• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پنجاب کے سینئر وزیر اور حکمران سیاسی جماعت پاکستان تحریک انصاف کے اہم رہنما عبدالعلیم خان کی گرفتاری پر ان کی اپنی جماعت اور ان کی مخالف سیاسی جماعتوں کے قائدین اور سیاسی مبصرین نے جو ردعمل ظاہر کیا ہے یا جو تبصرے کیے ہیں، ان سے اندازہ ہوتا ہے کہ کسی کو بھی اس گرفتاری کے ممکنہ اثرات کا ادراک نہیں ہے۔ اگر ادراک ہے تو بوجوہ اس کا اظہار نہیں کیا گیا۔ ایک اہم معروضیت کو سب لوگ شعوری یا لاشعوری طور پر نظر انداز کررہے ہیں اور وہ یہ ہے کہ پاکستان میں سیاست کی بے توقیری ہورہی ہے۔ یہ بات نہ صرف پاکستان کے سیاسی مستقبل کے لیے خطرناک ہے بلکہ خود پاکستان تحریک انصاف کے لیے بھی سیاسی طور پر انتہائی نقصان دہ ہے۔ پاکستان تحریک انصاف کی قیادت اس بات کا کریڈٹ لے رہی ہے کہ اس کی حکومت میں بلا امتیاز احتساب ہورہا ہے۔ احتساب کے ادارے آزادانہ طور پر کام کررہے ہیں۔ ان کے کام میں کوئی مداخلت نہیں ہے۔ دوسری طرف اپوزیشن کی سیاسی جماعتیں اس خدشے کا اظہار کررہی ہیں کہ عبدالعلیم خان کی گرفتاری ’’بیلنس‘‘ قائم کرنے کے تاثر کو تقویت دینے کے لیے ہے تاکہ اپوزیشن کے دیگر بڑے رہنمائوں پر ہاتھ ڈالا جاسکے اور کوئی یہ نہ کہہ سکے کہ یکطرفہ کارروائی ہورہی ہے۔ غیر جانبدار سیاسی مبصرین بھی کم وبیش حکمران سیاسی جماعت اور اپوزیشن کی سیاسی جماعتوں کے دونوں مختلف نقطہ ہائے نظر کی حمایت کررہے ہیں اور ان کے حق میں دلائل دے رہے ہیں۔ پہلی بات تو یہ ہے کہ بلا امتیاز احتساب کا کریڈٹ پاکستان تحریک انصاف کو نہیں جاتا ہے۔ بلا امتیاز اور جارحانہ احتساب کا جو عمل اس وقت جاری ہے، وہ پاکستان مسلم لیگ (ن) کی گزشتہ حکومت میں شروع ہوچکا تھا۔ قومی احتساب بیورو (نیب) اور وفاقی تحقیقاتی ادارہ (ایف آئی اے) سمیت احتساب کے دیگر ادارے بہت زیادہ سرگرم ہوگئے تھے۔ عدالتیں بھی غیر معمولی فیصلے کررہی تھیں۔ اس وقت کے وزیراعظم میاں محمد نواز شریف پہلے پانامہ کیس میں عدالتی فیصلے کے تحت پرائم منسٹر ہائوس سے باہر نکال دیئے گئے اور پھر احتساب عدالت کے فیصلے میں جیل چلے گئے۔ یہ سب کچھ مسلم لیگ (ن) کی حکومت میں ہوا۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ عدلیہ اور احتساب کے ادارے حکومت وقت کے دائرہ اثر میں نہیں رہے تھے اور وہ تحریک انصاف کی حکومت قائم ہونے سے قبل ہی یہ تاثر قائم کرچکے تھے کہ وہ آزادانہ طور پر اور سیاسی مداخلت کے بغیر کام کررہے ہیں۔ لہٰذا اداروں کو خود مختار بنانے یا سیاسی مداخلت سے پاک کرنے کا کریڈٹ پاکستان تحریک انصاف کو نہیں جاتا ہے۔ اصل حقیقت یہ ہے کہ پاکستان تحریک انصاف کے اہم ترین رہنما کو نیب نے گرفتار کرلیا ہے اور ان پر آمدنی سے زائد اثاثے بنانے کے ساتھ ساتھ کئی الزامات ہیں، جو عوامی نمائندوں پر نہیں ہونے چاہئیں۔ پاکستان تحریک انصاف وہ سیاسی جماعت ہے، جس نے سیاست دانوں کو کرپٹ قرار دے کر اور انہیں گالی دے کر اس وعدے پر عوام سے انتخابی مینڈیٹ حاصل کیا کہ وہ سیاست کو کرپشن سے پاک کرے گی لیکن دنیا نے دیکھ لیا کہ اسی سیاسی جماعت کے رہنما کرپشن کے الزامات کے تحت گرفتار ہورہے ہیں۔ باقی سیاسی قوتوں کو تحریک انصاف نے گندہ کیا۔ اب اس کے اندر کیا ہورہا ہے۔ عبدالعلیم خان کے بعد یہ بھی کہا جارہا ہے کہ تحریک انصاف کے دیگر اہم رہنمائوں پر ہاتھ ڈالا جاسکتا ہے۔ قبل ازیں تحریک انصاف کے روح رواں جہانگیر ترین کو عدالت نااہل قرار دے چکی ہے۔ بابر اعوان اور اعظم سواتی جیسے تحریک انصاف کے اہم رہنما مختلف الزامات کے تحت وفاقی وزارتوں سے مستعفی ہوچکے ہیں۔ وزیراعظم عمران خان کی ہمشیرہ پر اپنے ذرائع آمدنی اور اثاثوں کے بارے میں تسلی بخش جواب کا لوگوں کو ابھی تک انتظار ہے۔ خود وزیراعظم کی نجی رہائش گاہ ’’بنی گالہ‘‘ کو ریگولرائز کرانے کا عدالت حکم دے چکی ہے۔ باقی سیاسی جماعتیں اگر کرپٹ ہیں تو پھر تحریک انصاف کیا ہے؟ عبدالعلیم خان کی بحیثیت وزیر گرفتاری نے اس سوال کو زیادہ شدت کے ساتھ اجاگر کردیا ہے۔ افسوس ناک حقیقت یہ ہے کہ یہ صورت حال سیاستدانوں کے ’’کمزور‘‘ کردار کی وجہ سے پیدا ہوئی ہے۔ یہ اور بات ہے کہ نیب، ایف آئی اے اور دیگر ادارے جن قوانین کے تحت احتساب کے عمل میں زیادہ سرگرم ہوگئے ہیں، وہ قوانین ازخود وسیع تر سیاسی قبولیت سے محروم ہیں۔ تحریک انصاف نے دیگر سیاسی قوتوں کو قابو کرنے کے لیے جو ’’جال‘‘ بچھایا تھا، وہ خود اس میں پھنس (ٹریپ) ہورہی ہیں۔ سیاست دان کرپٹ ہیں۔ یہ بات بغیر ثبوت کے تحریک انصاف والے بے دریغ کہتے رہے۔ اب اگرچہ عبدالعلیم خان پر بھی الزامات ثابت ہونا باقی ہیں، یہ تاثر پیدا ہوگیا ہے کہ تحریک انصاف سمیت سب سیاسی جماعتوں میں کرپٹ سیاست دان ہیں۔ سابق وزیراعظم نواز شریف جیل میں ہیں۔ پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین اور سابق صدر مملکت پر گرفتاری کی تلوار لٹک رہی ہے۔ احتساب کے نعرے پر حکومت میں آنے والی تحریک انصاف کے رہنما گرفتار ہورہے ہیں اور یہ پہلا موقع ہے کہ موجودہ وزیر گرفتار ہوا ہو۔ سیاست گندی ہورہی ہے۔ سیاست بے توقیر ہورہی ہے ۔ استحصالی، استبدادی اور سامراجی قوتوں کے خلاف مزاحمت صرف سیاست سے ہوتی ہے، جو عوام میں اپنا اعتماد کھو رہی ہے۔ اب اس پر کون مزاحمت کرے گا کہ بجلی اور گیس مہنگی ہوگئی ہیں۔ ڈالر کی قیمت بڑھ گئی ہے۔ بیروزگاری میں اضافہ ہورہا ہے۔ گوادر پورٹ پھر کسی اور کے پاس جارہا ہے۔ افغانستان میں امن عمل کے حوالے سے آنکھیں بند کرکے ایک بار پھر امریکی ایجنڈے کو قبول کیا جارہا ہے ۔ مشرق وسطیٰ کے تنازع میں پاکستان ثالث کی بجائے ایک فریق بن رہا ہے۔ آئی ایم ایف کی ڈکٹیشن کا جواز پیدا کردیا گیا ہے۔ بھارت کے ساتھ تنائو میں اضافہ ہوگیا ہے۔ اس خوفناک صورت حال میں سیاسی جماعتیں کیا کردار ادا کریں گی، جب ان کی اپنی ساکھ باقی نہیں رہی۔ تحریک انصاف کی قیادت کے لیے سندھ کے عظیم صوفی شاعر حضرت شاہ عبداللطیف بھٹائی ؒ کے ایک بیت کا ترجمہ پیش خدمت ہے۔ ’’آپ نے تیر کمان میں ڈال لیا ہے۔ دیکھ میاں! مجھے نہیں مارنا۔ کیونکہ میرے اندر تو ہے۔ کہیں تمہارا تیر تمہیں نہ لگے۔‘‘

تازہ ترین