اسلام آباد (طارق بٹ) سابق میئر کراچی مصطفی کمال کی بے نام جماعت اور آفاق احمد و عامر خان کی ایم کیو ایم حقیقی کے درمیان حیران کن مماثلتیں اور فرق پائے جاتے ہیں۔ مصطفی کمال نے الطاف حسین کو تنقید کا نشانہ بنایا ہے اور متحدہ قومی موومنٹ کے تمام رہنماؤں اور کارکنوں کے لیے اپنی پارٹی کے دروازے کھلے رکھنے کا اعلان کیا۔ آفاق احمد کی حقیقی نے بھی یہی کام کیا تھا اور الطاف حسین کی کراچی پر مضبوط گرفت کمزور کرنے کی کوشش کی تھی۔ حقیقی کے باضابطہ قیام سے پہلے دونوں گروہوں کے درمیان کچھ عرصے سے کراچی میں جنگ چل رہی تھی جس میں کئی جانیں ضائع ہوئیں۔ اس تشدد کے بعد متحدہ کے بطن سے حقیقی نے جنم لیا۔ عامر اور آفاق اختلا فا ت سے قبل الطاف حسین کے دست راست سمجھے جاتے تھے ، لیکن مصطفیٰ کمال کا ایسا کوئی پس منظر نہیں کہ وہ متحدہ سے طویل تعلق پر شرمسار ہوں۔ لیکن جہاں تک انیس قائم خانی کی بات ہے تو ان کے بارے میں مختلف جے آئی ٹی رپورٹس میں بہت کچھ لکھا جاچکا ہے۔ جب آفاق نے الطاف پر تنقید کی تو اس وقت تک متحدہ کے قائد پاکستان میں تھے اور بعد میں لندن گئے۔ جب کہ مصطفیٰ کمال کی الطاف حسین کے خلاف مہم میں الطاف پہلے سے ہی لندن میں ہیں اور برطانوی شہری ہیں۔ حقیقی کے قیام کے وقت الطاف حسین کی صحت اچھی تھی اور وہ صدمے سہہ سکتے تھے، لیکن اب تو سنا ہے کہ ان کی حالت بہت خراب ہے، انہیں متعدد خطرناک بیماریاں لاحق ہیں، اور وہ وہیل چیئر کے بغیر ہل بھی نہیں سکتے۔ خود متحدہ ان کی صحت کے بارے میں شدید تشویش کا شکار ہے، کیونکہ انہیں پاکستان سے کوئی اچھی خبر ویسے ہی نہیں مل رہی۔ حقیقی کے وقت ایم کیو ایم کے خلاف آرمی چیف جنرل آصف نواز نے فوجی آپریشن شروع کیا ہوا تھا۔ جب کہ مصطفیٰ کمال نے اپنی جماعت کا نرم آغاز کیا ہے اور خود کو کراچی کے مسیحا کے روپ میں پیش کیا ہے۔ لیکن متحدہ کے خلاف کراچی میں ٹارگٹڈ آپریشن چل رہا ہے اور اس کے کارکن قتل، اغوا برائے تاوان، ٹارگٹ کلنگ، بھتہ خوری جیسے سنگین جرائم میں گرفتار ہوئے ہیں۔ حقیقی کے قیام پر ایم کیو ایم نے سخت اور بھرپور ردعمل کا مظاہرہ کیا تھا تاہم اب متحدہ مصطفیٰ کمال کے اقدام پر پہلے جیسا ردعمل دکھانے کے قابل نہیں۔ اس وقت وہ کافی مشکل میں ہے کیونکہ اس کے عسکری ونگ کو توڑنے کے لیے مربوط کوششیں جاری ہیں۔ یہی عسکری ونگ حریفوں کو ڈرانے کے لیے اس کی بنیادی طاقت تھا۔ اس سے پہلے کراچی کی دیواروں پر جو قائد کا غدار ہے وہ موت کا حق دار ہے کے نعرے ظاہر ہوجاتے تھے، جو سب سے پہلے 1990 میں استعمال ہوئے۔ ایم کیو ایم کا حلف وفا دار ی کچھ اس طرح ہے ’میں اپنی پوری زندگی ایم کیو ایم اور الطاف حسین کا وفادار رہوں گا۔ میں اپنی ماں کی قسم کھا کر کہتا ہوں کہ ایم کیو ایم یا الطاف حسین کے خلاف کوئی بھی سازش یا کسی بھی طرح کا نقصان دہ اقدام میرے علم میں آیا تو میں فوراً الطاف حسین کو آگاہ کروں گا چاہے وہ سازشی میرا بھائی، بہن، ماں، باپ، کوئی بھی رشتے دار یا دوست ہی کیوں نہ ہو۔ میں قسم کھاتا ہوں کہ کسی بھی معاملے میں الطاف حسین کا فیصلہ حتمی و آخری فیصلے کے طور پر قبول کروں گا۔ اگر میں نے الطاف حسین کے کسی بھی فیصلے سے کوئی اختلاف کیا تو میرا شمار غداروں میں ہوگا‘‘۔ لیکن مصطفی کمال کے الطاف حسین پر حملوں کے بعد کراچی کی دیواروں پر پہلے جیسا دھمکی آمیز ردعمل نظر نہیں آیا کیونکہ متحدہ شدید دباؤ میں ہے اور اب طاقت پر مبنی اقدامات کر نہیں سکتی۔ اپنے قیام کے وقت حقیقی کو حکومت کی مکمل آشیرباد حاصل تھی۔ لیکن پھر سیکورٹی اسٹیبلشمنٹ کی اعلیٰ قیادت کی تبدیلی اور پرویز مشرف کے مارشل لاء کے نفاذ کے بعد متحدہ مشرف کی مضبوط اتحادی بن گئی اور وفاق و سندھ میں حکومت کا حصہ بن گئی، جس کے بعد عامر و آفاق کی 2004 میں گرفتاری سے ان کی آزمائش کا طویل دور شروع ہوا۔ اس دوران متحدہ نے کراچی پر راج کیا اور ریاستی مشینری کی طاقت کے ذریعے اپنے لوگوں کو نوازا۔ اس نے اپنا کنٹرول مضبوط کیا اور فوجی آمر کی پشت پناہی اور نوازشات کی وجہ سے کوئی اس کے راستے میں نہ آسکا۔ انہی دنوں 2005 میں الطاف حسین نے بھارت میں تقریر کرتے ہوئے پاکستان کے قیام کو سب سے بڑی غلطی قرار دیا۔ حکومت میں موجود کسی بھی شخص کو ان سے اس معاملے پر سوال پوچھنے تک کی جرات نہ ہوئی۔ حقیقی عوام میں مقبولیت حاصل نہ کرسکی۔ صرف ایک مرتبہ ہی اسے کراچی میں قومی و صوبائی کی اسمبلی کی چند نشستیں مل سکیں۔ آج لوگوں کو اس بات میں کوئی شبہ نہیں کہ مصطفیٰ کمال کو بھی حقیقی کی طرح کی سرکاری آشیربار حاصل ہے۔ پہلے ایم کیو ایم سے نمٹنے کے لیے طاقت و تشدد کا راستہ اختیار کیا گیا لیکن اب ایک ایسا آدمی سامنے لایا گیا ہے جس کا کراچی کے عوام میں قدرے بہتر تاثر ہے جو اس نے کراچی میئر کے طور پر کام کرکے بنایا ہے۔