• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

وفاقی حکومت کی طرف سے جائیدادوں کی قیمتوں کے تعین خدمات پر جی ایس ٹی اور زرعی ٹیکس کی وصولی کا اختیار صوبوں سے واپس لینے کے لئے اعلیٰ اختیاراتی کمیشن قائم کرنے کا فیصلہ بہت دوررس نتائج کا حامل اور اس امر کا متقاضی ہے کہ اس پر مزید غور و خوض کیا جائے کیونکہ اس پر آئین میں18ویں ترمیم کے تحت صوبوں کے اختیارات میں اضافے کے حساس معاملہ پرنئی بحث چھڑ سکتی ہے اور وفاق پاکستان کی آئینی حدود کے بارے میں تحفظات جنم لے سکتے ہیں۔ اخباری اطلاعات کے مطابق وزارت خزانہ نے اقتصادی ماہرین اوروفاقی و صوبائی نمائندوں پر مشتمل کمیشن کے قیام کی تجویز دی ہے جو ٹیکس نظام کے پیرا میٹرز واضح کریں، ان پیرامیٹرز کی منظوری اس کمیٹی کے ذمے ہو گی جو وفاقی اورچاروں صوبائی وزرائے خزانہ پر مشتمل ہوگی۔ بادی النظر میں اس تجویز کا مقصد خدمات پر ٹیکس وصولی کے اس نظام کی بحالی ہے جس کے تحت صوبوں نے اتفاق کیا تھا کہ وفاقی حکومت ٹیکس وصول کرے لیکن آمدنی اسی صوبے کو براہ راست منتقل کی جائے جہاں سے وصولی ہوئی۔ یہ تجویز بھی ہے کہ ٹیکس سے متعلق تیز تر نظام وضع کیا جائے اس کا فائدہ یہ بتایا گیا ہے کہ اس سے کاروباری اخراجات کسی حد تک کم ہوں گے اور ٹیکس دہندگان اور ٹیکس انتظامیہ کی ملی بھگت سے ہونے والی ٹیکس چوری مشکل ہو جائے گی۔ ایسا منصوبہ تیار کرنے کی بھی تجویز ہے جس سے ٹیکس استثنا مرحلہ وار ختم ہو سکے۔ ایف بی آر کے استثنا دینے کے متعلق ایس او آر جاری کرنے کا اختیار ختم کیا جائے اور یہ اختیار صرف پارلیمنٹ کو حاصل ہو۔ حکومت کا میڈیم ٹیکس پالیسی فریم ورک موقع فراہم کرے گاکہ وہ تین سال کے لئے اپنی ٹیکس پالیسی کا خاکہ تیار کرے، اس سے کاروبار کے لئے ٹیکس پالیسی کی راہ متعین ہوگی۔ اس وقت ٹیکس پالیسی میں آمدنی بڑھانے پر زیادہ توجہ ہے جس کی وجہ سے معیشت میں خرابیاں پیدا ہونے کا امکان رہتا ہے۔ ملک میں طویل عرصے سے ٹیکس اصلاحات لانے کی ضرورت محسوس کی جا رہی تھی حکومت کی اعلیٰ اختیاراتی کمیشن کےذریعے بعض تجاویز اگر اسی حوالے سے ہیں تو اس کا جواز بنتا ہے مگر بعض ٹیکسوں کی وصولی کا اختیار صوبوں سے واپس لینے سے بدگمانیاں جنم لے سکتی ہیں۔ اختیارات کی مرکزیت جمہوریت تقاضوں سے مطابقت نہیں رکھتی یہی وجہ ہے کہ قیام پاکستان کے وقت سے صوبوں کے اختیارات میں اضافے کا مطالبہ کیا جاتا رہا ہے چاہے ان کی نوعیت سیاسی و انتظامی ہو یا اقتصادی وسائل کو بروئے کار لانے کی۔ آئین میں 18ویں ترمیم اسی احساس کا نتیجہ تھی اس کےتحت تعلیم اورصحت سمیت کئی اہم امور صوبوں کے حوالے کر دیئے گئے ہیں جہاں تک ٹیکسوں کا تعلق ہے تو ان پر وفاق کا اختیار مقدم سمجھا گیا مگر اس میں بھی صوبوں کی مرضی و منشا کو کلی طور پر نظر انداز نہیں کیا گیا۔ نئی تجاویز میں بھی وفاق نے کوئی یک طرفہ فیصلہ مسلط نہیں کیا بلکہ یہ ذمہ داری ایک با اختیار کمیشن کے سپرد کرنے کو کہا ہے جو اچھی بات ہے، تاہم ضرورت اس بات کی ہے کہ اس معاملے میں صوبوں سے ضرور مشاورت کی جائے اور حتمی فیصلہ پارلیمنٹ پر چھوڑ دیا جائے۔ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ ملک اس وقت شدید مالی و معاشی بحران سے گزر رہا ہے حکومت اس پر قابو پانے کیلئے اندرونی اور بیرونی تمام وسائل بروئے کار لانے کی تدابیر اختیار کر رہی ہے دوست ممالک سے قرضوں کا حصول اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے پھر کفایت شعاری کے علاوہ داخلی وسائل سے بھی بھرپور فائدہ اٹھانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ ایف بی آر نے یکم جولائی 2018سے 31جنوری 2019تک ٹیکس نیٹ میں ایک لاکھ 90ہزار نئے ٹیکس گزاروں کا اضافہ کیا ہے جو گزشتہ سال کی پہلی ششماہی کے مقابلے میں 36فیصد اضافے کی نشاندہی کرتا ہے ۔یہ ایک خوش آئند بات ہے۔ کوشش یہ ہونی چاہئے کہ ٹیکس نظام میں اصلاحات لائی جائیں اور اس عمل میں صوبوں کی شرکت یقینی بنائی جائے تاکہ کہیں احساس محرومی پیدا نہ ہو اور کوئی نئی آئینی بحث نہ چھڑ جائے۔ متذکرہ ٹیکسوں کی وصولی کا اختیار صوبوں سے واپس لینے کا فیصلہ آئین سے متصادم نہیں ہونا چاہئے۔

تازہ ترین