• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ترسیلاتِ زر اور قرضوں سے معاشی و سماجی استحکام ممکن نہیں

؎ نظر آتے نہیں بے پردہ حقائق اُن کو… آنکھ جن کی ہوئی محکومی و تقليد سے کور۔ علّامہ اقبال کایہ شعر حسب ِحال ہے ،جس کے مطابق ’’محکوم قوم کے غلام افراد میں بصیرت عدم الوجود ہوتی ہے، وہ حقائق کا گہرائی اور بالغ النظری سے جائزہ لے سکتے ہیں اور نہ ہی مسائل کا دُرست حل تلاش کرسکتے ہیں۔ ان کی کوتاہ بینی اور ردّعمل کی عادت کو دُشمن اُن کے خلاف اور صلاحیتوں ، وسائل کوبآسانی اپنے حق میں استعمال کرتا ہے۔‘‘

معاشی دشمن کون ہے؟ سامراج اور سرمایہ دارانہ نظام، جس کی وکالت کرنے والے یہ نہیں جانتے کہ ایک باعلم آدمی کو یہ علم ضرورہونا چاہیے کہ وہ کتنا لاعلم ہے، اسی لیے پاکستان کے 70برسوں میں ایسے حکم ران عوام پر مسلط ہوئے، جن کے وزرائے خزانہ ظاہر کرتے رہے کہ وہ باعلم ہیں، لیکن وہ اپنے ہی شعبے یعنی معاشیات سےدانستہ طور پر اتنے لاعلم تھے کہ قرضوں کے ذریعے ترقی کے راستے ڈھونڈتے رہے۔ گزشتہ کئی عشروں سے محنت کشوں کی ترسیلات کے ذریعے تجارتی عدم توازن کو دُرست کرنے کی ناکام کوشش کرتے رہے اورنتیجتاً آج پاکستان کی آمدنی 24ارب ڈالرز (برآمدات) اور اخراجات( درآمدات) 60ارب ڈالرز ہیں ۔ 36ارب ڈالر زکا یہ تجارتی خسارہ ہمیںمعاشی تباہی اور انتشار کی جانب لے آیا ہے ،کیوں کہ حکم ران یہ جاننے سے قاصر رہے کہ سرمائے کی تجارت میں عدم برابری سے مالیات میں بھی نابرابری پیدا ہوتی ، ادائیگیوں کے عدم توازن، قرضوں میں تبدیل ہوجاتے ہیں۔ اس صورت حال سے پیدا ہونے والی زرِمبادلہ کی خرابیوں پر قابو پانے کے لیے، عالمی بینک کے ساتھ بین الاقوامی مالیاتی فنڈ(آئی ایم ایف) کا اِدارہ قائم ہوا، جو ادائیگیوں کے عدم توازن کے شکار ممالک کو قرضےفراہم کرتاہے، لیکن دنیا بھر میں ثابت ہوگیا ہے کہ یہ علاج ،بیماری سے بھی بدتر ہے۔ اِس طرح مالیاتی منڈیوں میں زرِمبادلہ کی قلّت اور اس کی قدر میں اُتار چڑھائو کا طاقت ور ہتھیار صنعتی ممالک کے ہاتھ آگیا۔ وہ اپنے سرمائے کی طاقت سے، کمزور ممالک کا زرِمبادلہ ہضم کرلیتے ہیں۔ موضوعِ سُخن معاشی اَدب میں تیسری دنیا کے لیے ترسیلات ِزرقرار پایا ہے، جس کے ذریعے پاکستان بہ مشکل60فی صد تجارتی عدم توازن میں اسے استعمال کرسکا ، کیوں کہ پاکستان کماتا کم اور خرچ زیادہ کرتا ہے۔ بہ قول عالمی بینک ،یہاں کے ٹیکس چور اور دیگر بد عنوان طبقات ہر سال 10ارب ڈالرز غیرقانونی طورپر (بہ ذریعہ لانڈرنگ) باہر بھیج دیتے ہیں۔گزشتہ برس بیرونِ ملک مقیم پاکستانی محنت کشوں نے 19.3ارب ڈالرز بھیجے، اگر اس سرمائےمیں کمی آجائے ،تو مُلک دیوالیہ ہوسکتا ہے۔ پاکستانی حکم ران خاص طور پر گزشتہ پانچ برس میں برآمدات (آمدنی) نہ بڑھا سکے، بلکہ 2013میںیہ شرح 25ارب ڈالرزکم ہوکر 20ارب ڈالرز تک چلی گئی ۔حالیہ دَور میں بھی روپے کی قدر 30فی صد کم کرکےبھی،بر آمدات 24ارب ڈالرزہی تک لائی جا سکی ہیں۔ جب کہ انہیں 30فی صد برآمدات ہر صورت بڑھانی چاہییں، کیوں کہ روپے کی قدر میں کمی کا نقصان عوام بھگت رہے ہیں۔

عالمی منظر نامےمیں تارکین ِوطن کی حالت ِزار سے ہر کوئی واقف ہے کہ پاکستانی محنت کش کس طرح تپتی دھوپ میں کام کرتے اور کیمپوں میں رہائش پزیر ہیں ۔اس کے برعکس ٹیکس چور کس طرح ملک سے قیمتی زرِمبادلہ باہر بھیج دیتے ہیں۔ ہر روز لاکھوں تارکین ِوطن ،دنیا بھر میں منی ٹرانسفر کےدفاترمیںقطار در قطار کھڑے ہوکربچت کی ساری رقم اپنے ممالک کوبھیجتےہیں۔پاکستان میں خاص طور پر دیہی علاقوں میں بیرونِ ممالک سےرقوم زیادہ آتی ہیں ،جن سے لوگ اپنے بچّوںکو پڑھاتےبھی ہیں اور انہیں گھر، بہتر خوراک بھی میّسرآتی ہے۔ تیسری دنیا کی معیشتوں میں ترسیلات ِزر، اہم کردار ادا کرتی ہیں، کیوں کہ اکثر ممالک قرضوں اور بد عنوان حکم رانوں کی وجہ سے ترقی نہیں کرسکے۔ عالمی بینک کے مطابق 2013ءمیں ترسیلات ِزر کا مجموعی تخمینہ 404ارب ڈالرز تھا، جو تیسری دنیا میں آیا،لیکن یہ نہیں بتایا گیاکہ عدم توازن اور اسٹاک مارکیٹوں کے جوئے کی وجہ سے جنوب سے شمال کی طرف کس طرح دو ٹریلین ڈالر زجاتے ہیںاور اِن ممالک کی کرنسی کی قدر کس طرح کم سے کم ہوتی اوریہ افراطِ زر کا شکار رہتے ہیں۔اقوامِ متحدہ کے ایک ذیلی ادارے گلوبل آفیشل ایڈ کے مطابق اِن مُلکوں کو امداد کے نام پر 138.8ارب ڈالر قرض دیا گیا،یہ بھی بتایا گیاکہ 2014ءسے 2016ءکے درمیان ترسیلات ِزر میں اضافہ ہوا اور محنت کشوںنے516ارب ڈالرز مرسلہ رقوم اپنے اپنے ممالک بھیجیں۔ لیکن ان اداروں کے پاس ،جو تخمینہ کاری اور شماریات کے باوصف اعداد وشمار ہیں، وہ یہ بتانے سے قاصر ہیں کہ لانڈرنگ کے ذریعے کتنا زرِمبادلہ اِدھر، اُدھر ہوتا ہے۔ تاہم سرحدوں کے اُس پار سےمحنت کش ،جو زرِمبادلہ بھیجتے ہیں ،وہ دیہی علاقوں میں صحت، تعلیم کے علاوہ خوراک کے بھی کام آتا ہے۔ دیہی علاقوں کے رہنے والے چند باشعور افراد، مستقل آمدنی کے لیے زراعت میں بھی سرمایہ کاری کرتے ہیں۔ پاکستان کا جائزہ لیا جائے، تو گزشتہ سال محنت کشوں نے 19.3ارب ڈالر زبھیجے ، جو برآمدات کے زرِمبادلہ کے قریب ہیں۔ آئی ایم ایف سے سود و شرائط پر، جو قرضے لینے کی کوششیں کی جارہی ہیں، اُن سے دُگنی رقوم ترسیلات کے ذریعے ملک میں آتی ہیں۔ ان میں اگر 15ارب ڈالر اضافہ ، درآمدات میں 5ارب ڈالر کمی ،نظامِ ٹیکس بہتر اور اِنکم و سیلز ٹیکس منظّم کر لیا جائے، تو پاکستان کو قرضے لینے کی ضرورت ہی نہیں پڑے گی،کہ جن کی مَد میں ہر سال 15ارب ڈالر سود ادا کرنا پڑتا ہے۔ ایک مسئلہ ،جو سامنے آرہا ہے، اس کی مثال یوں دی جاسکتی ہے کہ باہر سے آنے والی رقوم ، ٹرانسفر آپریٹرز کے ذریعے آتی ہیں ،چناں چہ اِن کے بارے میں ’’اوور سیز ڈیولپمنٹ اِنسٹی ٹیوٹ‘‘ (ODI) کے مطابق’’ امریکا میں 75فی صد ترسیلات ویسٹرن یونین اور منی گرام کی وساطت سے آتی ہیں، یہ 12فی صد فیس وصول کرتے ہیں۔ اگر یہ فیس نہ لی جائے، تو اِس خطّے کے ایک کروڑ 40لاکھ بچے تعلیم حاصل کرسکتے ہیں۔‘‘ پاکستان میںبھی بینکوں کے ذریعے ،جو رقوم آتی ہیں، وہ بھی فیس وصول کرتے ہیں، لیکن اس کی اَدائی حکومت کرتی ہے۔ البتہ قابلِ غور بات یہ ہے کہ منی لانڈر کرنے والوں سے جلدی اور بہتر فائدہ دیا جائے ،تو پاکستان میں 30ارب ڈالر زتک مرسلہ رقوم آسکتی ہیں ۔شنید ہے کہ موجودہ حکومت اس سلسلے میں اقدامات کررہی ہے۔ زیادہ فیس، کم فوائداور بینکوں میں اکائونٹس نہ ہونے کی وجہ سے قانونی طور پر رقوم میں کمی واقع ہوتی ہے۔ رقوم کی منتقلی کے آپریٹر اب موبائل فون کے ذریعے بھی رقوم بھیجنے کا انتظام کرچکے ہیں، مضافات میں لوگ بینکوں کی طرف مائل نہیں ہوتے، اس کی سب سے بڑی وجہ ناخواندگی ہے۔ غیرقانونی طور پر وطن سے باہر کام کرنے والے قانونی طور پر رقوم نہیں بھیج سکتے، وہ کسی نہ کسی حوالے ہی کو استعمال کرتے ہیں۔ بعض ممالک میں بینکوں پراعتبار نہیں کیا جاتا،ترسیلِ زر میںسب سےاہم بات رفتار ہے۔ اب آپ دیکھیے کہ یورپین یونین سے امریکا میں 3دن میں پیسا پہنچتا ہے۔ اس کے برعکس آپریٹر کے ذریعے یہ کام منٹوں میں ہوجاتا ہے، لیکن آج کے دور میں غیررسمی اور غیرقانونی رقوم بھیجنے کے ذرائع خطرناک بھی ہیں ،پکڑے جانے پر رقم ضبط ہونے کے ساتھ سزا بھی مقدر بنتی ہے۔ لانڈرنگ ہونےوالا پیسابالواسطہ طورپر جرائم کے کام آتا ہے۔ دنیا میںہر سات میں سےایک فرد ،بیرونِ ملک کام کرتا ہے،لہٰذا تارکین ِوطن کے لیے بہتر قوانین بنانے ، آسانیاں فراہم کرنےاوررہائش و سفر کی لاگت کم کرنے کی ضرورت ہے۔

گورنر اسٹیٹ بینک آف پاکستان نےآن لائن پے منٹ کا افتتاح کرتے ہوئے کہاکہ ’’سوچیے!اگر ترسیلات ِزر نہ ہوں، تو ملک کا کیا حشر ہوگا ؟خاص طور پر جب عدم توازن ادائیگیوں کا مسئلہ بھی گمبھیر ہو۔‘‘ اس میں کوئی شک نہیں کہ ترسیلات زر ازحد ضروری ہیں۔ برآمدات کازرِ مبادلہ حاصل کرنے کاسب سے بڑاذریعہ ترسیلات ہی ہیں۔ اسٹیٹ بینک کے گونر کو ڈرانے کے بہ جائے، برآمدات اور ترسیلات بڑھانے کے آئوٹ باکس اقدامات کی تخلیق کرنی چاہیے، حالاں کہ 2016-17ءمیں جولائی سے نومبر تک 7.9ارب ڈالرز ترسیلات ِزر موصول ہوتی تھیں،2017-18ءمیں 8ارب ڈالر موصول ہوئیں۔ اُمید ہے کہ 2019ءمیں 9ارب ڈالرز تک اضافہ ہوگا،جب کہ ذرائع کے مطابق اس اضافے کو 12.5فی صد شمار کیاجائے گا،کیوں کہ روپے کی قدر میں 30فی صد کمی آئی ہے ۔سعودی عرب اِس وقت بھی ترسیلات کا سب سے بڑاذریعہ ہے، جہاں سے ہر ماہ 400 ملین ڈالرز(40کروڑڈالرز) اور متحدہ عرب امارات سے 343ارب ڈالر زموصول ہوتے ہیں ،البتہ اگست 2018ءمیں 461ارب ڈالرز آئے ۔ان دونوں ممالک سے حالیہ دنوں میں بہتر تعلقات کا اشارہ ملا ہے، اُمید کی جاتی ہے، کہ قطر اور ان ممالک میں مزید محنت کش جائیں گے اورہمارے ملک میں بھی سرمایہ کاری میں اضافہ ہوگا۔یعنی سرنگ کے آخری سِرے پر کچھ کرنیںتو نمودار ہوئی ہیں۔ تاہم ملک میں بد عنوانی کسی حد تک قابو میں آئے اوربد عنوان لوگوں سے زرِمبادلہ کی صورت کچھ وصول ہوجائے، تو پاکستان کے بگڑے حالات بہتر ہوسکتے ہیں ۔سرمایہ داری نظام میں بھی ملائشیا اور انڈونیشیا جیسے ممالک نے ترقی کی ہے، البتہ اس نظام میں ضروری ہے کہ بے ایمانی بھی ایما ن داری سے ہو اور ٹیکس کا نظام بہتر، کنزیومر اِزم ،کریڈٹ کارڈز ،قرضوں پر نہ ہو اور آمدنی اتنی ہو کہ بچت میں اضافہ ہوسکے۔ حکومت ِ پاکستان کو گلف کو آپریشن کاؤنسل (جی سی سی) ممالک بحرین، کویت، قطر اور اومان کی طرف بھی دھیان دینا ہوگا، جہاں سے ترسیلات کی شرح منفی 7.78فی صد ہے۔ حکومت ِ وقت قرضوں کی ادائی کا ہدف پورا کرنے میں مصروف عمل ہے، جس کے نتیجے میں 12ارب ڈالر زسود پر مل چکے ہیں اور تیل بھی اُدھار مل جائے گا، لیکن جب تک اپنے قدرتی وسائل اور انسانی سرمائے کو استعمال نہ کیا جائے، ملک نہیں چل سکتا۔انسانی سرمائے کو 70سال میںو وکیشنل تربیت اور اعلیٰ تعلیم کے ذریعے سرمایہ نہیں بنایا گیا۔ اسی لیے آج ہم سائنس اور ٹیکنالوجی کے میدان میں کہیں کھڑے نظر نہیں آتے ،ورنہ سی پیک سے بھرپور فائدہ اٹھاتے۔

سرمایہ دارانہ نظام سےتعلق رکھنے والے ماہرین ِ معاشیات نے ترسیلات ِزر کےمعاشی اثرات کا جائزہ لیتے ہوئے ،وصول اور موصول کرنے والےممالک یا اُن کے ہائوس ہولڈ کا جائزہ لیا ،جو ممالک جغرافیائی طور پرترقی یافتہ ملکوں کے قریب ہیں، اُن کو قدرے دور دراز ممالک سے زیادہ فائدہ ہوتا ہے، لیکن جہاں تک غربت میں کمی کے اثرات کی بات ہے ،تو غربت پر ترسیلاتِ زر سے کسی بھی قسم کے مثبت اثرات مرتّب نہیں ہوتے،البتہ غربت کی سطح میں کچھ کمی آجاتی ہے۔ جن موصول کنندگان کو رقوم ملتی ہیں، ان کے بچّوں کو تعلیم، گھر بنانے کی سہولت میسر آجاتی ہے، البتہ معاشی شرح ِنمو، آمدنی پر کوئی اثرمرتّب نہیں ہوتا۔ چین اور ہندوستان میں بھی آمدنیوں میں بہت فرق ہے۔ جب تک دولت کی تقسیم منصفانہ نہ ہو ترسیلاتِ زر، جی ڈی پی فی کس اضافہ، قرضہ جات یا بیرونی سرمایہ کاری سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ایک رپورٹ کے مطابق بھارت کے 4بڑے سرمایہ داروں کے پاس 80کروڑ آبادی سے زیادہ دولت ہےاوردنیا میں 1200مال دار ترین لوگوں کے پاس آدھی دنیا سے زیادہ دولت ہے۔ امریکا میں ہونے والے مظاہروں میں کہا جاتا ہے کہ ایک فی صدامریکی مال داروں کے پاس امریکا کی 60فی صد دولت ہے۔ عالمی مارکیٹ کو اِس وقت سب سے سنگین مسئلہ یہ درپیش ہے کہ عالمی وسائل و دولت پر چند ملٹی نیشنلز اور وینچرز کمپنیاں قابض ہوتی جا رہی ہیں، جن کو انسانی فلاح سے زیادہ اپنے منافعوں میں دل چسپی ہے۔ اس طرح دولت کے اِجارہ دارانہ ارتکاز سے قوّتِ خرید سکڑتی جارہی ہے، ایسا ہونے سے بھی دنیا سرد بازاری کی لپیٹ میں آجاتی ہے اور سرمایہ کاروں کی پیداوار فاضل ہو کر بے مصرف ہوجاتی ہے ۔اسی لیے چین اپنی سرمایہ کاری کا پھیلائو چاہتا ہے اور امریکا اس سے خائف ہے۔دنیا میں زائد پیداوار کا مسئلہ بھی درپیش ہے ،اسی لیے چین اور امریکا کے مابین تجارتی سرد جنگ جاری ہےاور فرانس میں خونی احتجاج بھی ہو رہا ہے۔یہ اس بات کا عندیہ ہے کہ عالمی سطح پر زائد پیداوار اور صارفین کی سکڑتی ہوئی قوّتِ خرید نے کساد بازاری کو جنم دیا۔ یہی وجہ ہے کہ نوبیل انعام یافتہ اور عالمی بینک کےسابق صدر، جوزف اسٹک گلٹز نے ایک مضمون میں لکھا ہے کہ سرمایہ دارانہ ترقی بے رحم ہورہی ہے ،اسے رحم دل بنانے کے لیےسوشلزم کی شراکت ضروری ہے۔ دنیا کے زیادہ تر ممالک عدم تجارتی ادائیوں کا شکار ہیں، فائدہ بینکوں، آئی ایم ایف اور ملٹی نیشنل کمپنیوں کو ہورہا ہے۔ عالمی اِجارہ دار مٹھی بھر ہیں اور دولت کا ارتکاز دنیا کو تباہ کر رہا ہے۔ ظاہر ہےپاکستان جیسا ملک کب تک ترسیلات ِزر اور قرضوں پر معیشت کو دھکّادیتا رہے گا؟ادائیگیوں کا عدم توازن اگر جاری رہا، تو 2019ءمیں ہم قرضوں کے بوجھ تلے مزیددبیں گے اوراس امر سے آنکھیں نہیں چرائی جا سکتیں کہ یہ قرضے قومی وسائل کے استحصال کی خوف ناک صُورت اختیار کرجائیں گے۔ ایک نقص یہ بھی ہے کہ ہم جمہوری خواہشات میں جتنا آگے ہیں، جمہوری تدبّر میں اتنا ہی پیچھے ہیں۔ جمہوریت کا فروغ تو صرف سائنس کے معاشی ردّعمل کے ذریعے اور سوشل اسٹرکچر کے ارتقا سے حاصل ہوتا ہے۔ روپے کی قدر کا جائزہ لیا جائے، تو یہ بات بالکل عیاں ہے کہ سابق وزیرِ خزانہ ،اسحاق ڈار نے 101روپے فی ڈالر پر روپے کی قدر کو فکس رکھ کر مصنوعی معیشت کو فروغ دیا، اس وجہ سے برآمدات20 ارب ڈالر سے آگے نہ بڑھ سکیںاورجب روپے کی قدر کو ایڈجسٹ کیا گیا، تو 30فی صد مختص کرنا پڑا، جس سے معاشی صورت حال مزید ابتر ہوگئی۔ یہ بات ذہن نشین کرلینی چاہیےکہ پاکستان کے جتنے بھی وزرائے خزانہ مثلاً پاکستان کے پہلے وزیر ِخزانہ ،محمّد شعیب سے لے کر اسد عمر تک ،جو بھی آئے وہ آئی ایم ایف کے نصاب سے آگے نہیں نکل سکے۔ اس لیے شعبۂ زراعت میں بھی پس ماندہ رہے، اب ضروری ہے کہ پاکستان کی موجودہ حکومت ،ریونیو کو بڑھانے کے لیےٹیکس نظام کو درست خطوط پر استوار کرے۔ کنزیومر ازم سے زیادہ بچت پر دھیان دے۔ ترسیلاتِ زر بھیجنے والوں کو وی آئی پی درجہ دے، جو 20ارب ڈالر زاپنی محنت کے نتیجے میں پاکستان بھیجتے ہیں، برآمدات بڑھانے کے لیےسہولتیں دینے کے علاوہ دنیا بھر میں پاکستانی سفارت خانوں کو پاکستان کی مارکیٹ کرنے پر زور دیا جائے، جو 70برسوں میں کبھی نہیں ہوا۔ ٹیکنالوجی کے ذریعے ترسیلات ِزر کی رفتار کو بڑھایا جائے۔ وزیر ِ اعظم عمران خان کواکانومک ڈپلومیسی کے ذریعے جی سی سی ممالک سے روابط بڑھانےاور ہنگامی بنیادوں پر و وکیشنل ٹریننگ کےانتظامات کرنے چاہئیں۔ علاوہ ازیں، منی بجٹ میں گیس کی قیمتوں کو واپس لینا، بجلی و گیس چوروں کو گرفتار کرنااور تیل کی کم قیمتوں سے فائدہ اٹھاتے ہوئے افراط زر پر قابو پانا چاہیے۔ اوران اقدامات کے ساتھ اگرزراعت کے شعبے کو اوّلیت دی جائے ،تو پھر ایک نئے پاکستان کی اُمّید کی جاسکتی ہے۔

تازہ ترین