• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

شنگھائی : گبریل ولادو

بیجنگ : ایملی فینگ

امریکا کی تجارتی جنگ اور پالیسی فیصلوں نے بیجنگ میں صارفین کے جذبات اور سرمایہ کے مصارف سے متاثر ہونے سے چین کی اقتصادی ترقی 1990 سے اس کی نچلی سست ترین سالانہ شرح پر چلی گئی۔

2017 میں 6.8 سے کم ہوکر پورے سال ترقی کی شرح 6.6 فیصد تھی، جو تیا نامن اسکوائر کے قتم عام کے بعد جب ملک کو بین الاقوامی پابندیوں کا سامنا کرنا پڑا،سے اب تک سب کم ترین سطح ہے۔

مجموعی ملکی پیداوار کی ترقی چوتھی سہہ ماہی میں گر کر 6.4 فیصد ہوگئی، جو عالمی مالیاتی بحران سے اب تک کم کم ترین سطح ہے۔ مسلسل تین سہہ ماہی سے ترقی کی سست شرح نے سرمایہ کاروں کے درمیان خدشات کو فروغ دیا کہ ملک عالمی معیشت کو نچیے لاسکتا ہے۔

چین نے جولائی سے مالیاتی اور نظام زر سے متعلق محرک اقدامات کے سلسلے کو اپنایا جو رفتار میں کمی شرح کو پلٹنے میں ناکام رہے ہیں۔ گزشتہ ہفتے وزارت مالیات نے اضافی ٹیکس کی کمی کے منصوبوں کی وضاحت کی ہے۔

خبر آنے کے بعد ایشیا پیسیفک بھر کی مارکیٹیں مثبت رہیں، تاہم زیادہ تر دن کی سب سے بلند سطح پر بند ہوئیں۔ ہانگ کانگ کی ہپینگ سینگ کی 0.4 فیصد اضافے کے ساتھ چین کے سی ایس آئی 300 0.6 فیصد اضافے پر بند ہوئی۔ٹوکیو میں ٹاپکس 0.6 فیصد بلند تھا اور سڈنی کا 200 ایس اینڈ پی 0.2 فیصد بلند ہوا۔

اعدادوشمار کے مطابق چین کی برآمدات ہپر امریکی ٹیرف نے ملک کی جی ڈی پی پر براہ ارست بڑا نقصان نہیں پہنچایا۔ لیکن ماہر اقتصادیات اور کارپوریٹ ایگزیکٹو کا کہنا ہے کہ تجارتی تنازع نے جذبات پر بھاری قیمت چکائی ہے، جس سے صارفین کے اخراجات اور سرمائے کے مصارف میں کمی آئی۔

بین الاقوامی مالیاتی فنڈ کے چین کےسابق سربراہ اور کارنیل یونیورسٹی کے پروفیسر ایسوار پرساد نے کہا کہ مجموعی اعدادوشمار نسبتا ایک بے ضرر تصویر پیش کرتے ہیں جو بڑھتی ہوئی اقتصادی بے چینی، کاروباری، صارفین اور صارفین کے جذبات کو بے زار کرنے کے ساتھ غیرموافق نظر آتا ہے۔

خوردہ فروخت کی ترقی، صارفین کے اخراجات کا تخمینہ دمسبر میں 8.2 فیصد تک پہنچ گیا لیکن نومبر میں 18 سال کے کم ترین 8.1 فیصد کے قریب رہا۔

چین کے اعدادوشمار کے بیورو کے ڈائریکٹر ننگ جیز نے پیر کو اعتماد کی ضمانت تلاش کی،علامت کہ چین میں ترقی اب بھی امریکا، یورپی یونین اور جاپان کے مقابلے میں کہیں زیادہ تھی۔ تاہم انہوں نے یہ بھی اعتراف کیا کہ تجارتی جنگ نے متاثر کیا۔

انہوں نے کہا کہ امریکا اور چین کے مابین تجارتی کشیدگی نے یقیناَ اقتصادی کارکردگی پر اثرات مرتب کیے،لیکن ہم مجموعی طور پر اثرات پر قابو پاچکے ہیں۔

تجزیہ کاروں نے کہا کہ تجارتی جنگ کے علاوہ اقتصادی توسیع میں خرابی کم از کم جزوی طور پر خود عائد کردہ تھی۔

بیجنگ کی قرضے سے بھرپور محرک پر انحصار کی اس کی معیشت کی نجات کے ذریعے مالیاتی خطرے کو کنٹرول کرنے کی مہم نے بنیادی ڈھانچے کے اخراجات میں تیزی سے کمی میں کردار ادا کیا، جبکہ نجی کمپنیوں کے لئے قرض تک رسائی میں کمی بھی شامل ہے۔اس کے ساتھ ساتھ ماحولیاتی قواعد و ضوابط کو نافذ کرنے کیلئے ایک متوازی کوشش نجی کمپنیوں پر بھاری پڑ گئیں۔

ماہرین اقتصادیات کو امید ہے کہ بیجنگ آنے والے مہینوں میں بینکوں کے مطلوبہ ریزرو تناسب میں اضافی کٹوتی سمیت اقدامات کو بڑھائے گا۔ تاہم ماہرین نے خبردار کیا کہ بھاری محرک کے پچھلے دور نے پالیسی سازوں کو کریڈٹ میں نرمی کے لئے کم لچک کے ساتھ چھوڑ دیا،جس نے معیشت کے قرض کے بوجھ کو مزید بڑھادیا۔

پی این سی فنانشل سروس میں سنیئر ماہر اقتصادیات ولیم ایڈم نے پیر کو لکھا کہ چین کی معیشت سست روی کے ذریعے پیچیدہ ہے لیکن عالمی نکتہ نظر کے کیلئے خطرے کے حوالے سے بدترین خدشات کا احساس نہیں۔ 

تازہ ترین