• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
کل2012ء ختم ہو کر نیا سال 2013ء شروع ہو جائیگا۔ اخبارات ختم ہونے والے سال کے حالات و واقعات کا جائزہ لیں گے ان میں سیاسی اور معاشی امور کو اہمیت حاصل ہوگی ساتھ ہی نئے سال سے وابستہ امیدوں کا بھی تذکرہ ہوگا۔ امید بڑا سنہرا لفظ ہے امید ہی پر دنیا قائم ہے امید ہی ہمارا دامن خوشیوں سے بھرتی رہتی ہے۔ وہ ماں جس کے پاس کھانے کو دانے نہیں اپنے چھوٹے بچے کو لوریاں دیتی ہے کہ اے میرے ننھے منے نوجوان ہوگا کمائے گا اور ماں باپ کی آنکھوں کی ٹھنڈک بنے گا میں تیری چاند سی بہو لاؤں گی۔ میں تیرے بچوں کو کھلاؤں گی اور اس امید پر وہ آج کے دکھ سکھ، روکھی سوکھی ہنسی خوشی برداشت کرتی ہے۔ ہم پاکستانیوں کے ایک بڑے طبقے کی مثال اس شخص کے مانند ہے جس نے نجومی کو ہاتھ دکھایا۔ اس نے کہا تمہارے چالیس برس بڑی مصیبت سے گزریں گے اس نے بڑے اشتیاق سے پوچھا اور پھر جواب ملا پھر تم اس کے عادی ہو جاؤ گے۔ ہم کسی نجومی یا جوتشی کے پاس جانے کے بجائے حالات و واقعات سے خود ہی اندازہ لگا سکتے ہیں کہ ہمارا آئندہ سال کیسے گزرے گا۔ سب سے اہم مسئلہ امن و امان کا ہے روزگار اور کاروبار بعد کی چیزیں ہیں۔ جان ہے تو جہاں ہے یہاں جان ہی کی خیر نہیں، چھوٹا، بڑا، مرد، عورت، عالم جاہل، سیاست دان اور پولیس و رینجر کوئی محفوظ نہیں۔ سیاست داں یا عالم کا سوگ منایا جاتا ہے اور دو چار مزید بھینٹ چڑھ جاتے ہیں۔ کراچی، کوئٹہ، مستونگ، پشاور، نوشہرہ کوئی جگہ محفوظ نہیں۔ غضب خدا کا قائداعظم کی برسی کے دن کرسمس کے موقع پر کراچی میں 19/افراد ہلاک ہوگئے اور اعلیٰ انتظامیہ کے کان پر جوں تک نہ رہیں گی۔ مجھے 54ء کا وہ دن بھی یاد ہے جب شام کے ایک اخبار نے سرخی جمائی Ten murders a day تو اعلیٰ انتظامیہ میں کھلبلی مچ گئی تھی چونکہ اخبار نے اس کی بنیاد ماہانہ سرکاری شماریاتی جریدے کو بنایا تھا اور راقم اس جریدے کی اشاعت کا ذمہ دار تھا لہٰذا مجھے مرکزی سیکرٹری داخلہ اور انسپکٹر جنرل آف پولیس کے سامنے پیش ہونا پڑا کہ میں بتاؤں میری معلومات کا ذریعہ (سورس) کیا ہے؟ واضح رہنا چاہئے کہ اس وقت بنگلہ دیش ہمارے ساتھ تھا اور ملک کی آبادی 7/کروڑ سے کچھ زائد تھی کل کراچی میں ڈیڑھ گھنٹے میں 7آدمی ہلاک کر دیئے گئے تھے ٹارگٹ کا یہ سلسلہ ابھی بند نہیں ہوگا۔سیاست میں اس وقت انتخابات کا مسئلہ سرفہرست ہے آثار و قرائن کے مطابق یہ آئندہ کم از کم پانچ چھ ماہ تک چلے گا۔ دعوے ہیں کہ انتخابات موخر یا معطل نہیں ہوں گے۔ آج (26/دسمبر) کو وفاقی وزیر اطلاعات نے صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ اسمبلیوں کی تحلیل کے بعد 16/مارچ تک نگراں حکومت قائم ہو جائیگی اس کی نگرانی میں انتخابات ہوں گے اور عوام جسے ووٹ دیں گے وہی تبدیلی لائے گی گزشتہ ہفتہ ایک مذہبی جماعت کے رہنما جو عرصے سے ملک سے باہر تھے واپس تشریف لائے اور لاہور میں ایک بڑے جلسے کا اہتمام ہوا جس میں کافی لوگ شریک ہوئے۔ انہوں نے حکومت کو تین ہفتے کا نوٹس دیا کہ انتخابی نظام آئین کے مطابق بنایا جائے۔ نگراں حکومت قائم کی جائے اور 90دن میں انتخابات مکمل ہو جانا چاہئے اگر ان کا مطالبات نہ مانے گئے تو 14جنوری کو اسلام آباد تک عوامی مارچ ہوگا۔ اس کا جواب یہ دیا گیا کہ طاقت کے ذریعہ تبدیلی لانا مثبت رویہ نہیں تبدیلی کی بات آئینی طریقے سے کرنا چاہئے۔ویسے توقع نہیں مگر تھوڑی بہت گڑبڑ ممکن ہے۔ سیاسی طور پر ایک اور ممکنہ تبدیلی صدر مملکت کا پارٹی کا عہدہ چھوڑنا اور ان کے صاحبزادے کا پارٹی کی قیادت کے سنبھالنے کا ۔ امکان ہے ظاہر ہے کہ نئے قائد کو آزادی سے کام کرنے کے لئے کچھ عرصہ درکار ہوگا عبوری دور میں ان کی رہنمائی کے لئے سینئر اراکین کی کوئی کمیٹی تشکیل دی جا سکتی ہے ایک اور مسئلہ ملک میں بڑھتی ہوئی مہنگائی کا ہے عوام کی روشنی کا واحد ذریعہ مٹی کا تیل ہے جو 40سال پہلے دو روپے گیلن تھا اور آج 103روپے لیٹر ہوگیا ہے عوام سے مراد وہ زیریں طبقہ ہے جو خط افلاس سے تھوڑا اوپر اور اکثریت خط افلاس سے نیچے ہے یہ طبقہ آبادی کا تقریباً 60فیصدی پر مشتمل ہے بنیادی غذائی اشیاء جیسے گندم (آٹا) ٹوٹا اور معمولی چاول، دالوں، گائے کا گوشت تیل، دودھ وغیرہ کا سب سے بڑا صارف ہی یہی ہے ان کی قیمتوں میں اضافہ اس کے نام نہاد بجٹ کو متاثر کرتی ہیں اس طبقے کے ایک بڑے حصہ کا کوئی بجٹ ہی نہیں ہوتا جو مل گیا کھا لیا جو مل گیا پہن لیا۔ بینظیر بھٹو انکم پروگرام سے صرف ایک محدود طبقے کو مستفید ہونے کا موقع ملا ہے غربت میں کمی لانے کا مثبت طریقہ روزگار کی فراہمی ہے۔ یہ بات درست ہے کہ ملازمین کی تنخواہوں، مزدوروں کی اجرتوں میں اضافہ ہوا مگر آمدنی اور مہنگائی میں کوئی متوازن تناسب نہیں اور نہ ایسے کسی توازن کی آئندہ سال توقع کی جا سکتی ہے۔ایک اور مسئلہ جو حکومت کو سراسر نقصان پہنچا رہا ہے کرپشن کا ہے جو حج اور زکوٰة کے مذہبی محکموں تک پہنچ گئی ہے نیب جو ایک سرکاری ادارہ ہے اس نے مختلف ذریعوں سے ہونے سالانہ کرپشن کا اندازہ 4400ارب روپے لگایا ہے ان اعداد پر کابینہ جزبز بھی ہوئی مگر نیب کو اپنے اعداد پر اصرار ہے سخت انتظامات کئے جائیں تو کیا آئندہ سال کرپشن کا خاتمہ ہو سکتا ہے؟ اس کا جواب سوفیصد نفی میں ہے اگر حکومت کی طرف سے سخت اقدامات کئے جائیں تو شاید ان اعداد میں کچھ کمی ہو جائے لیکن کرپشن کا یکسر خاتمہ ناممکن ہے اس کو ابتداء میں تو روکا جا سکتا تھا مگر ذخار سمندر پر بند باندھنا ممکن نہیں۔ بے تحاشہ کرپشن کی وجہ سے وفاقی بجٹ کی آمدنی کے اہداف پورے نہیں ہوئے۔ حکومت غیرضروری اخراجات کم کرنے سے گریزاں نظر آتی ہے۔ سال رواں میں امریکا یا کسی دوسرے ملک سے امدادی قرض ملنے کے امکانات بھی کم ہیں۔ حکومت کو جنوری، فروری میں آئی ایم ایف کی قسط بھی ادا کرنا ہے۔ کالے دھن کو سفید کرنے والی ایمنسٹی اسکیم کو فی الحال ملتوی کر دیا گیا آئی ایم ایف سے فی الحال کسی نئے قرضے کی گفت و شنید بھی شروع نہیں ہوتی۔ لہٰذا بجٹ خسارے میں تاریخی اضافہ متوقع ہے دوسری طرف ڈالر، یورو اور پونڈ کے مقابلے میں روپے کی قدر غیرقیاسی ہوتی جا رہی ہے۔ 20/دسمبر کو امریکی ڈالر انٹر مارکیٹ میں 98.14روپے کی سطح پر پہنچ گیا اسٹیٹ بینک کو لاکھوں ڈالر انٹر مارکیٹ میں داخل کرنا پڑے تو شرح پھر 97.38 پر واپس آگئی مگر یہ کھیل کب تک جاری رہ سکتا ہے؟
اس پس منظر میں نئے سال سے کون سی توقعات وابستہ کی جا سکتی ہے نجومی والی بات صادق آتی ہے کہ پھر ہم بدستور ان گنت مشکلات کو بھگتتے رہیں گے اور انتخابات کے بعد بھی حالات میں کسی بہتری کی امید نہیں۔
تازہ ترین