• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

یہ کہنا ابھی قبل از وقت ہے کہ آیا متحدہ قومی موومنٹ (ایم کیو ایم پاکستان) زندہ ہوسکتی ہے اور بہت سے دھڑوں کے ساتھ 22 اگست 2016 کے منظر نامے میں خود کو پہلے جیسا بنا پائے گی لیکن ایک دھڑا جو انتخابی حمایت قائم رکھ سکے گا اور اپنا کھویا ہوا مقام واپس حاصل کرنے کی جدوجہد کر رہا ہے ، وہ ایم کیو ایم پاکستان ہے۔ کیا وہ خود کو زندہ یا بہتر کرپائے گا، یہی اصل چیلنج ہے۔ 2018 ناصرف مہاجر سیاست کیلئے بحرانی مرحلہ تھا بلکہ دیگر عناصر کو بھی ایک طرف رکھ دیا حتیٰ کہ ایم کیو ایم کے اپنے حلقوں نے تسلیم کیا کہ ان کی تقسیم نے خود اپنے ووٹرز کو تحریک انصاف کی جانب موڑ دیا یا پھر ووٹرز نے فیصلہ کیا کہ وہ گھر ہی میں رہیں۔ آج ایم کیو ایم جماعت کے طور پر مختلف دھڑوں میں بٹی ہوئی ہے لیکن جس دھڑے نے اب بھی انتخابی موجودگی برقرار رکھی ہے وہ ایم کیو ایم پاکستان ہے۔ تمام دھڑوں کو ایک پلیٹ فورم پر لانے کیلئے کچھ کوششیں جاری ہیں لیکن ذاتی انا اور قابل اعتماد قیادت کی کمی سب سے اہم مسئلہ دکھتی ہے۔ گزشتہ اتوار کو چند مہاجر رہنماؤں نے پی ایس ی رہنما شبیر قائم خانی کے صاحبزادے کی ولیمہ تقریب میں شرکت کی اور ملاقاتیں کی جن میں انیس قائم خانی، ڈاکٹر فاروق ستار، ڈاکٹر سلیم حیدر اور دیگر شامل تھے لیکن ایم کیو ایم پاکستان سے خصوصی طور پر مرکزی رہنما موجود نہیں تھے۔ ایم کیو ایم لندن کو غیر سرکاری پابندی کا سامنا ہے جسے ممکنہ طور پر نہیں اٹھایا جائے گا، مہاجر ووٹ بھی تقسیم ہوگیا ہے اور 2018 کے نتائج نے بدلتے ہوئے رجحانات کو ظاہر کردیا۔ اب ایسا نظر آتا ہے کہ ایم کیو ایم کے دھڑوں میں ان کے ووٹرز اور حمایتیوں نے اپنے لئے ممکنہ متبادل کے طور پر ایم کیو ایم پاکستان کا انتخاب کرلیا ہے جبکہ دیگر نے تحریک انصاف کا انتخاب کرلیا ہے جس نے گزشتہ انتخابات میں قومی اسمبلی کی 14 نشستیں جیتیں۔ تحریک انصاف اب بھی اس دوڑ میں پیچھے نہیں اور پی ایس 94 میں شکست کے باوجود وہ تمام قومی اسمبلی کی نشستیں بچالیں جو کراچی میں خالی رہ گئی تھیں بشمول پی ٹی آئی چیئرمین عمران خان کی نشست۔ لیکن اس جماعت کے تنظیمی مسائل موجود ہیں جو انہیں بلدیاتی انتخابات میں نقصان پہنچا سکتے ہیں۔ ایم کیو ایم پاکستان کو ان لوگوں کے درمیان کئی مسائل کا سامنا کرنا پڑا بشمول جمات کی حیثیت سے تسلیم کیا جانا جو ہماری سیاسی انجینئرنگ نظام میں اہمیت رکھتے ہیں۔ وہ فوت شدہ ایم کیو ایم لندن کی جانب سے بھی چیلنجز کا سامنا کر رہے ہیں جس کے بائیکاٹ کی اپیل نے ایم کیو ایم کے ووٹرز ٹرن آؤٹ کو نقصان پہنچایا۔ ایک اور عنصر جس نے ایم کیو ایم پاکستان کے ووٹ بینک کو گزشتہ انتخابات میں نقصان پہنچایا وہ تحریک لبیک پاکستان (ٹی ایل پی) کی مضبوط موجودگی تھی جس نے پنجاب مسلم لیگ نون کے لئے مسائل پیدا کئے۔ لیکن حالیہ ضمنی انتخابات میں ٹی ایل پی کو الیکشن کمیشن کی جانب سے انتخاب لڑنے کی اجازت نہیں دی گئی۔ روایتی طور پر ایم کیو ایم کی قوت بلدیاتی انتخابات ہوگئے ہیں اور جب بلدیاتی انتخاب کی بات آئے تو تحریک انصاف بالکل پیچھے ہے اور انہیں ایم کیو ایم اور پی پی پی کے مقابلے میں ناصرف سندھ میں بلکہ پنجاب میں بھی مسلم لیگ نون کے چیلنج کا مقابلہ کرنا پڑسکتا ہے کیونکہ پنجاب میں مسلم لیگ نون اب بھی مضبوط ہے۔

تازہ ترین