• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
مجھے یقین ہے کہ سیاست اور صحافت چمکانے کی خاطر جھوٹ گھڑنے اور پھیلانے والوں کے منہ اب بھی بند نہیں ہوں گے ۔ بعض لوگ اب بھی تحریک طالبان پاکستان اور اس کے ترجمان احسان اللہ احسان کے وجود سے انکار کرتے رہیں گے لیکن شاید سوچنے سمجھنے والوں کی عقل اب ٹھکانے آگئی ہو۔ میرے نام مولانا عصمت اللہ معاویہ کے خط کے تسلسل اور وضاحت کے طورپر تحریک طالبان پاکستان نے تقریباً ایک گھنٹے پر محیط ویڈیو میڈیا کو جاری کردی۔ جس میں حکیم اللہ محسود‘ ولی الرحمان محسود اور احسان اللہ احسان ایک ساتھ بیٹھے ہیں۔ اس میں انہوں نے جنگ بندی کی مشروط پیشکش دوبارہ دہرا دی ہے ۔ ساتھ ہی واضح کردیا ہے کہ وہ ملا محمد عمر مجاہد کو اپنا امیرالمومنین مانتے ہیں ‘ اپنے آپ کو ان کے احکامات کا پابند سمجھتے ہیں اور وہ القاعدہ کی خاطر سرکٹانے کو تیار ہیں ۔
پورے پاکستان میں مجھ جیسے چند افرادہی تھے جو گزشتہ دس سالوں سے یہ دہائی دے رہے ہیں کہ پاکستانی طالبان ‘ افغان طالبان کا ہی حصہ ہیں اور القاعدہ دونوں طرف بانڈ کی صورت میں موجود ہے لیکن یہاں اصل پالیسی سازوں نے یہ فلسفہ گھَڑ لیا کہ پاکستانی طالبان اور افغانی طالبان کا آپس میں کوئی تعلق نہیں اور پھر ان کے اشارے پر سیاست اور صحافت میں موجود ان پالیسی سازوں کے کارندوں نے اس بے بنیاد فلسفے کو اس قدر پھیلا دیا کہ آج پاکستان کی واضح اکثریت ان سازشی تھیوریز پر یقین کرنے لگی ہے ۔ طالبان قبائلی علاقوں سے نکل کر لاہور اور کراچی تک آ پہنچے لیکن پاکستان میں ان سے متعلق ہر طرف کنفیوژن پھیلی ہوئی ہے ۔ میں اس خیال سے طالبان کا موقف اور حقیقت سامنے لاتا رہا کہ ان کی صحیح تشخیص ہوسکے لیکن کہاں میرے جیسے اخبار نویس کا چھوٹا منہ اور کہاں بڑے بڑے نام ۔ اب بھی اگر ہمیں اس مسئلے کا حل نکالنا ہے تو پہلی فرصت میں پاکستانی طالبان کو ایک حقیقت تسلیم کرنا اور ان کو سمجھنا ہوگا۔
حقیقت یہ ہے کہ پاکستانی طالبانائزیشن‘ افغانستان کے طالبانائزیشن کا پھیلاؤ ہے ۔ غیرملکی ایجنسیوں کی سازشیں بھی اپنا اثر دکھا رہی ہیں لیکن حقیقت یہ ہے کہ تحریک طالبان سے وابستہ لوگ پاکستانی ہیں ۔ حکیم اللہ محسود سے لے کر مولانا فضل اللہ اور عصمت اللہ معاویہ سے لے کر احسان اللہ احسان تک ‘ ہر شخص کے پس منظر سے بھی لوگ واقف ہیں ۔ نئے نوجوان بھی بڑی تعداد میں ان سے وابستہ ہوگئے ہیں اور ڈرائیونگ سیٹ پر پختون بیلٹ کے لوگ بیٹھے ہیں لیکن سابقہ جہادی اور مسلکی تنظیموں کے لوگ بڑی تعداد میں ان سے وابستہ ہیں ۔ عصمت اللہ معاویہ ہو یا کہ میجر مست گل‘ بیت اللہ محسود تھے یا کہ مولانا نیک محمد ‘ یہ سب وہ لوگ ہیں جنہیں ماضی میں ہماری اسٹیبلشمنٹ اور مذہبی سیاسی قیادت نے افغانستان اور کشمیر میں لڑوایا۔ جن کو ہمارا میڈیا شاباش دیتا رہا اور جنہیں ہمارے ہاں ہیروکے طور پر پیش کیا جاتا رہا ۔ چھت پر چڑھا کر ہم نے نیچے سے سیڑھی کھسکا دی جس کی وجہ سے بعض لوگوں نے انتقام میں اپنی بندوقوں کا رخ اپنے ماضی کے سرپرستوں کی طرف موڑ دیا۔ اسی طرح بے وفائی ہم نے افغان طالبان کے ساتھ بھی کی لیکن چونکہ وہ خود پاکستان کے خلاف اعلان جنگ کے متحمل نہیں ہوسکتے تھے ‘ اس لئے پاکستانی ریاست سے ان کا بدلہ پاکستانی طالبان لینے لگے اور شاید یہی وجہ ہے کہ افغان طالبان پاکستان میں کارروائیاں تو نہیں کرتے لیکن پاکستانی طالبان کو روکتے بھی نہیں۔
تاہم اس کا یہ مطلب نہیں کہ پاکستانی طالبان جو کچھ کررہے ہیں ٹھیک کررہے ہیں ۔ وہ نہ بطور ریاست پاکستان کی مجبوریوں کو سمجھ سکے اور نہ اس پہلو کی طرف دھیان دے سکے کہ اگر پاکستان حقیقی معنوں میں سختی دکھاتا تو افغان طالبان امریکہ کو ناکوں چنے نہیں چبواسکتے تھے ۔ ماضی میں تمام معاہدوں کو توڑنے کے لئے حکومت پاکستان کو مورد الزام ٹھہرانا بھی درست نہیں ۔ یقیناً بعض معاہدوں کے حوالے سے حکومت نے زیادتی کی لیکن بعض جگہوں پر طالبان زیادتی یا ہٹ دھرمی کے مرتکب ہوئے ۔ پہلی بات تو یہ ہے کہ مولانا نیک محمدکو پاکستانی فوج نے نہیں بلکہ امریکی ڈرون نے نشانہ بنایا تھا لیکن ان کے خلاف اس کارروائی سے قبل اس ڈیڈلائن کو کئی دن گزر گئے تھے جس سے قبل معاہدہ شکئی کی رو سے غیرملکیوں نے اپنی رجسٹریشن کرانی تھی۔ اس وقت کے گورنر سید افتخارحسین شاہ نے شکئی معاہدہ سے قبل یہ پیشکش کی تھی کہ القاعدہ کے تمام غیرملکی اگر صرف اپنے آپ کو رجسٹرڈ کرالیں اور پرامن رہنے کی ضمانت دے دیں تو ان کے خلاف کوئی کارروائی نہیں ہوگی۔ یہی شرط پھر معاہدہ شکئی میں شامل کردی گئی ۔ اس پیشکش پر امریکی بہت برہم تھے اور وہ یہ سوال اٹھاتے تھے کہ اس کا مطلب تو یہ ہے کہ اگر اسامہ بن لادن بھی اپنے آپ کو رجسٹرڈ کرالیں تو انہیں کچھ نہیں کہا جائے گا ۔ اب ظاہر ہے کہ یہ پاکستانی حکومت کا نہایت جرأت مندانہ اقدام تھا لیکن پھر جو تاریخ مقرر ہوئی تھی ‘ اس پر ایک شخص بھی رجسٹریشن کے لئے نہیں آیا۔ اسی طرح اگر دیکھا جائے تو مولانا حافظ گل بہادر اور مولوی نذیر کے ساتھ حکومت اپنے معاہدوں پر آج بھی قائم ہے حالانکہ ایسا نہیں ہے وہ اپنے زیرکنٹرول علاقوں کو حکومت کے خلاف استعمال نہیں ہونے دے رہے ہیں کیونکہ شمالی وزیرستان میں حافظ گل بہادر بھی بیٹھے ہیں اور تحریک طالبان کا اصل مرکز بھی وہی ہے ۔ تاہم حکومت کی غلطیوں اور زیادتیوں کا بھی کوئی شمار نہیں۔ سب سے بڑی غلطی تو یہ ہے کہ یہ ایشو کبھی سیاسی قیادت کی ترجیح نہیں رہا اور موجودہ حکومت کی تو اس حوالے سے سرے سے کوئی پالیسی ہی نہیں ہے ۔ مسلم لیگ (ن)‘ تحریک انصاف ‘ جماعت اسلامی اور جے یو آئی جیسی جماعتیں اس مسئلے کی بنیاد پر سیاست کھیل رہی ہیں اور کنفیوژن پھیلارہی ہیں ‘ پیپلز پارٹی کی قیادت اندرونی سیاست اور مال کمانے میں مصروف ہے جبکہ اے این پی اقتدار کے لالچ یا ناسمجھی میں اپنے آپ کو قربانی کا بکرا بنارہی ہے ۔ میرے نزدیک آج بھی سیاسی ‘ مذہبی اور عسکری قیادت مل کر ایک جامع منصوبہ بنائے تو طالبان کے ساتھ مفاہمت کا امکان موجود ہے بلکہ مذاکرات کے سوا مسئلے کا کوئی حل ہی نہیں۔ مولانا عصمت اللہ معاویہ کے خط یا پھر حکیم اللہ محسود کے ویڈیو پیغام میں طالبان نے مفاہمت کے لئے جو شرائط رکھی ہیں ‘ وہ نئی نہیں ہیں اور بظاہر ان کے موقف میں کوئی لچک نظر نہیں آتی لیکن میرے نزدیک مذاکرات کی پیشکش بذات خود بڑی تبدیلی ہے ۔
یہاں کچھ لوگ کہتے ہیں کہ پاکستانی طالبان کے ساتھ مذاکرات اس لئے نہیں ہوسکتے کیونکہ وہ پاکستانی آئین کو نہیں مانتے تو کیا افغان طالبان افغانستان کے آئین کو مانتے ہیں؟ ہمارے آئین سے افغانستان کا آئین زیادہ اسلامی ہے اور وہاں پر بھی شریعت کو سپریم قانون تسلیم کیا گیا ہے ۔ پاکستانی طالبان تمام سیاسی جماعتوں کو دشمن نہیں سمجھتے اور علی محمد جان اورکزئی جیسا فوجی جرنیل بھی موقف بدل دے تو اس کی تحسین کرتے ہیں لیکن افغان طالبان کابل میں بیٹھے ہوئے تمام سیاسی رہنماؤں اور سابق جہادی کمانڈروں کو ماننے یا ان کی حیثیت کو تسلیم کرنے پر آمادہ نہیں ۔ پاکستانی طالبان نے اگر پاکستان کے سیاسی رہنماؤں کو قتل کیا ہے تو افغان طالبان نے بھی علی مزاری سے لے کر ڈاکٹر نجیب اللہ تک اور برہان الدین ربانی سے لے کر احمد ولی کرزئی تک ‘ ہزاروں افغان رہنماؤں کو قتل کیا ہے ۔ پاکستانی طالبان نے اگر سوات میں لڑکیوں کے اسکول بندکئے تھے (واضح رہے کہ جنوبی اور شمالی وزیرستان میں لڑکیوں کے اسکول چل رہے ہیں ) تو افغان طالبان نے بھی سات سال تک تمام افغان لڑکیوں کے اسکول بند کئے تھے ۔ اب اگر افغان طالبان کے ساتھ مذاکرات ہوسکتے ہیں تو پاکستانی طالبان کے ساتھ کیوں نہیں ؟۔ میرے نزدیک ہم اپنے تضادات کو دور کرلیں تو سب کچھ ہوسکتا ہے ؟۔ کچھ لوگ کہتے ہیں کہ ماضی میں بھی مذاکرات ہوئے لیکن ان کا مثبت نتیجہ نہیں نکلا۔اس حوالے سے عرض یہ ہے کہ ان تمام معاہدوں کا میں بھی سب سے بڑا ناقد رہا اور آج بھی اگر اس طرح کے مذاکرات یا معاہدے ہوں گے تو تنقید کرنے والوں میں میں سب سے آگے ہوں گا ۔ ماضی میں جتنے بھی مذاکرات ہوئے وہ ہمیشہ ”جُز“ سے کئے گئے ”کُل“ سے نہیں ۔ میں” کُل“ یعنی پورے تحریک طالبان سے مذاکرات کی بات کررہا ہوں ۔ ماضی میں وہ مذاکرات غلط وقت پر غلط لوگوں سے کئے گئے ‘ میرے نزدیک اب صحیح لوگوں سے مذاکرات کا صحیح وقت آگیا ہے ۔طالبان کی سوچ میں کیا تبدیلی آئی ہے اور اس کے محرکات کیا ہیں ؟ ان سے مذاکرات کیسے اور کن کے ذریعے ہوں؟ ‘ زندگی رہی تو اگلے کالم میں ان سوالوں کا جواب دینے کی کوشش کروں گا۔
تازہ ترین