• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

مادر جمہوریت میں بھی جمہوریت ہچکولے کھانا شروع ہو گئی ہے، وہاں بھی مارشل لاء کی باتوں کا آغاز ہو گیا ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ برطانیہ میں جمہوریت بہت احسن انداز میں چل رہی تھی مگر وہاں ایسی باتوں کا سامنے آنا بڑا خوفناک ہے ہمارے ہاں تو جمہوریت اپنی اصل شکل میں کبھی آئی ہی نہیں ، ہمارے ہاں تو نظام میں بہت خرابیاں ہیں۔ حامد میر نے امیر تیمور کے حوالے سے شاندار کالم لکھا ہے مگر افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ ہمارے نام نہاد جمہوری حکمرانوں نے نہ تیمور کی طرح سوچا اور نہ ہی تیمور کی طرح عمل کیا۔ہمارے حکمرانوں نے تیمور کے بتائے ہوئے حکمرانی کے اصولوں کو نظرانداز کیا۔ ہمارے ہاں تو سیاسی پارٹیاں چن چن کر مرضی کے جج اعلیٰ عدلیہ میں لاتی رہیں جس سے خرابیوں نے جنم لیا۔نظام کی ان مشکلات کا قائداعظم محمد علی جناحؒ کو بخوبی اندازہ تھا شاید اسی لئے انہوں نے جولائی 1947ء میں کہا تھا کہ ’’اگر پاکستان میں برطانوی پارلیمانی طرز حکومت نافذ کیا گیا تو اس سے خرابیاں جنم لیں گی، اسلئے پاکستان کے پارلیمانی نظام کو برطانوی طرز کا نہیں ہونا چاہئے بلکہ صدارتی طرز حکومت ہونا چاہئے۔‘‘ قائداعظم ؒنے پاکستان بننے کے بعد شاید اسی لئے وزیراعظم بننے کے بجائے گورنر جنرل (صدر) بننا پسند کیا ورنہ وہ تو وزیراعظم بھی بن سکتے تھے۔ آج کل ہمارے ہاں نظام حکومت پر بحث ہو رہی ہے ہم نے پچھلے ستربرس میں برطانوی طرز حکومت کے بہت سے تجربات کر لئے لیکن ان تجربات سے ہمارے ہاں بگاڑ بڑھتا گیا۔ ہمارے معاشرے میں کبھی سیاست دانوں پر تنقید ہوتی ہے تو کبھی فوج پر، اسی طرح بعض اوقات عدلیہ کو بھی نشانہ بنایا جاتا ہے مگر اس ملک کا نظام چلانے والے بیوروکریٹس پر کوئی تنقیدنہیں کرتا، ہمارے معاشرے میں خرابیوں کے بڑے ذمہ دار یہی سول بیوروکریٹس ہیں۔ تحریک انصاف کی حکومت آنے پر ڈرے ہوئے بابوئوں نے پر پرزے نکالنے شروع کر دیئے ہیں، نیب کی نگاہیں بھی ان بابوئوں کی طرف نہیں جاتیں اگرچہ نیب کو ناظم کی وجہ سے کئی مشکلات کا سامنا ہے مگر آخر یہ نظام کسی نے ٹھیک بھی تو کرنا ہے ۔

اس میں کوئی شک نہیں کہ عمران خان کی شخصیت انتہائی دیانتدار ہے اور وہ پاکستان کو آگے لے جانا چاہتے ہیں، اس مقصد کیلئے انہوں نے دن رات ایک کر رکھا ہے مگر مختلف وزارتوں میں بیٹھے ہوئے بیوروکریٹس ان کے راستے کی رکاوٹ بنے ہوئے ہیں۔ ان کو وزیر اعظم ہائوس سے سرپرستی مل جاتی ہے۔ میں یہاں چند حقائق بیان کرنا چاہتا ہوں۔ پیپلز پارٹی کے دور حکومت میں گریڈ بیس سے بائیس تک کے افسران کے لئے ’’مونیٹائزیشن پالیسی برائے سول سرونٹس‘‘ متعارف کروائی گئی تھی۔ اس پالیسی کے تحت گریڈ بیس سے بائیس تک کے افسران کو سرکاری گاڑیاں قسطوں پر دے کر سرکاری ڈرائیور، سرکاری گاڑی اور پٹرول کےبدلے ماہانہ 65ہزار سے ایک لاکھ تک کا الائونس ان کی تنخواہ میں شامل کر دیا گیا تھا۔ اس کا مقصد یہ تھا کہ سرکاری گاڑیوں کا ناجائز استعمال رک سکے اور قومی خزانے کی بچت ہوسکے۔

میں یہاں ایک وزارت کا تذکرہ کر رہا ہوں ۔یہ وزارت بین الصوبائی رابطے کے سلسلے میں ہے، اس وزارت کے ختم ہونے والے پروجیکٹس کی اٹھارہ گاڑیوں کے علاوہ ذیلی اداروں کی بہت سی سرکاری گاڑیاں افسران استعمال کر رہے ہیں۔جبکہ وزارت کی اپنی گاڑیاں الگ ہیں اس وزارت کے حال ہی میں ریٹائرڈ ہونے والے سیکرٹری جو کہ اعظم سواتی کے سمدھی ہیں جب یہ بات ان کے علم میں لائی گئی تو پتہ چلا کہ خودسیکرٹری صاحب کے استعمال میں چھ گاڑیاں ہیں۔دو گاڑیاں تو موصوف کے ڈاکٹر بچوں کو اسپتال چھوڑنے کیلئے استعمال ہوتی ہیں۔ ان گاڑیوں کے ڈرائیور سرکاری، پٹرول سرکاری اور مینٹیننس بھی سرکاری ہے ۔سیکرٹری صاحب کو بتایا گیا کہ سپریم کورٹ کے سوموٹو کے جواب میں بین الصوبائی رابطے کی وزارت نے ’’سب اچھا ہے‘‘ کی رپورٹ بھیج دی ہے مگر وزارت کے ایڈیشنل سیکرٹری پانچ سرکاری گاڑیاں استعمال کر رہے ہیں ، ان کا خرچہ بھی سرکاری ہے، یہ افسران ایک طرف حکومت سے گاڑی نہ رکھنے کی مد میں پیسے وصول کر رہے ہیں تو دوسری طرف پانچ پانچ چھ چھ گاڑیوں پر قبضہ کر رکھا ہے ۔ میں نے کسی فوجی جرنیل یا کسی سیاست دان کے پاس نہ تو نصف درجن سرکا ری گاڑیاں دیکھی ہیں اور نہ ہی اس حساب سے سرکاری ڈرائیور دیکھے ہیں۔ وزارت بین الصوبائی رابطہ کے افسران نے عباسی حکومت کے اعلان کردہ اعزازیئے سمیٹنے کیلئے کئی جعلی نام شامل کئے تھے ۔ پرائم منسٹر یوتھ ٹریننگ کے نام پر کروڑوں ہضم کئے۔ قوم کے انٹرنی نوجوان وزارتوں میں دھکے کھاتے رہے اور ان کے نام پر پیسے کوئی اور لے گیا۔

جناب والا! یہ تو ایک وزارت کا قصہ ہے، ایسے قصے ہر وزارت میں ہیں، یہی لوگ ہیں جو عمران خان کے راستے کی رکاوٹ ہیں، یہی وہ لوگ ہیں جو سیاست دانوں کو کرپشن کا راستہ دکھا کر خود ڈبل کام کر جاتے ہیں اور پھر سیاست دانوں کی بدنامی پر خوش ہوتے ہیں ، ایف آئی اے اور نیب کو جائزہ لینا چاہئے، یہاں کام کرنے والے کاٹھے انگریزوں کا بھی حساب ہونا چاہئے، جو ہر عہد میں کرپشن کر کے بچ جاتے ہیں۔ ہر موسم میں کرپشن کو پالنے والے ان بابوئوں نے پورا نظام کرپٹ کر دیا ہے۔ اگر عمران خان ملک کا نظام بہتر کرنا چاہتے ہیں تو پھر انہیں یہ نظام بدلنا ہو گا کیونکہ یہ ظلم کا نظام ہے اور ظلم کے نظام میں انصاف نہیں ہو سکتا، فلاح نہیں مل سکتی، اس نظام میں لوگ لڑتے رہیں گے، مرتے رہیں گے، رلتے رہیں گے، اس سے بچائو کا واحد راستہ نظام کی تبدیلی ہے، عمران خان اپنی گفتگو میں علامہ اقبال ؒ کے حوالے دیتے ہیں، اقبال ؒ ہی نے کہا تھا کہ

اٹھو میری دنیا کے غریبوں کو جگا دو

کاخِ امراء کے درودیوار ہلا دو

جس کھیت سے دہقاں کو میسر نہ ہو روزی

اس کھیت کے ہر خوشۂ گندم کو جلا دو

تازہ ترین