• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
ہمارے زمانے میں موبائل فون اور فیس بک جیسی آفتیں نہیں تھیں ،ٹی وی کے حملے کی شدّت کم تھی ،لہٰذا فرصت کا خاصا وقت ہوتا ،جس میں لوگ مطالعہ کرتے تھے، اب سیکھنے سکھانے کا رجحان ہے اور نہ یہ کام کرنے والے لوگ رہے 

کیا میں اور کیا میرا تخلیقی سفر ، چہ پدی چہ پدی کا شوربہ!کچھ عرض کرتا ہوں کہ، لکھنے کے مرض کے جراثیم مجھ میں کہاں سے آئے۔ مجھے نہیں معلوم ، لیکن پڑھنے کی بیماری کے جراثیم بڑے بھائی سلیمان پاریکھ صاحب سے لگے۔ یہ جو پڑھنے کا شوق ہے یہ ایسی بری بیماری ہے کہ ایک دفعہ لگ جائے تو سمجھیں کہ زندگی بھر کا روگ ہے۔ اسی سے دوسرا خطرناک مرض یعنی لکھنے کا شوق پیدا ہوتا ہے۔ ان دونوں کا کوئی علاج نہیں۔ یہ مرتے دم تک مریض سے چمٹے رہتے ہیں بلکہ مریض کی وفات کے بعد اس شوق کا خمیازہ لواحقین کومرحوم کی پیچھے چھوڑی ہوئی لا تعدادکتابوں اور کئی من ردّی کی صورت میں بھگتنا پڑتا ہے( جس شے کو ادیب اور شاعرحضرات ’’مسوّدے ‘‘سمجھتے ہیں اُس کو اُن کے گھر والے ردی کہتے ہیں )۔

مطالعے کے ہم جیسے مریض کچھ پڑھے بغیر سو نہیں سکتے۔اس بیماری میں کبھی کبھی وہی حالت ہوجاتی ہے جو عاشقوں کی ہوتی ہے، یعنی اگر کسی رات پڑھنے کو کچھ میسر نہ ہو تو اس مرض میں مبتلا لوگ آہیں بھرتے ہیں ، کروٹیں بدلتے ہیں اور کوئی چارہ نہ پاکر اس دن کے اخبار کو تیسری چوتھی دفعہ پڑھنے لگتے ہیں ۔ اس میں ضرورت ِ رشتہ کے اشتہارجیسی مزاحیہ چیزیں ، وزن کم کرنے کی دوا کے اشتہار جیسی المیہ چیزیں اور ٹینڈر نوٹس اور وزرا کے بیانات جیسی بے سروپا چیزیں تک کئی کئی بارپڑھ ڈالتے ہیں(اور پھر پچھتاتے ہیں )۔ کچھ یہی کیفیت لکھنے والوں کی ہوتی ہے جب وہ کچھ لکھنا چاہیں اورحسب ِ منشا لکھ نہ سکیں۔یہ دونوں بیماریاں بہت تکلیف دہ ہیں، اسی لیے ہماری نئی نسل ان سے بچنے کی دعا کرتی ہے اور دعا کی قبولیت کے بعد جو وقت بچتا ہے اس میں فیس بُک پر ’’فیس ‘‘ دیکھتی ہے، تاکہ’’بُک ‘‘نہ پڑھنی پڑے۔ ان انگریزی الفاظ کا برا مت مانیے، نئی نسل کچھ ایسی ہی اردو بولتی ہے ، بلکہ ان کی اردودانی کا یہ عالم ہے کہ یہ خودی کا مطلب’’ سیلفی ‘‘سمجھتے ہیں ۔ کیونکہ سیلف (self) کا مطلب ہے خود ، توان دونوں الفاظ کے آخر میں ’’چھوٹی ی ‘‘ لگا دی جائے تو ان کے خیال میں ایک ہی مطلب بنتا ہے

لیکن ہمارے زمانے میں موبائل فون جیسی بلائیں اور فیس بک جیسی آفتیںنازل نہیں ہوئی تھیں اس لیے بچوں کے رسالے اور کہانیاں پڑھنا عام سی بلکہ لازمی سی بات تھی۔ٹی وی معاشرے پر حملہ آور ہوچکا تھا لیکن اتنی شدت سے نہیں ، کیونکہ خدا کے فضل وکرم سے صرف ایک ہی چینل تھا، یعنی اپنا پیارا اور ہر حکومت کی آنکھوں کا تارا ،پی ٹی وی۔ لہٰذا فرصت کاخاصا وقت ہوتا تھا اور لوگ اس میںاخبار، رسالے، کتابیں پڑھا کرتے تھے۔ میں نے بھی بہت کچھ پڑھا اور پڑھنے کی چاٹ لگانے میں ہمارے بڑے بھائی صاحب کا بہت دخل تھا۔ وہ رسالے اور کتابیں خریدتے تھے، پڑھتے تھے اور جمع کرتے تھے،کچھ تو میرے تایا کو بھی پڑھنے کا شوق تھا۔ و ہ ہندوستان سے گجراتی کے مزاحیہ رسالے منگواتے تھے اور کبھی والد صاحب وہ رسالے عاریتاً لے آتے اور والدہ ان میں سے کچھ ہمیں پڑھ کر سناتیں۔ بڑے بھائی صاحب جب گھر پر نہیں ہوتے تو ان کے رسا لے چپکے چپکے نکال کر پڑھ ڈالتا ۔ پڑھنے کی اس بیماری میں اضافہ اس وقت ہوا جب میں خود بھی اپنے جیب خرچ سے رسالے ،بچوں کے ناول اور کہانیاں خریدنے اور پڑھنے لگا۔میرا خیال ہے کہ ادیب بننے کے لیے پڑھنا بلکہ بہت پڑھنا بہت زیادہ ضروری ہے۔

بہت پڑھنے کے بعد خواہ مخواہ لکھنے کی خواہش پیدا ہوتی ہے، مجھے بھی ہوئی۔لکھنے کی خواہش کھجلی کی طرح ہوتی ہے یعنی جب تک پوری نہ کرلی جائے چین نہیں پڑتا،گویا جیسے کھجانا ہی پڑتاہے چاہے کچھ ہوجائے اسی طرح لکھنا ہی پڑتا ہے، چاہے کچھ ہو یا نہ ہو۔کھجانے کی طرح لکھنے میں انسان نہ وقت دیکھتا ہے اور نہ موقع محل ،اور نہ ’’جائے واردات ‘‘۔ کسی تعلی اورخود ستائی کے خیال کے بغیر عرض کرتا ہوں کہ میں نے بچوں کے لیے لکھنا اس وقت شروع کردیا تھا جب میں خود بچہ تھا، کچھ ابتدائی تحریریں رسالوں کے مدیران نے رد کردیں (اور اردو ادب کو عظیم ترین شاہ کاروں سے محروم کردیا)بلکہ اس زمانے میںایسی صورت حال کے لیے ایک جملہ بہت مشہو ر تھا ، وہی دہراناچاہیے یعنی میری تحریریں’’ردی کی ٹوکری کی نذر کر د یں‘‘۔لیکن لکھنے کی بیماری شدت سے حملہ آور ہوچکی تھی ،لہٰذا ہمت نہیں ہاری اور کچھ نہ کچھ لکھ کر بچوں کے رسالوں میں بھیجتا رہا۔ آخر اپریل ۱۹۷۳ء میں رسالےتعلیم وتربیت میں میری پہلی کہانی اُس مستقل سلسلے کے تحت چھپی جس کا عنوان ’’ننھے ادیب ‘‘ تھا۔اُس وقت میں ننھا تو خیر نہیں تھا لیکن میری عمر پورے پندرہ سال بھی نہ تھی۔ میرا یہ حال تھا کہ ہوائوں میں اُڑتا پھرتا تھا ، پائوں زمین پر نہیں پڑتے تھے اور ایک ایک کو پکڑ پکڑ کر رسالہ دکھاتا تھا، حالانکہ وہ ایک مختصر سی کہانی تھی اور بس ایسی ہی تھی جیسی ایک چودہ پندرہ سال کے بچے کی پہلی تحریر ہوسکتی ہے۔ البتہ اس کی ایک خاص بات اس کا شگفتہ یا نیم مزاحیہ اسلوب تھا،بعد میں زیادہ تر تخلیقی تحریریں جو مجھ حقیر فقیر کے قلم سے نکلیں وہ بیشتر مزاحیہ تھیں۔ بچوں کے بعد باقاعدہ یعنی بڑوں کے لیے بھی مزاح لکھا، اس کے بعد مزاح پر تحقیق کی اور پی ایچ ڈی کا تحقیقی مقالہ بھی اردو نثر میں مزاح پر لکھا۔کیوں لکھا؟ یہ تو معلوم نہیں ۔ شاید مزاج ہی ایسا تھا یا ماحول کچھ ایسا ملا تھا ۔مزاح اور مزاج میں بس اتنا ہی فرق ہوتا ہے جتنا ان کے املا میں ہے ، یعنی بس ایک نقطے کا۔ مراد یہ کہ مزاح دراصل مزاج ہی ہوتا ہے۔ مزاح کی حس فطرت کا عطیہ ہوتی ہے اور سازگار ماحول اسے جِلا بخشتا ہے ۔

تعلیم وتربیت کے بعد ہمدرد نونہال میں کچھ کہانیاں’’نونہال ادیب ‘‘ کے زیر عنوان شائع ہوئیں ۔ اس میں نونہال کے مدیر مسعود احمد برکاتی صاحب کا بڑا ہاتھ تھا۔ساتویں جماعت میں تھا تو ان سے ملنے ان کے دفتر چلا گیا ، کچھ تحریریں بھی لے کر گیا تھا۔ بہت شفقت سے ملے اور سمجھاتے رہے کہ کس طرح لکھنا چاہیے اور بڑے مثبت انداز میں اصلاح کی۔ اس کے بعد انہوں نے اپنے رسالے میں میری کچھ تحریریں شائع بھی کیں۔ اس کے بعد چل سو چل۔بیس سال کی عمر میں بچوں کے لیے ایک جاسوسی ناول لکھا جسے معروف اشاعتی ادارےنے فوراً ہی شائع بھی کردیا۔ یہ میری پہلی کتاب تھی۔ پھر ادبی پرچوں میں لکھنا شروع کیا۔ بچوں کے لیے لکھی گئی مزاحیہ کہانیوں کی ایک اور کتاب ہمدرد فاونڈیشن نے شائع کی ، پھر مزاحیہ اورطنزیہ مضامین کی ایک کتاب اشاعت پذیر ہوئی، پھر پی ایچ ڈی مقالہ اور پھر لغات اور خدا جانے کیا کیا کچھ۔

پہلی کہانی کی اشاعت کے کوئی بارہ تیرہ سال بعد یہ ہوا کہ رسالوں کے مدیران تحریرکی فرمائش کرنے لگے۔برکاتی صاحب خط لکھتے کہ ان کے رسالے کے لیے کچھ لکھوں۔ خاص نمبر کے لیے برکاتی صاحب اصرار کرکے لکھواتے اور حکیم محمد سعید شہید کو مجھ ناچیز کی کوئی تحریر پسند آتی تو بطور خاص خط لکھ کر داد دیتے۔اللہ ُ غنی ! یہ اس بچے کے لیے کتنا بڑا اعزاز تھا جس نے نونہال پڑھ کر لکھنا سیکھا بلکہ لکھنا تو بعد میں سیکھا پہلے اردو سیکھی۔ نونہال ، حکیم سعید صاحب اور برکاتی صاحب ہمای زبان ، ادب اور ملک کے کتنے بڑے محسن تھے اس کا اندازہ اس قوم کو نہیں ہے۔نونہال نے نصف صدی سے زیادہ عرصے تک بچوں کی مثبت ذہن سازی اور کردار سازی کی۔میرے ادیب بننے میں اس زمانے کے بچوں کے رسالوں اور ان کے مدیروں کی توجہ اور شفقت کا بڑا ہاتھ ہے۔لکھنے کا آغاز بچوں کے لیے لکھنے سے کیا۔اس میں میری والدہ کی حوصلہ افزائی بھی شامل تھی۔میری کوئی تحریربچوں کے کسی رسالے میں شائع ہوتی تو خاص طور پر پڑھتیں اور مجھ سے تعریفی انداز میں ذکر بھی کرتیںکہ تمھاری کہانی چھپی ہے۔ اللہ کروٹ کروٹ جنت نصیب کرے۔آمین۔ ساتھ ساتھ بچوں کے لیے سنجیدہ اور اصلاحی کہانیاں بھی لکھتا رہا، انگریزی سے کچھ تراجم بھی بچوں کے لیے کیے۔ شادی ہوئی تو بیوی ایسی ملی جسے پڑھنے کا شوق تھا ۔میرے ساتھ رہ کر وہ اور زیادہ بگڑگئی یعنی شوق لت میں بدل گیا۔ لہٰذا دونوں دیوانوں کی خوب گزرنے لگی۔ پہلا بیٹا ہوا تو اسے بڑے چاو سے اردو اور انگریز ی خود پڑھائی اور کہانیوں کی چاٹ ڈال دی۔ کچھ عرصے بعد یہ ہونے لگا کہ بچوں کا کوئی رسالہ گھر میں آتا تو تینوں میں کھینچا تانی ہوتی کہ پہلے کون پڑھے گا۔ جب کچھ لکھتا تواس کے چھپنے سے پہلے بیگم صاحبہ مسودے کو تنقیدی نظر سے ملاحظہ فرماتیں اور غالباًازراہِ حوصلہ افزائی ایک عالمانہ شان سے ارشاد فرماتیں کہ ’’تحریر بُری نہیں ہے ‘‘۔ گویا اقربا پروری سے کام لے کر رعایتی نمبر وں سے پاس کردیتیں اور میں دانت پیستا رہ جاتا (شریف آدمی اور کر بھی کیا سکتا ہے ۔ آخر اسے گھر میں رہنا ہوتا ہے )۔ پھر یہ بھی ہونے لگا کہ کچھ لکھنے بیٹھتا،خاص طور پر بچوں کے لیے ،تو بیگم صاحبہ اوران کے لاڈلے دونوں بار بار جھانکتے کہ کیا لکھا جارہاہے۔ بچپن میں میرے پہلے قاری میرے دو چھوٹے بھائی ہوا کرتے تھے۔ شادی کے کچھ عرصے کے بعد میرے پہلے قاری بیگم اور بیٹا ہوتے اور پہلے ناقد بھی۔ ایسا بھی ہوتا کہ کہانی لکھ رہا ہوں اور تیسرے صفحے پر پہنچ کر پہلے دو صفحے دیکھنے چاہے کہ پیچھے کیا لکھ آیا ہوں تو انکشاف ہوتا کہ شریک ِ حیات شریک ِ صفحات بھی ہیں ۔ پہلا صفحہ ان کی ناقدانہ صلاحیتوں کا تختۂ مشق ہے اور دوسرے پر ان کے راج دُلارے رائے زنی فرمارہے ہیں ۔ پھر بڑوں کے لیے بھی مزاح لکھا جو رسائل ،ڈائجسٹساور ایک روزنامے میں شائع ہوا۔زندگی کا پہلا تنقیدی مضمون اور پہلا کالم ایک روزنامے میں چھپا۔ زندگی میں پہلا شخصی خاکہ بھی عروج صاحب کا لکھا جو ایک اخبارمیں شائع ہوا۔ میری ادبی اور ذہنی تربیت میں عروج صاحب کا بڑا ہاتھ ہے۔میںکوئی حماقت کرتا تو مسکراتے اور کچھ مفید ادبی ، علمی اور عملی مشورے دینے لگتے۔ انھوں نے ہی سمجھایا کہ ادبی پرچوں میں لکھا کروتاکہ ادبی حلقوں میں پہچان بنے۔ بعد میں فرمان فتح پوری صاحب نے بھی یہی ہدایت کی۔جمیل الدین عالی صاحب بھی اپنے جنگ کے کالم میں اس ناچیز کا ذکر کرکے حوصلہ بڑھاتے تھے۔ ہائے کیسے کیسے عظیم اور محبت کرنے والے لوگ تھے اس شہر میں ، جو اپنے چھوٹوں اور نئے لکھنے والوں کی دل داریاں بغیر کسی ذاتی منفعت کے خیال سے اور زبان و ادب کے فروغ کی خاطر کرتے تھے۔

قصہ طویل ہے ، مختصراً یہ کہ بہت سے اہل علم اور اہل قلم سے ، ان کی کتابوں سے بہت کچھ سیکھا اور اب بھی سیکھ رہا ہوں۔   

تازہ ترین