• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
گزشتہ شب لاہور کی وحدت روڈ پر ایک سی این جی سٹیشن کے سامنے گاڑیوں کی کم وبیش ایک ڈیڑھ کلو میٹر لمبی قطار دیکھ کر مجھے قوم کے حوصلے، صبر و برداشت اور خنک مزاجی پر رشک آیا۔ لاہوریوں کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ بات بات پر مرنے مارنے کے لئے تیار ہو جاتے ہیں مگر سی این جی سٹیشنوں پر لگی میلوں لمبی قطاروں اور سٹیرنگ سیٹوں پر بیٹھے پرسکون نوجوانوں کو دیکھ کر لگتا نہیں کہ ایسی کوئی بات ہے۔
گیس و بجلی کی طویل بندش، کچہری تھانے میں پٹواری اور محرر کی جھڑکیاں، چوراہے میں ٹریفک وارڈن کی بدتمیزی اور ارکان اسمبلی کے ڈیروں پر ان کے ملازمین کی تذلیل سہنے والی یہ قوم داد و تحسین کی مستحق ہے، تاریخ میں ایسی راضی برضا قوم صرف قوم موسیٰ ہی ملتی ہے جس کی ذلت و رسوائی کا تذکرہ قرآن مجید میں تفصیل سے ہوا، دہشت گردی، خسرے، کھانسی شربت، ٹارگٹ کلنگ اور زائرین بسوں پر بم دھماکوں کی وجہ سے روزانہ سینکڑوں جنازے اٹھانے والی یہ قوم سب کچھ سکون سے برداشت کر رہی ہے تو جاگیرداروں، سرمایہ داروں، لٹیروں اور وڈیروں کو پریشان ہونے کی ضرورت نہیں اور وہ دل کھول کر نعرہ لگا سکتے ہیں ”اک واری فیر زرداری“۔
کسی جاگیردار، وڈیرے اور سرمایہ دار سے نہیں عام آدمی سے ہی پوچھیں کہ اپنی بہو بیٹیوں کی عزتیں لٹوانے، مال مویشی چوری کرانے، تعلیم، صحت، روزگار کی سہولتوں سے محرومی اور بدترین غربت وافلاس، مہنگائی، بیروزگاری اور بدامنی سہنے کے باوجود انہی آزمائے ہوؤں کو دوبارہ آزمانے کی مجبوری کیا ہے؟ اپنے ہی طبقہ کے اعلیٰ تعلیم یافتہ، تجربہ کار، باکردار اور دانا کو ووٹ کی پرچی کے ذریعے منتخب کرنے سے گریز کی وجہ؟ تو جواب ملتا ہے جی کیا کریں ذات، برادری اور دھڑے کو دیکھنا ہے، پھر ان پڑھے لکھوں کو الیکشن لڑنے کا ڈھنگ آتا ہے نہ ووٹ خریدنے کا سلیقہ اور نہ ووٹروں کو ڈھور ڈنگروں کی طرح پولنگ سٹیشنوں پر لانے کا طریقہ، جو خود کچھ نہیں کھاتے، ہمیں کیا کھلائیں گے جو اپنی بیوی بچوں، رشتہ داروں کے لئے میرٹ پر فیصلے کرتے ہیں ہمارے بچوں کی سفارش کب مانیں گے، وغیرہ وغیرہ۔
رہے موروثی قیادت اور خاندانی سیاست کے علمبردار حکمران اور سیاست دان تو وہ صرف ارکان اسمبلی اور وزیروں، مشیروں سے یس سر، آمنا و صدقنا سننے کے عادی ہیں۔ ڈاکٹر جاوید اقبال اور خورشید محمود قصوری جیسے پڑھے لکھے تو شریعت بل کی منظوری میں رکاوٹ ڈالتے ہیں کہ اس سے وزیراعظم کو آئین میں سادہ اکثریت سے ترمیم کے آمرانہ اختیارات مل رہے ہیں۔
ان دنوں الیکشن کی آمد آمد ہے اور اجارہ دار مراعات یافتہ سیاسی طبقے کے علاوہ ان کے مدح خوانوں کی طرف سے مسلسل یہ مبالغہ آمیز پروپیگنڈہ کیا جا رہا ہے کہ غیر متنازع چیف الیکشن کمشنر کی طرح غیر جانبدار نگران وزیراعظم آ گیا تو منصفانہ شفاف انتخابات کی ضمانت مل جائے گی۔ فخرو بھائی تو معلوم نہیں موجودہ صورتحال میں کتنا عرصہ صبر و برداشت کا مظاہرہ کریں گے لیکن اسحق ڈار، رضا ربانی اور جسٹس (ر) ناصر اسلم زاہد جیسے ٹیکنو کریٹس محض نیک نامی کے بل بوتے پر کس قدر شفاف انتخابات کرا سکتے ہیں جن کی ٹیم سیاستدانوں کی منتخب کردہ ہو گی اور جنہیں صرف دو بڑی پارٹیوں کے مابین ریفری کا کردار ادا کرنے کی ذمہ داری سونپی جائے گی، اس کا علم ہر ذی شعور کو ہے۔
قوم سردار فاروق احمد خان لغاری کی نگران حکومت کا نظارہ کر چکی ہے جس کے سربراہ ملک معراج خالد تھے کسی بھی ٹیکنو کریٹ، جج اور جرنیل سے زیادہ نیک نام، معتبر اور تجربہ کار سیاستدان مگر ان کی کابینہ میں ڈھنگ کا ایک بندہ نہ تھا اور انتظامی مشینری ماضی کے کرپٹ، بدکردار اور اجارہ دار سیاستدانوں کی مقرر کردہ۔ الیکشن سے قبل ہی ملک صاحب سرعام چیخ پڑے کہ ایک بار پھر رسہ گیروں، چوروں، اٹھائی گیروں اور لٹیروں کو انتخابات میں حصہ لینے کا موقع دے دیا گیا ہے اور نتائج ماضی سے مختلف نہیں ہونگے۔
بھلا جس ریٹرننگ افسر کو ترقی اور مراعات سے یوسف رضا گیلانی نے نوازا وہ عبدالقادر گیلانی کے کاغذات نامزدگی مسترد کرے گا؟ جسے راجہ پرویز اشرف نے آؤٹ آف ٹرن پروموشن دی وہ ان کے کاغذات مسترد کرکے نمک حرامی کا طعنہ سنے گا؟ خواہ ان دونوں کے خلاف اعتراضات عدالتی فیصلوں کی تائید کے ساتھ ہی کیوں نہ داخل کئے جائیں۔ سیاسی حکومتوں کے انہی کرتوتوں کی وجہ سے فوجی مداخلت کا راستہ ہموار ہوتا ہے اور جمہوری نظام کا اعتبار جاتا رہا ہے۔ ویسے یہ بھی سوچنا چاہئے کہ ملک میں سیاسی حکومتیں ختم ہونے پر مٹھائی کیوں بٹتی ہے اور جمہوری حکومتیں امریکہ کی مداخلت سے کیوں بحال ہوتی ہیں شائد اس لئے کہ لوگ لمبی قطاروں، بھوک، بیروزگاری سے بالآخر تنگ آ ہی جاتے ہیں۔
علامہ طاہر القادری نے تو ترپ کا پتہ سینے سے لگا رکھا ہے مگر عمران خان سیاسی مخالفین اور میڈیا کے خوف سے انہی جھرلو انتخابات کو امرت دھارا قرار دے رہا ہے جو جاگیرداروں، سرمایہ داروں اور سٹیٹس کو کے حامیوں کے مفاد میں ہیں لیکن خدا لگتی بات یہ ہے کہ جب تک اسلام آباد میں تحریر سکوائر نہیں سجے گا موجودہ غلیظ، بدبودار اور عوام دشمن نظام سے نجات ممکن نہیں جس نے عام آدمی کے ذہن و ضمیر کو اپنے شکنجے میں جکڑ رکھا ہے اور گیدڑوں کو خربوزوں کی رکھوالی سونپ دی ہے۔
اگر موجودہ سیاسی اشرافیہ نے حسنی مبارک سے کم کرپشن کی ہے، بہتر حکمرانی دی ہے اور عوام کی خدمت کی ہے تو پھر وہ تحریر سکوائر سے خوفزدہ کیوں؟، اس بات کا ڈر کیوں کہ لاکھوں عوام اسلام آباد آ کر لٹیروں کی گرفتاری اور احتساب کا مطالبہ کریں گے اور ایک ایسے سیاسی، انتخابی، معاشی و سماجی ڈھانچے کی تشکیل پر زور دیں گے جس میں دھن، دھونس، دھاندلی کے بغیر کسی موچی، ترکھان، رکشہ ڈرائیور، نان بائی مولوی، سکول ٹیچر اور چپڑاسی کا بیٹا بھی صرف اعلیٰ نمبر نہیں، اعلیٰ منصب حاصل کرنے کا اہل ہو گا۔ بلاول سے بہتر تقریر، ذہانت اور شکل و صورت کا بچہ کسی سیاسی جماعت کی قیادت کر سکے گا۔
عوامی مارچ کی منزل تحریر سکوائر ہی ہونی چاہئے ورنہ علامہ طاہر القادری اپنے غریب، پرجوش اور تبدیلی کے جذبے سے سرشار کارکنوں کو آزمائش میں نہ ڈالیں۔ مخالفین کے پروپیگنڈے سے اتنا زیادہ خوفزدہ ہونے کی ضرورت بھی نہیں یہ تو ان کا آزمودہ ہتھیار ہے کہ متوسط طبقے کی قیادت کو ابھرنے سے قبل وضاحتوں، تردیدوں اور صفائی دینے پر لگا دو، مگر ان کے ترکش کا یہ آخری تیر کوئی تو کند کرے #
عرفی تو میندیش زغوغائے رقیباں
آواز سگاں کم نہ کند رزق گدارا
تازہ ترین