سفاکانہ اور موجودہ حکومت کے ترجمان نہایت متشدد کھیل کھیل رہے ہیں، پاکستان کو جمہوری تسلسل کی ضرورت ہے، نواز شریف کی یہ بات بہت بامعنی ہے کہ ’’آصف زرداری پر میں نے مقدمات نہیں بنائے تھے، اس میں انہوں نے پاکستان کی باطنی تاریخ کی جانب اشارہ دے دیا ہے، مولانا فضل الرحمٰن، آصف علی ز رداری سب کو اس ملک پر رحم کرتے ہوئے جمہوری تسلسل کا راستہ انارکی کا شکار نہیں کرنا چاہئے تاہم ان کے لئے جمہوری تسلسل کی خاطر لڑتے رہیں گے، ہماری یہ لڑائی عمران خان کی منتخب جمہوری حکومت کے لئے جاری رہے گی، رہ گئی پس پردہ قوتیں تو سابقہ جمہوری تسلسل کی حکومتیں آگے بڑھیں ماضی بڑا ہی بھیانک ہے اس معاملے میں۔

تازہ ترین