• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

وزیراعظم عمران خان نے سول سروس ریفارمز ٹاسک فورس کے اجلاس سے اپنے خطاب میں بیورو کریسی سے سیاست کے خاتمے کے عزم کا اظہار کرکے دراصل کاروبارِ مملکت کو کامیابی سے چلانے کی ایک لازمی شرط کی تکمیل کی بات کی ہے۔ بانیِ پاکستان نے حصولِ آزادی کے فوراً بعد ہی سرکاری ملازمین کو سیاست سے بالاتر رہنے کی پُر زور ہدایت کی تھی۔ یہی وجہ ہے کہ قیام پاکستان کے بعد ابتدائی عشروں میں ہماری بیوروکریسی کا معیار ہر لحاظ سے بہت بلند تھا اور وزیراعظم کا یہ کہنا بالکل درست ہے کہ ساٹھ اور ستّر کی دہائی میں پاکستان کی سول سروس پورے خطے میں سب سے بہتر تھی اور علاقے کے دوسرے ملکوں سے لوگ ہم سے سیکھنے کے لیے آتے تھے لیکن پھر سیاسی مداخلت کے باعث سول سروس کا زوال شروع ہوگیا۔ سرکاری ملازمین کو سیاسی دباؤ سے آزاد رکھنے کو اپنی حکومت کا مشن قرار دیتے ہوئے وزیراعظم نے اپنے خطاب میں شرکاء کو یقین دہانی کرائی کہ ان کے دور میں ہر تقرری صرف میرٹ کی بنیاد پر کی جائے گی اور عہدے پر مدتِ ملازمت کو تحفظ فراہم کیا جائے گا۔ یہ یقین دہانیاں بلاشبہ نہایت خوشگوار ہیں لیکن اصل امتحان عمل کے میدان میں ہوتا ہے۔ اس حوالے سے دیکھا جائے تو صورت حال کچھ زیادہ قابل رشک نہیں۔ موجودہ حکومت کے ابتدائی چھ ماہ کے اندر ہی کئی ایسے واقعات رونما ہوچکے ہیں جن میں اعلیٰ سرکاری ملازمین کو حکومتی عہدیداروں کے خلاف قانون احکام نہ ماننے پر منفی نتائج کاسامنا کرنا پڑا۔ پنجاب پولیس کو غیرسیاسی بنانے کا پروگرام بھی اسی رویے کی وجہ سے آگے نہیں بڑھ سکا۔ تاہم وزیراعظم کی ان واضح یقین دہانیوں کی روشنی میں توقع ہے کہ اب ایسے واقعات کا اعادہ نہیں ہونے دیا جائے گا۔ اپنے خطاب میں وزیراعظم نے اس حقیقت کی نشان دہی بھی کی کہ احتساب اور میرٹ ہی نظام میں بہتری لانے کے اصول ہیں۔ سرکاری اداروں کی کارکردگی کا نجی اداروں سے تقابل کر کے وزیراعظم نے عملی طور پر میرٹ کی اہمیت واضح کی کیونکہ نجی شعبے میں مناصب اہلیت اور کارکردگی کی بنیاد پر دیے جاتے ہیں۔ ان حقائق کی روشنی میں وزیراعظم کا بیوروکریسی کی تنظیم نو کا عزم نہایت خوش آئند ہے اور ضرورت ہے کہ اسے اس کی اصل روح کے مطابق عملی جامہ پہنایا جائے۔ وزیراعظم کی جانب سے پاناما لیکس میں شامل تمام افراد کو تلاش کرکے بے نقاب کرنے کا حکم بھی وقت کے ایک اہم تقاضے کی تکمیل کے مترادف ہے کیونکہ اب تک پاناما لیکس کے حوالے سے عملاً محض ایک سیاسی خاندان کے خلاف کارروائی ہوئی ہے جبکہ وزیراعظم سیکریٹریٹ کے ذرائع کے مطابق پانامالیکس میں شامل 250سے زائد افراد ٹیکس ایمنسٹی لے چکے ہیں اور پاناما لیکس کی بیشتر کمپنیاں بھی چین منتقل کی جاچکی ہیں۔ پاناما لیکس میں شامل 175افراد کو تلاش نہیں کیا جا سکا جبکہ 78افراد کی معلومات نا مکمل تھیں جبکہ یہ ایک کھلی حقیقت ہے کہ محدود اور یکطرفہ احتسابی عمل ملک کو کرپشن کے روگ سے نجات دلانے کا باعث نہیں بن سکتا۔ لہٰذا پانامالیکس میں شامل تمام افراد کو یکساں طور پر قانون کی گرفت میں لانا ضروری ہے خواہ ان کا تعلق اپوزیشن، حکومت، میڈیا اور کاروباری طبقات سمیت کسی بھی شعبہ زندگی سے ہو۔ ایک اور نہایت اہم وضاحت جو وزیراعظم نے گزشتہ روز ہی ایک سرکاری اجلاس کی صدارت کرتے ہوئے کی ان کے اپنے الفاظ میں یہ ہے کہ ’’این آر او کی خبروں میں کوئی صداقت نہیں، پیپلز پارٹی یا ن لیگ سے کوئی ڈیل نہیں ہو رہی‘‘۔ اس وضاحت سے مہینوں سے جاری ایک بے بنیاد پروپیگنڈے کا خاتمہ تو ہو گیا لیکن اب یہ دیکھنا بھی وزیراعظم ہی کی ذمہ داری ہے کہ آخر قوم کو اتنی مدت تک ایک غلط فہمی میں مبتلا رکھنے اور اپوزیشن رہنمائوں کو اس حوالے سے بدنام کرنے کی کوشش کیوں کی گئی۔ آئندہ ایسی مہم جوئیوں سے اجتناب بہرحال حکومت کے وقار اورا عتبار کے تحفظ کے لیے ضروری ہے۔ نظام تعلیم کے ضمن میں ایک اجلاس کی صدارت کرتے ہوئے وزیراعظم نے نئی نسل کو اسلامی تاریخ اور علامہ اقبالؒ کے افکار سے روشناس کرانے کے لیے عملی اقدامات کی ہدایت کر کے ایک اور ایسی قومی ضرورت کو پورا کرنے کی جانب پیش رفت کی ہے جس کے بغیر تحریک پاکستان کے مقاصد کی تکمیل ممکن نہیں۔

تازہ ترین