• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
کراچی کبھی مشرق کی ملکہ کہلاتا تھا،لیکن اب یہ شہر ِ خرابات ہے جس کا کوئی ماسٹر پلان نہیں اور ذمّے داروں کو اس کی فکر بھی نہیں
 دارالحکومت کو کراچی سے منتقل کرنے کے ایّوب خان کے فیصلےنےاس شہر کے مستقبل کے بارے میں کی گئی تمام تر منصوبہ بندی کا ستیاناس کردیا اور پھر کراچی میںانتظامی سطح پر ایسی افراتفری پھیلی کہ کچھ بھی صحیح نہیں رہ سکا
کراچی کے مسائل حل کرنےکے لیے ضروری ہے کہ شہرکی ضروریات کے مطابق ماسٹر پلان بنایاجائے اوراس کی بڑھتی ہوئی آبادی کے تناسب سے پانی اور سیوریج کی سہولتوں کی فراہمی کےلیے موثر منصوبہ بندی کی جائے ۔ اس مقصد کے لیے پورے شہر کے لیے ایک بااختیار ادارہ قائم کیاجائے

عروس البلاد،کراچی ،نے ماہی گیروں کی چھوٹی سی بستی سے اپنے سفر کا آغاز کیا تھا۔پھر وہ وقت بھی آیا جب اسے مشرق کی ملکہ کا خطاب دیا گیا۔حقیقت یہ ہے کہ اسے جدید شہر کی شکل انگریزوں نے دی اورباقاعدہ منصوبہ بندی سے بسایا۔لیکن جب یہ ہمارے ہاتھ لگا تو ہم نے ایسا بنادیا کہ لوگوں نے اسےنیا نام دے دیا،ٍیعنی ’’کچراچی‘‘۔

قیامِ پاکستان کے وقت کراچی کی کُل آبادی چار لاکھ نفوس سے کچھ ہی زیادہ تھی۔لیکن 1947سے 1951 کے درمیان بھارت سے تقریبا چھ لاکھ مہاجر ین اس شہر میں آئے اور اسے اپنا مستقل ٹھکانہ بنالیا۔ان مہاجرین میں سے زیادہ تر کا تعلق غریب طبقے سے تھا اور وہ نئے شہر میںبے آسرا تھے۔تاہم اس شہر کےپرانے باسیوںنے انہیں ہاتھوں ہاتھ لیا اور ایثار و قربانی کی مثالیں قائم کیں ۔ چوں کہ کراچی نئی مملکت کا دارالحکومت قرار پایا تھا لہذا بہت سے سرکاری ملازمین بھی اپنے خاندانوں کے ساتھ یہاں آئے۔اس کے علاوہ ملک کے شمالی علاقوںسے بہت سےافراد روزگار کی تلاش میں کراچی آئے ۔ تا ہم مو خرا لذ کر افرادکی کُل تعداد مہاجرین کی تعدادکے پانچ فی صد کے مساوی تھی۔شہر کی آبادی میں اچانک اتنا زیادہ اضافہ ہوجانے کی وجہ سے یہاں کے بنیادی ڈھانچے اور تمام سہولتوں پر زبردست دباؤ پڑا۔

کراچی امپرو و منٹ ٹرسٹ کا قیام

مہاجرین کو جہاں کُھلی جگہ ملی انہوںنےجیسے تیسے وہاں سر چھپانے کاعارضی ٹھکانہ بنالیا۔بعد میں حکومت نے انہیں کئی مقامات پر اراضی الاٹ کی۔شہر بھر میں پھیلے ہو ئے ان افراد کو پینے کا پانی اورصحت و صفائی کی سہولتیں فرا ہم کرنے کی غرض سے شہر کی انتظامیہ نے جو بنیادی ڈھا نچا بنایا،ایک اندازے کے مطابق اُس وقت اُس پر سا ت تاآٹھ کروڑ روپے خرچ ہوئےتھے۔لیکن آبادی کا دباؤاس رقم کے مقابلے میںبہت زیادہ تھا۔چناں چہ وقت گزرنے کے ساتھ پرانے مسائل شدّت اختیار کرنے او ر نئے مسائل سامنے آنے لگے۔ان مسائل سےنمٹنےکےلیےحکومت نے 1950میں کراچی امپرو و منٹ ٹرسٹ کے نام سے ادارہ قائم کیا ۔ 1957میں اس ادارے کا درجہ بڑھاکر اس کا نام کراچی ڈیولپمنٹ اتھارٹی(ادارہ ترقّیاتِ کراچی) رکھ دیا گیا۔

پہلے ماسٹر پلان کی تیّاری

کراچی امپروومنٹ ٹرسٹ نے 1952میں سوئیڈن کے کنسلٹنٹس کی ایک فرم،ایم آر وی کے تعاون سے کر ا چی کے لیے پہلا ماسٹرپلان بنایا تھاجو گریٹر کراچی پلا ن یا ایم آر وی پلان کے نام سے مشہور ہوا ۔ تا ہم 1951 سے 1959کے درمیانی عرصے میں ملک میں سیاسی عدم استحکام ہونے کی وجہ سے اس پلان پر عمل درآمد ہونے کا فیصلہ نہیں کیا جاسکا تھا۔اس ماسٹر پلان کی تیاری کے عمل میں کئی خلایا نقائص تھے۔مثلا اس کام کے لیے کوئی ڈیٹا بیس نہیں بنایا گیا تھا اور منصوبوں پر عمل درآمد کے مرحلے میں پیش آنے والے مسائل کے ضمن میں کوئی تحقیق نہیں کی گئی تھی۔دوم یہ کہ گریٹر کراچی پلان اس مفروضے کو مدّ ِنظر رکھ کر بنایا گیا تھا کہ 2000میں شہر کی آبادی 30 لا کھ نفوس پر مشتمل ہوگی۔تاہم یہ مرحلہ 1969ہی میں آچکا تھا۔

اُ س وقت کے منصوبہ ساز صرف مہاجرین کی آبادکاری اور انہیں زندگی کی بنیادی سہولتیں فراہم کرنےکے نقطہ نظرسے منصوبے بنارہے تھے۔انہوں نے شہرمیںجس طرح بستیاں بسانے کا منصوبہ بنایا تھا وہ زمینی حقائق کے خلاف تھا۔علاوہ ازیںشہر کے پرانے علاقے سے ہٹ کر انتظامی مرکز بنانے کا تصوّر بھی اس پلان کا حصّہ تھا ۔ اس پر طرفہ تماشایہ کہ بے گھروں کو ریاست کی جانب سے گھر بناکر دینے کے پورے منصوبے کو مذکورہ انتظامی مرکز کی تشکیل و تعمیر سے مشروط کردیا گیا تھا۔ظاہر ہے کہ اُس وقت نوزائیدہ مملکت ِ پاکستان کے پاس اتنے وسائل نہیں تھے۔چناں چہ اس منصوبے پر عمل درآمد نہیں ہو سکا۔

کراچی کی تباہی میں ایّوب خان کا کردار

ایوب خان نے 1958میں ملک میں مارشل لا نافذ کردیا۔چوں کہ وہ عوام کے ووٹس کے بجائےطاقت کے زور پر آئے تھے اور ان کے ہاتھ میں بندوق تھی لہذا خود کو کسی کے سامنے جواب دہ تصوّر نہیں کرتے تھے ۔ انہو ں نے آمروں ہی کے انداز میں فیصلے کیے۔انہوںنے کراچی میں انتظامی مرکزقائم نہ کرنے کا فیصلہ کیا کیوں کہ ان کی نیت دارالحکومت کو کراچی سے منتقل کرنے کی تھی اور بعد میںانہوں نے ایسا ہی کیا۔ان دواہم فیصلوںنے کراچی کے مستقبل کے بارے میں کی گئی تمام تر منصوبہ بندی کا ستیا ناس کردیا۔دراصل مذکورہ دونوں فیصلوں کے بعد کراچی میںانتظامی سطح پر ایسی افراتفری پھیلی کہ پھر کچھ بھی صحیح نہیں رہ سکا۔ایوب خان نے مطلق العنان ہونے کے نشے میں یہ فیصلے کرتے ہوئے اتنا تک نہیں سوچا کہ یہ لاکھوں لوگوں کی زندگیوں اور ان کے مستقبل کا معاملہ ہے ۔

وہ دراصل طلبا اور مزدوروںکےسیاسی تحریکوں میں شامل ہوکر اسٹریٹ پاور بننے سے خائف تھے۔وہ سمجھ چکے تھے کہ کراچی میں ملک کی سب سے بڑی مڈل کلاس رہتی ہے اور یہاں کا غریب طبقہ بھی ملک بھر میں سب سے زیادہ تعلیم یافتہ ہے ۔لہذا یہاںسب سے زیادہ سیاسی شعور ہے اور کراچی ملک بھر کی سیاسی اور سماجی تحریکوں کا مرکز ہے۔ہر آمر کی طرح وہ بھی عوام کے سیاسی شعورسے خا ئف رہتے تھے۔چناں چہ انہوں نے فیصلہ کیا کہ نہ کراچی دارالحکومت رہےگا ،نہ یہاں ان کی حکومت کو کوئی مفلوج کرسکے گا۔انہیں کیا معلوم تھا کہ شہری منصوبہ بندی کس چڑیا کا نام ہے اور شہر بسانا کو ئی کھیل نہیں ہوتا۔ چنا ں چہ جس طرح گولی پستول سے نکلتے ہوئے یہ نہیں دیکھتی کہ سامنے کون ہے، اُسی طرح انہوں نےکراچی کے بار ے میں مذکورہ دو اہم فیصلے کرتے ہوئے یہ نہیں سوچا کہ مستقبل میںکراچی پر ان کے کیا اثرات مرتّب ہوں گے ۔وہ ایسا سوچتے بھی کیوں؟انہیں کون سا کسی کو جواب دینا تھا ۔ لیکن تاریخ تو انسان کے ہر عمل کا جواب دیتی ہے ۔ تا ریخ نے ایوب خان کو بھی جواب دیا۔اُس نے بتایا کہ شاہوں کے محلّات خواہ کہیں بھی ہوں،پاتال میں یا بلند ترین پہاڑ کی چوٹی پر،عوام جب بپھرتے ہیں تو بڑی سے بڑی زمینی طاقت اور بدترین مظالم بھی ان کا راستہ روک نہیں پا تے ۔ ایوب خان نے کراچی سے سیکڑوں میل دور اسلام آباد میں اپنے تئیں ’’محفوظ آشیانہ‘‘ بناکر اپنی آمریت کو دوام بخشنے کا پورا پورا انتظام کرلیا تھا،لیکن جس شہر کی منصوبہ بندی کو وہ برباد کرکے گئے تھے،اسی کے با سیوںنے ان کے خلا ف چلنے والی سیاسی تحریک کا ہراول دستہ بن کر ان کی پوری بازی الٹ دی تھی۔سیانے سہی کہتے ہیں کہ انسانوں کی زندگیاں برباد کرنے والوں کا انجام بہت ذلت آمیز ہوتا ہے۔

گریٹر کراچی ری سیٹلمنٹ پلان

1958میں حکومت نے ایتھنز ،یونان،سے تعلق رکھنے والی ایک کنسلٹنٹ فرم ڈوکسی ایڈز ایسوسی ایٹس کے ذریعے گریٹر کراچی ری سیٹلمنٹ پلان بنوایا۔اس پلان کی تیاری کے لیے ایک ڈیٹا بیس بنایا گیا اور سروے بھی کیے گئے تھے۔لہذا پہلے کے مقابلے میں یہ پلان کافی حد تک بہتر تھا۔اس پلان کے تحت شہر کے مرکز سے پندرہ تا بیس میل کے فاصلے پر نئی بستیاں(ٹاؤن شپس)بسانے کے کام کا آغاز ہوا۔اس کے لیے کورنگی اور نئی کراچی کے علاقوں کا انتخاب کیا گیا۔تاہم اس منصوبے پر جزوی کام ہوا اور 1964میں گریٹر کراچی ری سیٹلمنٹ پلان کو بھی طاق میں رکھ کر بھلادیا گیا۔اس کے بعد بھی وقفے وقفے سے بعض کوششیں ہوئیں ،مگر ان کا انجام بھی پہلے جیسا ہی ہوا۔

ماسٹر پلان ڈپارٹمنٹ بنتا ہے

وقت گزر رہا تھا،ایک جانب کراچی کے بارے میں سرکاری حکمتِ عملیاں اور منصوبے ناکام ہورہےتھےاور دوسری جانب شہر کی آبادی اور مسائل تیزی سے بڑھ رہے تھے۔شہر کے مسائل سے نمٹنے کے لیے حکومت نے اقوامِ متحدہ سے مدد کی درخواست کی تو 1968میںاقوامِ متحدہ کے ترقیاتی پرو گر ا م(یو این ڈی پی)نے حکومتِ پاکستان کی مشکل آسان کرنے کے لیے دستِ تعاون بڑھایا ۔ اس کے نتیجے میں ایک نیم خودمختار ادارہ ماسٹرپلان ڈپارٹمنٹ کے نام سے وجود میں آیا۔اس کے علاوہ ایک امر یکن ۔ چیک فرم کو کے ڈی اے کا کنسلٹنٹ مقرر کیا گیا ۔ماسٹر پلان ڈپارٹمنٹ نے 1974سے 1985کے لیے کراچی کا ماسٹر پلان بنایا۔اس پر عمل درآمد کرانے کی ذمّے داری مذکورہ کنسلٹنٹ فرم کودی گئی تھی۔تاہم مذکورہ پلان کی بنیادیں بھی حقیقت پر نہیں رکھی گئی تھیں،چناں چہ وہ بھی ناکام ہی ثابت ہوا۔دراصل یہ سارے پلانزبے گھر اور غریب افراد کو گھر فراہم کرنے اور غریبوں کو شہر کے مرکز سے دور لے جانے کے نکات کے گرد گھومتے تھے۔ایسی کوششیں وقتا فوقتا بعد میں بھی ہوتی رہیں مگر ،مرض بڑھتا گیا ،جوں جوں دوا کی، کے مصداق کراچی کے مسائل ہر گزرتے دن کے ساتھ بڑھتے اور پے چیدہ تر ہو تے گئے۔

بعد کے مرحلے میں کراچی ڈیولپمنٹ پلان 2000 اور کراچی اسٹریٹجک ڈیولپمنٹ پلان 2020سامنے آیا۔لیکن پہلے کے مقابلے میں آج کراچی کے زیادہ علاقوں میں گٹر اُبل رہے ہیں،بلڈنگ بائی لاز اور بلڈنگ کوڈز کی زیادہ خلاف ورزیاں ہورہی ہیں،گندگی کے زیادہ ڈ ھیر زیادہ علاقوں میں دیکھنے کو ملتے ہیں اور بہت سےپرا نے مسائل کے ساتھ روزانہ بہت سےنئے مسائل سا منے آتے رہتے ہیں۔

حقیقت تسلیم،مگر عمل کچھ نہیں

کراچی کا ماسٹر پلان نہ ہونے کی حقیقت تمام ذمّے داران تسلیم کرتے ہیں ،مگر کوئی بھی یہ بھاری پتھر ہلانے کی کوشش نہیں کرتا۔30 مارچ 2017کواس وقت کے گورنر سندھ ،محمد زبیرسے گورنر ہائوس میں ایسوسی ایشن آف بلڈرز اینڈ ڈیولپرز(آباد)کےتیرہ رکنی وفدنے محسن شیخانی کی قیادت میں ملاقات کی تھی۔اس موقعے پر گفتگو کرتے ہوئے سابق گورنر کا کہنا تھا کہ کراچی ملک کا اقتصادی ہب اور ایک بڑے صنعتی زون کا حامل شہر ہے جہاں پورے ملک سے لوگ روزگار کے حصول کےلیے آکر آباد ہیں۔بدقسمتی سےیہ شہربغیر کسی ماسٹر پلا ن کے پھیلتا گیا جس سے دیگر مسائل کے ساتھ رہائش کا مسئلہ بھی سنگین ہورہا ہے ۔

کراچی کےڈپٹی میئرڈاکٹر ارشد عبداللہ وہرا نے 3اگست 2017 کو کراچی کے مطالعاتی دورے پر آئے ہوئے سیکریٹیریٹ ٹریننگ انسٹی ٹیوٹ اسلام آباد میں39 ویں او ایم جی بیج کے 44ویں سی ٹی پی کورس کے شرکا کی کے ایم سی بلڈنگ آمدپر انہیں بلدیہ عظمیٰ کراچی کے فرائض و اختیارات کے حوالے سے بریفنگ دیتے ہوئے کہا تھا :’’کے ایم سی کو 30 ارب روپے کی کمی کا سامناہے ۔ مالیاتی نا انصافیوں، اختیارات پر قدغن، ناقص منصوبہ بندی اور بلدیاتی سہولتوں کے فقدان کے باعث شہر کچر ے کا ڈھیر بن چکا ہے۔ کراچی کے لیے 20 سالہ ماسٹر پلان بنانے کی ضرورت ہے۔ان کے بہ قول ملک اور صو بے کو سب سے زیادہ ریونیو دینے والے شہر کراچی کے ساتھ سندھ حکومت نے معاشی نا انصافی کی جس کی وجہ سےیہ شہر کچی آبادی میں تبدیل ہوتا جارہا ہے۔شہر کے مسائل وقت گزرنے کے ساتھ بڑھتے گئے،لیکن ان کے حل پرکوئی توجہ نہیں دی گئی۔ کراچی کو پانی و بجلی کی عدم دست یابی، فراہمی و نکاسی آب کے ناقص نظام اور صحت و صفائی کے شعبے کی تباہ حالی جیسے سنگین مسائل کا سامناہے جس کے لیے شہر کے منتخب نمائندے مسلسل آواز اٹھا رہے ہیں، لیکن کوئی سننے والا نہیں۔ اگر یہی صورتِ حال رہی توآنے والے وقت میں شہرکا 70 فی صد حصّہ کچی آبا د یو ں پر مشتمل ہوگا۔ شہر کی منصوبہ بندی اور ترقی پر توجہ نہیں دی گئی۔ کراچی شہر کا ماسٹر پلان اورپلاننگ اس و قت کی ہے جب شہر کی آبادی 60 لاکھ تھی، وفاقی اور صو با ئی حکو مت کراچی کو ایسا مکمل اور جامع ماسٹر پلان دیں جو شہر کی موجودہ آبادی کے لحاظ سے ہو۔ کراچی سے حکومت کو جوریونیو ملتا ہے،چند برسوں کا چارٹ بنایا جائے تو معلوم ہوجائے گا کہ کراچی پراس میں سے کتنا خرچ کیا گیا اور دیگر شہروں پر کتنا خرچ کیا گیا‘‘۔

سندھ کے سابق وزیر اطلاعات و بلدیات شرجیل انعام میمن بھی فروری 2015ء میں یہ کہہ چکے ہیں کہ کراچی کا ازسر نو ماسٹر پلان مرتب کرنے اور سڑکوں کو عوام کے لیے قابل استعمال بنانے کی ضرورت ہے۔

مسائل کی جڑ کاٹنے کی ضرورت

کراچی کو مسائل کاجنگل کہیں تو غلط نہیں ہوگا۔ دنیا کے چند بہت زیادہ گنجان آباد شہروں میں شمار کیےجانے والے اس شہر کے مکین قدم قدم پر مسائل اور مشکلات کا شکار ہیں، اس شہر کے لوگوں کو پینے کا صاف پانی میسر ہے نہ شہر میں سیوریج کا کوئی مناسب انتظام ہے۔کوڑا کرکٹ اٹھانے اوراسے ٹھکانے لگانے کانظام تو عرصہ ہوا اپنی افادیت کھوچکاہے اور اب اس شہر میں جا بہ جا کوڑے کرکٹ کے ڈھیر ہی نظر آتے ہیں۔

ماسٹر پلان اور ایک با اختیار ادارہ

کراچی کے مسائل کاجائزہ لینے کے لیےڈیڑھ دو برس قبل منعقدہ ایک اجلاس کے بعد ماہرین نے یہ نتیجہ اخذ کیا تھاکہ شہر کے باسیوں کو درپیش مسائل کابنیادی سبب شہر کا بے ہنگم پھیلائو ہے۔ان کے مطابق شہر کے ماسٹر پلان کو وقت کی ضرورت کے مطابق بنانا اوربڑھتی ہوئی آبادی کےتناسب سے پانی، سیوریج اوردیگر تمام سہولتوں کی فر ا ہمی کا واحد ادارہ بنانامسئلے کا واحد حل ہے۔اس اجلاس میں ماہرین نے مسائل کاجائزہ لینے کے بعدیہ نتیجہ اخذ کیا تھا کہ چوں کہ شہر میں رہائشی ضروریات میں اضافے کی وجہ سے اب یہ شہر افقی پھیلائوکی جانب گام زن ہے اور چھوٹے چھوٹے پلاٹس پر (جہاں پہلے ایک منزلہ مکانات بنے ہوئے تھے)اب 4-4 اور5-6 منزلہ تک عما ر تیں تعمیر ہوچکی ہیں اور اس تناسب سے پانی کی فراہمی اور سیوریج کی نکاسی کا انتظام نہیں ہے ۔چناں چہ مسائل روز بہ روزسنگین تر ہوتےجارہے ہیں۔ماہرین کےاس تجز یے کی روشنی میںاس وقت سندھ بلڈ نگ کنٹرول اتھارٹی (جس کے پاس کراچی کے ماسٹر پلا ن ڈیولپمنٹ کی اتھا ر ٹی بھی ہے)نےاپنے ایک اجلا س میں کراچی میں گرائونڈ پلس ٹو یعنی تین منزلوں سے زیادہ اونچی عمارتوں کی تعمیراور مکانوںکے پورشن فرو خت کرنےپرپابندی عاید کردی تھی۔واضح رہے کہ سند ھ بلڈنگ کنٹرول اتھار ٹی نے یہ کارروائی سپریم کورٹ کی جانب سے کراچی میں پا نی اور سیوریج کے مسائل کے حوالے سے دیے گئے ایک حکم کی تعمیل کرتے ہوئے کی تھی۔پھر گزشتہ برس سپریم کورٹ نے بھی شہر میں اسی نوعیت کی پابندی عاید کی تھی جو بعد میں ختم کردی گئی تھی۔

ماہرین کے بہ قول سندھ بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی کے اس نوعیت کے فیصلوں سے کراچی کے بے ہنگم افقی پھیلائو پر قابو پانے میں کسی حد تک مدد مل سکتی ہے اور اس سے شہر میں پانی اور سیوریج کے بڑھتے ہوئے مسائل میں اضافے کا سلسلہ کسی حد تک رک سکتاہے۔لیکن محض بلند وبالا عمارتوں کی تعمیر پر پابندی سے یہ مسئلہ مکمل طورپرحل نہیں ہوسکتا، کیوں کہ اس طرح کے فیصلوں سے کراچی کےباسیوںکےلیےرہائش کامسئلہ زیادہ سنگین ہو جائےگااورشہر میں،جو پہلے ہی بے ہنگم کچی آبادیوں میں گھرا ہوا ہے، مزید کچی آبادیاں وجود میں آناشروع ہو جائیں گی۔ظاہرہے کہ ان نئی کچی آبادیوں کے مکینوں کو بھی چوں کہ پانی اور سیوریج کی سہولتوں کی ضرورت ہوگی اس لیے یہ مسائل اپنی جگہ نہ صرف یہ کہ موجود رہیںگے بلکہ بے ہنگم کچی آبادیوں کے وجود میں آجانے کی وجہ سے مزید سنگین ہوجائیں گے۔

ماہرین کے مطابق اس مسئلے کے حل کے لیے ضرورت اس بات کی ہے کہ شہرکی ضروریات کے مطابق ماسٹر پلان بنایاجائے اوراس کی بڑھتی ہوئی آبادی کے تناسب سے شہریوں کوپانی اور سیوریج کی سہولتوں کی فراہمی کےلیے موثر منصوبہ بندی کی جائے۔اس مقصد کے لیے پورے شہر کے لیے ایک بااختیار ادارہ قائم کیاجائے جو بلالحاظِ زمینی ملکیت پورے شہر میں تعمیرات اور بنیادی سہولتوں کی فر ا ہمی کے لیے منصوبہ بندی کرے اور اس ادارے کی منصو بہ بندی کے مطابق تعمیرات کی اجازت بھی ایک ہی ادارہ دے تاکہ قوانین پر عمل درآمد کرانے میں کوئی مشکل پیش نہ آئےاور شہر کو منظم اندازمیں ترقی کرنے کاموقع مل سکے ۔یہ ادارہ وقتا ً فوقتاً ماسٹر پلان پر نظر ثانی کرتا رہے اور شہر کی بدلتی ہوئی صورت حال کے مطابق اس میں ترامیم وتبد یلیا ں کرتا رہے۔

شہر کامنتشر انتظامی کنٹرول

آج اس شہر کے انتظامی کنٹرول کی صورت حال یہ ہے کہ یہ کسی ایک ادارے کے ماتحت نہیں ہے بلکہ مختلف علاقوں کی منصوبہ بندی اور ان علاقوں کے لوگوں کوبنیادی سہولتوں کی فراہمی کی ذمے داری مختلف بلدیاتی ، صوبائی اور وفاقی اداروں کے پاس ہے۔ظاہر ہے کہ ان میں سے ہر ادارہ اپنی صوابدید کے مطابق منصوبہ بندی کرتاہے ۔ لہذا پورا شہر ان اداروں کی کھینچا تانی کی وجہ سے افراتفری کا شکار ہوگیاہے۔ اس کا نتیجہ یہ ہے کہ اگر بلدیہ کراچی کے زیر انتظام علاقے میں کسی عمارت کی تعمیر پر پابندی عاید کی جاتی ہے تو اس سے ملحق کنٹونمنٹ بورڈکے زیر انتظام علاقے میں اس سے زیادہ بلند عمارت کی تعمیر کی اجازت دے دی جاتی ہے۔ اس کے علاوہ سڑکوں کی مرمت اور تعمیر کے مسئلے پر ان اداروں کے درمیان حدود کے تنازعے پر کھینچا تانی جاری رہتی ہے۔ اگر بلدیہ اپنے علاقے میں کو ئی سڑک تعمیر کرتی ہے تو اس کے برابر میں واقع کنٹو نمنٹ بورڈکے علاقے میں سیوریج کے ناقص نظام کی وجہ سے گندا پانی بلدیہ کی نئی تعمیر کردہ سڑک پر پھیل کر اسےناقابلِ استعمال بنادیتاہےیا اس کے برعکس ہوتا ہے۔

زمینوں اورجائیداد کا کاروبار کرنے والوں کے لیے منافع بخش میدان

ماہرینِ شہری منصوبہ بندی کے مطابق شہر کاانتظام بھانت بھانت کے اداروں کے پاس ہونے کی وجہ سے یہ شہر زمینوں اورجائیداد کاکاروبار کرنے والوں کے لیے کھیل کا منافع بخش میدا ن بن گیاہے۔مختلف تعمیراتی ادارے رشوت اوراثرورسوخ کی بنیاد پر شہر کے مختلف اداروں سے زمینیں الاٹ کراتے ہیں یا پرانی رہائشی اسکیمز کو تجارتی اسکیمزمیں تبدیل کراکے ایک یادومنزلہ عمارتوں کی جگہ 10-10 منزلہ پلازا تعمیر کرلیتے ہیں۔ ظاہر ہے کہ ایک یادومنزلہ عمارت کی جگہ 10 منزلہ عمارت کی تعمیر سے پانی ،سیوریج ،بجلی ،گیس ،پارکنگ اور دیگر بنیاد ی ضروریات بھی اسی قدر بڑھ جاتی ہیں۔ لیکن کوئی ادارہ اس طرح کی عمارتوں کی تعمیر کی اجازت دیتے ہوئے دو سرے متعلقہ ادارے سے کوئی این او سی حاصل کرنا تو درکنار مشورہ تک کرنا گوارا نہیں کرتا۔اس طرح یہ شہر ایک لاوارث بچے کی شکل اختیار کرگیاہےجس سے فائدہ تو سب اٹھانا چاہتے ہیں اور اٹھارہے ہیں، لیکن اس کی ذمے داری لینے کو کوئی تیار نظر نہیں آتا۔

کراچی کےصرف تیس فی صد حصّے پر میئراوربلدیہ عظمی کراچی کا اختیار

یہ بات بہت عجیب و غریب لگتی ہے ،لیکن حقیقت یہ ہی ہے کہ مختلف وفاقی، صوبائی اور خودمختار ادارے 2 کروڑسے زیادہ کی آبادی والے شہر کے باسیوں سے محاصل اور دیگر مدات کے نام پر بھاری رقوم بٹورتے ہیں ۔ لیکن اس شہر کی بلدیہ شہر کی صرف30 فی صد اورسول ایوی ایشن اتھارٹی،ریلوے، کنٹونمنٹ بورڈز ،پورٹ قاسم اتھارٹی ، اسٹیل ملز ،ایم ڈی اے،ایل ڈی اے اور دیگر ادارے 60فی صدسے زاید اراضی کے مالک ہیں ۔ یعنی کراچی کے میئر کے زیر انتظام بلدیہ عظمی کراچی ،ڈی ایم سیز اور یونین کونسلز کو شہر کی ایک تہائی زمین پر بھی کنٹرول حاصل نہیں ہے۔شہر کی باقی دوتہائی سے زیادہ زمینیں مختلف سرکاری اداروں نے آپس میں تقسیم کررکھی ہیں،جہاں بلدیہ کراچی یا میئر کراچی کا کوئی حکم یا اختیار نہیں چلتا۔ان علاقوں میں متعلقہ محکموں کے قوانین ہی نافذ ہیں اور ان ہی پر عمل درآمد ہوتاہے۔ اس ضمن میں دل چسپ بات یہ ہے کہ اگرچہ کراچی کی دوتہائی اراضی پر مختلف سرکاری اداروں کا کنٹرول ہے،لیکن ان میں سے کوئی بھی اپنے علاقوں میں رہنے والوںکو بنیادی سہولتیں فراہم کرنے کو تیارنظر نہیںآتا اور ان علاقوں میں شہری سہولتوں کے فقدان کا الزام بھی بلدیہ کراچی کے سر تھوپنے کی کوشش کی جاتی ہے۔

پندرہ مختلف محکمے شہر کی زمینوں کے دعوے دار

کراچی کے انتظامی معاملات پر گہری نظر رکھنے والوں کا کہنا ہے کہ اس وقت 15 مختلف وفاقی، صوبائی، اورخودمختار ادارے کراچی کی زمینوںکے دعوےدار ہیں ۔ سرکاری ریکارڈ سے ظاہرہوتاہے کہ سول ایوی ایشن اتھارٹی ، پاکستان ریلوے، کنٹونمنٹ بورڈز ،پورٹ قاسم اتھارٹی،کراچی پورٹ ٹرسٹ،پاکستان اسٹیل ملز، ایکسپورٹ پروسیسنگ زونز،پاکستان پبلک ورکس ڈپارٹمنٹ ،پا کستان کوسٹ گارڈ، وزارت پیٹرولیم اور قدرتی وسائل ،ا یو ے کیو ٹرسٹ بورڈ اور اسپورٹس بورڈز مجموعی طورپر اس شہر کے کم وبیش ایک تہائی حصے یعنی 32.1 فی صد زمین کے مالک ہیں۔دوسری جانب صوبائی حکومت کے زیر ا نتظام ادارے، جن میں سندھ ریونیو بورڈ، سندھ کچی آبا د یز اتھارٹی ،گوٹھ آباد اسکیم، کوآپریٹو سوسائٹیز،سندھ انڈ سٹر یل ٹریڈنگ اسٹیٹ،ملیر ڈیولپمنٹ اتھارٹی، لیاری ڈیو لپمنٹ اتھارٹی ،کراچی ڈیولپمنٹ اتھارٹی، اوقاف اور مذ ہبی امور کا محکمہ اور سندھ پولیس شامل ہے،مجموعی طورپر شہر کے36.8 فی صد حصے کے مالک ہیں۔شہر کا باقی 30.09 فی صد حصہ بلدیہ عظمیٰ کراچی، 6 ضلعی بلدیاتی کارپوریشنز ، ضلع کونسل کراچی اور246 یونین کونسلز کے کنٹرول میں ہے۔اس طرح کراچی شاید دنیا کا واحدمیگا پولیٹن شہر ہے جس کی زمین کے اتنی بڑی تعداد میں دعوےدار موجود ہیں اور ان کے علاقوں میں بلدیاتی قوانین کااطلاق نہیں ہوتا۔

اس صورت حال میں کراچی کے میئر وسیم اختر کا یہ موقف غلط نہیں ہے کہ کراچی کی زمینوں کے اتنی بڑی تعداد میں دعوے داروں کی موجودگی کے سبب انتظامی ڈھانچامتاثر ہوتاہے۔اس کے علاوہ مختلف محکموںمیں موجودبدانتظامی،زمینوں کی ملکیت کے حوالے سے تنازعات ،شہر میں موجود بڑی تعداد میںپس ماندہ بستیاں ، ٹر یفک کا غیر معمولی دباؤ اور ناقص انفرااسٹرکچر اس شہر کی منصوبہ بندی اور سسٹم کی ناکامی کا سبب بنتاہے۔

ٹیکس سب کو چاہیے،لیکن۔۔۔۔

شہر کی زمین کی ملکیت کے بڑی تعداد میں دعوے داروں کی وجہ سے اب بلدیہ عظمیٰ کراچی، ضلعی کونسلز،کے ڈی اے ،6 کنٹونمنٹ بورڈز، پورٹ قاسم اتھا ر ٹی ، پاکستان ریلوے ،پاکستان اسٹیل، سائٹ اورشہر کا کمشنر ی کا نظام شہریوں کو صحت وصفائی اور تعلیم کی سہولتیں فراہم کرنے،سڑکوں کی تعمیر ،صفائی اور دیکھ بھال، پلوں کی تعمیر، اسٹریٹ لائٹس کی تنصیب اور ان کی دیکھ بھال کا ذمے دار ہے۔یہ ادارے شہر میںاشتہاری بورڈز کی تنصیب ،رہائشی اورتجارتی عمارتوں کی تعمیر کی منظوری ،پارکس اور کھیل کے میدانوں کی دیکھ بھال ،تجاوزات کے خاتمے ،آگ بجھانے کے انتظامات،برساتی نالوں کی صفائی، شہریوں کو پینے کے صاف پانی کی فراہمی اور گندے پانی کی نکاسی کے انتظامات کے نام پر ٹیکس وصول کرتے ہیں اورٹیکسوں کی وصولی کےضمن میں ان میں سے کوئی بھی محکمہ کسی سے پیچھے نظر نہیں آتا۔ماہرین کے مطابق جب تک یہ صورت حال تبدیل نہیں ہوتی اور شہر کوکسی ایک با ا ختیار ادارے کے ماتحت کرکے اس کے غریبوں، امیروں اور بااثر افراد کو ایک ہی قانون کاپابند نہیں بنایاجاتا اُس وقت تک کراچی کے مسائل پوری طرح حل نہیں ہوسکتے۔

تازہ ترین