• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
پاکستان میں سیاسی نقطہ نظر سے2012ء کے آخری دنوں میں دو دھماکے ہوئے ،پہلے ڈاکٹر طاہر القادری نے مینار پاکستان پر ایک بڑا اجتماع کرکے سیاسی قوتوں اور ملکی نظام کو مانیٹر کرنے والوں کو پیغام دیا کہ وہ بھی مارکیٹ میں روپے کی طرح ڈالر کی طرح اہمیت رکھتے ہیں۔ گوکہ ان کے مخالفین اسے غیر اعلانیہ سپانسرڈ شو بھی قرار دے رہے ہیں۔ اس کے بعد بھٹو خاندان کی تیسری نسل کے سپوت بلاول زرداری بھٹو اپنی والدہ کی پانچویں برسی کے موقع پر اپنے نانا کی قائم کردہ پیپلز پارٹی کے سربراہ کے طور پر منظر عام پر آکر جذباتی تقریر سے اپنے سیاسی کیرئیر کا آغاز کرتے ہیں۔یہ دونوں واقعات مستقبل کے حوالے سے معاشی مسائل سے دوچار عوام کی توجہ حاصل کرنے کے لئے ہوئے مگر حقیقت یہ ہے کہ اب ہمارے عوام کو ان سے کوئی سروکار نہیں رہا جس ملک میں بدنظمی ، کرپشن، توانائی کے بحران اور دیگر کئی عوامل کی وجہ سے معیشت کا پہیہ نہ چل رہا ہو ،روزگار کی بجائے بے روزگاری بڑھ رہی ہو، غربت کم ہونے کی بجائے ہر سطح پر ابھررہی ہو، ایسے حالات میں جب ملک میں بجلی اور گیس کی قلت نے ہر شخص کو مشکل ترین حالات سے دو چار کررکھا ہے ایسے موقع پر کون عوام کو روٹی، کپڑا اور مکان دے گا یا دوسری طرف کون ملک میں انتخابی قوانین کو تبدیل کرنے کی جسارت کریگا۔ اس لئے ملک میں جمہوری نظام چلانے والی بڑی پارٹیاں خواہ اقتدار میں ہوں یا اقتدار سے باہر ان میں شخصی آمریت اور موروثی اثرات یعنی خاندانی بالا دستی ہر جگہ نمایاں نظر آتی ہے جو سیاسی پارٹیوں کو کارپوریٹ کمپنیوں کی طرز پر چلاتی ہیں یعنی ہر بڑی سیاسی جماعت میں پارٹی عہدے کلیدی خاندان ہی کے افراد کو ملتے ہیں ۔
اس سلسلہ میں قوم کو سوچنا ہوگا کہ اگر پیپلز پارٹی اس وقت بھٹو خاندان اور صدر زرداری کی ملکیت ہے تومسلم لیگ (ن) بھی میاں نواز شریف کی ملکیت سمجھی جاتی ہے۔ یہی صورتحال مسلم لیگ(ق) کی ہے جس کی ملکیت چودھری شجاعت حسین اور چوہدری پرویز الٰہی کے پاس ہے جبکہ اے این پی ولی خان خاندان کی ملکیت اور متحدہ الطاف حسین کی ملکیت ہے اور اب تحریک منہاج القرآن بھی تو ڈاکٹر طاہر القادری کی ملکیت ہے۔ اس وقت اوپر درج کی جانے والی تمام جماعتوں کے نمائندے پارلیمنٹ کا حصہ ہیں جن کی اکثریت جاگیردار اور سرمایہ دار ہیں، انہیں بے چارے عوام سے کیا لینا دینا اگر انہیں عوام کے مسائل کا احساس ہوتا تو پھر پاکستان میں عوام کی ضروریات کے مطابق اقتصادی پالیسیاں بنانے میں انہیں رکاوٹ ہے۔ اس کے برعکس ڈاکٹر طاہر القادری اور عمران خان کوآئندہ الیکشن میں کتنی سیٹیں ملتی ہیں اور ان کے نمائندے کیا کرتے ہیں۔ اس کے لئے ابھی کافی انتظار کرنا پڑیگا۔ اس انتظار کی گھڑیاں طویل بھی ہوسکتی ہیں جس کی وجوہ کے حوالے سے کئی تبصرے اور سوچ بچار جاری ہے لیکن بطور پاکستانی حالات کا تقاضا ہے کہ پاکستان کو معاشی طور پر مضبوط بنانے کے لئے خاندانی سیاست اور قیادت کے رجحان کی حوصلہ شکنی کی جائے۔
اس سے اگر ایسا نہیں ہوتا تو پھر پارلیمنٹ کے الیکشن فوج کرائے یا عدلیہ اس سے ملکی نظام میں کوئی تبدیلی نہیں آئیگی اور دونوں بڑی جماعتوں کے قائدین کے مخالفین الیکشن کے بعد بھی اس طرح احتجاج کرتے اور ریلیاں نکالتے نظر آئیں گے لیکن کارپوریٹ پاکستان کا خواب تو پورا نہ ہوگا، البتہ بڑی سیاسی پارٹیاں کارپوریٹ کمپنی کے طور پر چلانے کا سلسلہ بڑھ جائیگا اس کو نئے الیکشن میں صرف بلاول بھٹو نہیں، مریم نواز شریف، حمزہ شہباز شریف، مونس الٰہی سب محترک ہوں گے جن کے ریفرنس ان کے خاندان کے بڑے صاحبان ہوں گے۔ کیا ہمارے ملک کے مقدر میں یہی چند خاندان لکھے ہیں ،دنیا بھر میں جس طرح کاروباری اجارہ داری کی حوصلہ شکنی کی جاتی ہے اور معاشی نظام کو جدید کارپوریٹ تقاضوں کے مطابق چلایا جاتا ہے۔
اسی طرح سیاسی میدان میں بھی خاندانی اجارہ داری کی حوصلہ شکنی کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔ اس سلسلہ میں عوام کا بھی رول ہونا چاہئے اب کمپنیوں کو ووٹ دینے کا وقت گزر گیا ۔ اب تو جس پارٹی کا منشور عوامی معاشی مسائل کا حل ہوگا اصولی طور پر اسے ہی پارلیمنٹ میں آنا چاہئے مگر چونکہ جیسے عام انتخابات کے انعقاد پر شکوک و شہبات ہیں اس طرح یہ بھی شک ہے کہ ہم سب سیاسی نظام میں خاندانی اجارہ داری کی جتنی مرضی مخالفت کرتے رہے اگر انتخابات ہوجاتے ہیں تو70فیصد سے زائد یہی لوگ قومی اسمبلی اور صوبائی اسمبلیوں میں نظر آئیں گے جبکہ اس سے پہلے نگران سیٹ اپ میں بھی ٹکٹوں سے محروم لوگ زیادہ اکثریت میں ہوں گے جو بالواسطہ طریقے سے ملک سے زیادہ اپنی دوستیاں اور معاملات نبھانے پر زیادہ توجہ دیں گے۔
تازہ ترین