• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ڈاکٹر ناظر محمود، اسلام آباد

فہمیدہ ریاض کی وفات کے بعد بہ مشکل ایک ہفتہ گزرا ہوگا کہ ایک اور نام وَر مصنّفہ ہم سے بچھڑ گئیں۔ الطاف فاطمہ نے نوّے سال کی عُمر میں 20 نومبر 2018ء کو وفات پائی۔ فہمیدہ ریاض اور الطاف فاطمہ اُن لکھاریوں میں شامل تھیں، جو ساٹھ کی دہائی میں ادبی منظر نامے پر اُبھرے۔ فاطمہ، فہمیدہ سے بیس سال بڑی تھیں اور اُنہوں نے تقسیمِ ہند کے حالات کو بہ غور دیکھا تھا۔ دونوں نے یوپی سے ہجرت کی تھی۔ فاطمہ نے لاہور کو اپنا مسکن بنایا اور فہمیدہ، حیدرآباد میں آباد ہوئیں۔ ان دونوں کی تحریروں میں مختلف تجربات کا عکس نظر آتا ہے۔ الطاف فاطمہ وطن پرست تھیں، تو اُن کے ناولز اور افسانوں میں حبّ الوطنی اور مذہبیت کا رنگ واضح نظر آتا ہے، جب کہ فہمیدہ ریاض ترقّی پسند سیاست میں رنگی ہوئی تھیں۔ الطاف فاطمہ کا ایک اپنا ہی منفرد اسلوب اور کرشمہ تھا، جو اُن کے کرداروں میں جھلکتا تھا، خاص طور پر اُن کے نسوانی کرداروں میں۔تاہم، اُن کے کرداروں کی طرف ہم کچھ دیر میں آتے ہیں، پہلے اُس ماحول کا کچھ ذکر، جس میں اُنھوں نے پرورش پائی۔

الطاف فاطمہ، مولانا فضل حق خیر آبادیؒ کے وسیع خاندان سے تعلق رکھتی تھیں اور اُن کے ماموں، سیّد رفیق حسین رضوی بہت اچھی کہانیاں لکھتے تھے، جن میں انسانوں کے ساتھ، جانوروں کے تعلقات کو پیش کیا جاتا تھا۔ جس طرح فہمیدہ ریاض نے اجمل کمال کے جریدے ’’آج ‘‘ میں محمّد خالد اختر کا تذکرہ کیا ، اسی طرح الطاف فاطمہ نے سیّد رفیق حسین پر ایک مضمون، جون 1968ء میں رسالے’’نیا دَور‘‘ میں لکھا، جس کی مدیران، قمر سلطانہ اور جمیلہ ہاشمی تھیں۔ ’’نیا دَور‘‘ کے اس شمارے میں سیّد رفیق حسین پر موجود گوشے میں الطاف فاطمہ کے ساتھ، اختر حسین رائے پوری وغیرہ کے مضامین بھی شایع ہوئے۔ ساتھ ہی رفیق حسین کی کچھ کہانیاں اور ناولٹ بھی شامل کیے گئے۔ اس مضمون میں الطاف فاطمہ نے بتایا کہ کس طرح اُن کا بچپن علی عبّاس حسین اور سیّد مسعود حسن رضوی کی سرپرستی میں گزرا۔ یاد رہے، مسعود حسن رضوی، معروف افسانہ نگار، نیّر مسعود کے والد تھے۔ اس ماحول میں الطاف فاطمہ کا نکھرنا ایک فطری عمل تھا۔ جب وہ لاہور منتقل ہوئیں، تو اُنہوں نے اُردو ادب اور تعلیم کے مضامین میں اسناد حاصل کیں، پھر تدریس کے طویل فرائض انجام دینے کے بعد، اُردو کی پروفیسر کی حیثیت سے سبک دوش ہوئیں۔

اُس دَور کے دیگر لکھنے والوں، مثلاً راجندر سنگھ بیدی، عصمت چغتائی، کرشن چندر اور سعادت حسن منٹو کے برعکس اُنہیں اس اَمر میں دِل چسپی نہیں تھی کہ اپنی تحریروں میں تمام مذاہب سے تعلق رکھنے والوں پر بیتے ظلم و ستم کی داستانیں رقم کریں۔ مثال کے طور پر، الطاف فاطمہ کا غالباً سب سے مشہور ناول’’دستک نہ دو‘‘ ہے، جو تقسیمِ ہند سے قبل کے چند سال کے بارے میں ایک اچھا ناول ہے۔ اس میں متحدہ ہندوستان کے شان دار ماضی کا ذکر ہے، جس میں ہندو اور مسلمان مل جُل کر رہتے تھے، مگر اس ناول میں قیامِ پاکستان کے وقت ہونے والے فسادات میں صرف مسلمانوں کو ظلم و ستم کا نشانہ بنتے دِکھایا گیا۔ اس طرح فسادات کے اس وسیع پس منظر کو نظر انداز کیا گیا، جس میں ہندو، مسلم اور سِکھ سب متاثر ہوئے تھے۔ گو کہ الطاف فاطمہ کی تحریروں کا یہ ایک نسبتاً کم زور پہلو ہے، پھر بھی اُن کی خواتین کے کردار بڑے بھرپور ہیں۔ اس کی ایک مثال ’’دستک نہ دو‘‘ کی چھوٹی بچّی’’ گیتی‘‘ ہے، جس کی ایک چینی مسلمان سے دوستی ہوجاتی ہے، جو سائیکل پر گھریلو سامان بیچتا پِھرتا تھا۔ جب گیتی ایک درخت سے گر کر اپنی ٹانگ تڑوا بیٹھتی ہے، تو یہی چینی اُسے گھر پہنچاتا ہے اور پھر اُس کی دل جوئی کے لیے روز چکر لگاتا ہے۔ اپنے خاندان کی مخالفت کے باوجود، گیتی اُس چینی سے ملتی رہتی ہے، جس کا خاندانی نام’’ لیو چو‘‘ اور اسلامی نام، صفدر یاسین ہے۔ اس کردار میں ہمیں ٹیگور کے ’’کابلی والا‘‘ کی جھلک نظر آتی ہے، جو افغانستان سے بنگال جاتا ہے، جہاں اُس کی ایک چھوٹی بچّی سے دوستی ہوجاتی ہے۔ کابلی والا اور صفدر یاسین میں یہ قدر مشترک ہے کہ دونوں اپنے گھروں کو یاد کرتے ہیں اور اُنہیں گھر سے ہزاروں میل دُور ایک اجنبی وطن میں ،ایک چھوٹی بچّی سے اپنائیت ہوجاتی ہے۔گیتی اپنی سائیکل پر گھومتی پِھرتی ہے اور بڑی ہوکر اپنے ایک رشتے دار سے اظہارِ محبّت کرتی ہے، جس میں جھجک نام کو نہیں۔ جب گیتی کے گھر والوں کو اس یک طرفہ محبّت کا پتا چلا، تو گیتی اپنی والہانہ محبّت کا برملا دفاع کرتی ہے اور پھر کچھ عرصے بعد گھر چھوڑ دیتی ہے۔

الطاف فاطمہ کا ایک اور ناول،’’چلتا مسافر‘‘ ہے، جس میں بڑی مہارت سے ایک نہیں، دو تقسیموں کی داستان بیان کی گئی ہے۔ اس ناول میں 1940ء سے 1970ء کے درمیان کے واقعات کا احوال ملتا ہے، لیکن اگر ہم ’’چلتا مسافر‘‘ کا موازنہ قرّاۃ العین حیدر کے ناول ’’آخر شب کے ہم سفر‘‘ سے کریں، جو تقریباً اُسی دَور کو بیان کرتا ہے، تو ہمیں دونوں میں واضح فرق نظر آتا ہے۔ یعنی ایک ہی جیسے واقعات کو دیکھنے کا انداز، دونوں کے ہاں مختلف ہے۔قرّاۃ العین حیدر کا مشاہدہ خاصا جذباتی ہے اور وہ بڑے عالمانہ انداز میں واقعات کو بیان کرتی ہیں، جب کہ الطاف فاطمہ کی جذباتی وابستگی اپنے بہاری کرداروں کے ساتھ بڑی واضح ہے۔ تقسیم سے پہلے اور بعد میں بہار میں چند بڑے فسادات ہوئے۔ الطاف فاطمہ نے’’چلتا مسافر‘‘ میں وہاں کے ایک زمین دار خاندان کی کہانی لکھی ہے۔ یہ پورا خاندان اتنا ہی شریف ہے، جتنی کہ اشرافیہ ہوسکتی ہے۔خاندان کے سربراہ، سیّد مبشر مسلم لیگ کے سرگرم کارکن ہیں اور اُن کا بیٹا، مزمّل بھی باپ کے نقشِ قدم پر چلتے ہوئے مسلمانوں کے لیے آزاد مُلک کا داعی ہے۔ اس کے باوجود، یہ لوگ کانگریسی مسلمانوں سے اچھے تعلقات رکھتے ہیں۔ ’’چلتا مسافر‘‘ کی سب سے بڑی خُوبی یہ ہے کہ اس میں اُس خاندان کی پہلی ہجرت، بہار سے مشرقی بنگال اور پھر 1971ء کے بعد مشرقی پاکستان سے، مغربی پاکستان منتقلی بڑے اچھے انداز سے بیان کی گئی ہے۔ یہ ناول اُن کی تخلیق صلاحیتوں کا اعلیٰ نمونہ ہے۔’’دستک نہ دو‘‘ کی گیتی کی طرح، ’’چلتا مسافر‘‘ میں عورت کا ایک مضبوط کردار ’’ نصیبا‘‘ کا ہے، مگر گیتی اور نصیبا، دونوں سماجی دبائو میں آکر خود سے بڑی عُمر کے ایسے مَردوں سے شادی کرلیتی ہیں، جن سے اُنہیں کوئی خاص لگائو نہیں تھا۔ یہاں ہمیں معروف بنگالی مصنّف، شرت چند چٹر جی کا کردار، ’’پارو‘‘ یاد آ رہا ہے، جو اُنہوں نے اپنے ناول ’’دیو داس‘‘ کے لیے تخلیق کیا تھا۔ پارو بھی خود سے بڑی عُمر کے مَرد سے مجبوراً شادی کرلیتی ہے۔ ’’چلتا مسافر‘‘ کا بھی کم زور پہلو یہی ہے کہ اُس میں ظلم و ستم کے شکار زیادہ تر بہاری ہی دِکھائے گئے ہیں۔ لیکن اِن کم زور پہلوئوں کے باوجود دونوں، یعنی ’’دستک نہ دو‘‘ اور ’’چلتا مسافر‘‘ اُس دَور کے واقعات کی تفصیلی تصویر پیش کرتے ہیں، جو کہ ہماری تاریخ کے فیصلہ کُن برس تھے۔

اِن کے علاوہ، الطاف فاطمہ کے دو اور ناولز ہیں، یعنی ’’نشانِ محفل‘‘ اور ’’خواب گر۔‘‘ نیز، اُنھوں نے درجنوں کہانیاں بھی لکھیں، جو زیاہ تر 1965ء اور 1971ء کی جنگوں کے پس منظر میں لکھی گئیں۔ مثلاً ایک کہانی کا عنوان ہے ’’مرگِ محبّت‘‘، جو 1966ء میں شاہد احمد دہلوی کے ’’نقش‘‘ میں شایع ہوئی۔ اس میں 1965ء کی جنگ کے واقعات بیان کیے گئے۔ اسی طرح ایک اور کہانی کا عنوان ’’تعمیرِ نو‘‘ ہے، جو 1971ء کی جنگ کے بعد لکھی گئی۔ اس میں مشرقی پاکستان کی علیٰحدگی کے بعد، مغربی پاکستان کی تعمیرِ نو کی نوید سُنائی گئی۔ ایک کہانی ’’سات سو چھیاسی‘‘ ہے، جو لکھی تو 1971ء میں گئی، مگر2011 ء میں پنجاب یونی ورسٹی کے گولڈن جوبلی نمبر میں شایع ہوئی۔ الطاف فاطمہ کی کہانیوں کے کئی مجموعے شایع ہوئے، جن میں’’وہ جسے چاہا گیا‘‘، ’’دیواریں جب گریہ کرتی ہیں‘‘ اور ’’تارِ عنکبوت‘‘ شامل ہیں۔ اُن کے مجموعے ’’وہ جسے چاہا گیا‘‘ کی ایک کہانی، ’’گواہی‘‘ ہے، جس میں 1965ء کی جنگ کے بعد سرحد پار سے آنے والا شخص اس بات کی گواہی دیتا ہے کہ واقعی جنگ کے دَوران کچھ نامعلوم سفید پوش محاذ پر موجود تھے اور پاکستانی فوج کی مدد کررہے تھے۔ جب اس بات کو افواہ یا مذاق سمجھا جاتا ہے، تو وہ عینی شاہد قسمیں کھا کر یقین دلاتا کہ ہے یہ افواہ نہیں، بلکہ درحقیقت ایسا ہوا تھا۔ یاد رہے، ایسی ہی باتیں قدرت اللہ شہاب نے اپنی سوانح عُمری ’’شہاب نامے‘‘ میں لکھی ہیں۔

الطاف فاطمہ کی تقریباً تمام تحریریں آن لائن موجود ہیں اور جو بھی پاکستان کی تاریخ کو سمجھنا چاہتا ہے، اُسے یہ تحریریں ضرور پڑھنی چاہئیں۔ تاہم، چوں کہ وہ تاریخی واقعات کو ایک خاص رنگ میں پیش کرتی ہیں، اس لیے بہتر ہوگا کہ قارئین ان حالات و واقعات کے بارے میں دیگر مصنّفین کی تحریریں بھی پڑھ لیں، جن میں شہزاد منظر، زاہدہ حنا، مسعود اشعر اور قرّاۃ العین حیدر وغیرہ قابلِ ذکر ہیں۔

تازہ ترین