• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
مصطفی کمال نے آنسوئوں، ہچکیوں اور سسکیوں میں اپنے سابق قائد الطاف حسین اور متحدہ قومی موومنٹ پر جو الزامات عائد کئے وہ نہ تو کسی بھی طور نئے ہیں اور نہ ہی انہیں انکشافات کہا جاسکتا ہے کیوں کہ یہ وہ چارج شیٹ ہے جس سے نظریہ ضرورت کے تحت گرد جھاڑی جاتی رہتی ہے۔ ہاں اس بارفرق اور اہمیت یہ ہے کہ اس چارج شیٹ کو جن ہاتھوں میں تھمایا گیا ہے وہ اپنےہی ہیں اور جب اپنے وار کرتے ہیں تو اس کی ضرب کاری نہ بھی ہو بندہ اندر سے ٹوٹ جاتا ہے۔ حفیظ جالندھری نے سچ ہی تو کہا تھا۔
دیکھا جو تیر کھا کے کمیں گاہ کی طرف
اپنے ہی دوستوں سے ملاقات ہو گئی
کمال نے کیا کمال کی توجیہہ پیش کی ہے کہ ان کا ضمیر جاگ گیا جس کی آواز نے انہیں سچ بولنے پر مجبور کر دیا۔ ویسے یہ ضمیر بھی کیا کمال کا ہے جسے ترقی کے زینےپر چڑھتے ہوئے سالہا سال تھپکیاں دے کر سلا دیا جاتا ہے اور جب ڈھلوان شروع ہوتی ہے تو اس میں ایسی کسک پیدا ہوتی ہے کہ یہ ہڑبڑا کر اٹھ بیٹھتا ہے۔ ویسے اس ضمیر کو جگانے میں کچھ ہی عرصہ قبل وفاقی دارالحکومت میں کی گئی مخصوص ملاقاتوں نے بھی اکسیر کا کردار ادا کیا ہے اور چونکہ ضمیر کو جگانے کے لئے مخصوص ماحول درکار ہوتا ہے اس لئے اسے پہلے دبئی میں انتہائی نگہداشت میں رکھا گیا اور پھر اسے پاکستان کے ساحلی شہر کے ایک بنگلے میں مخصوص آب و ہوا مہیا کی گئی تاکہ یہ کہیں پھر نہ سو جائے۔ ویسے یہ بنگلہ جس کی ملکیت ہے اس کے بارے میں آپ بھی معلومات حاصل کرلیں تو آپ کوبھی بخوبی ادراک ہو جائے گا کہ ضمیر کو جگانے کے لئے کیسے مسیحا کا لمس درکار ہوتا ہے۔ اس مسیحا کے ذکر سے پروین شاکر یاد آگئی۔۔اس نے جلتی ہوئی پیشانی پہ جب ہاتھ رکھا۔۔۔۔روح تک اتر گئی تاثیر مسیحائی کی۔
برسوں بعد جاگے ضمیر کی حفاظت اتنی ناگزیر ہے کہ راتوں رات نہ صرف محافظوں کے پہرے بٹھا دئیے جاتے ہیں بلکہ دیواروں پر حفاظتی باڑ بھی لگا دی جاتی ہے،کیا پتہ کوئی چور اچکا ضمیر ہی چرانے آ نکلے۔ ویسے بھی یہ ضمیر اجمل پہاڑی، صولت مرزا،معظم علی،خالد شمیم اور محسن علی کے ضمیر سے بیش بہا قیمتی ہے۔ خربوزے کو دیکھ کر خربوزہ رنگ پکڑتا ہے سو ہو سکتا ہے آنے والے دنوں میں کچھ اور ضمیر جاگ جائیں اسی لئے تو راتوں رات شہر کی دیواریں قدم بڑھائو ہم تمہارے ساتھ ہیں کے الفاظ سے کالی کر دی گئیں۔اتنےمہذب،تعلیم یافتہ اوراردوبولنے والے طبقے سے محبت کے اظہارپر مبنی اس وال چاکنگ کے لئے کسی خوش خط کی خدمات ہی حاصل کر لی جاتیں لیکن خیر ہے رات کی تاریکی میں جب کارروائی ڈالی جائے تو نکتے اوپر نیچے ہو ہی جاتے ہیں سواس بد تہذیبی پر مہاجر قوم سے معذرت۔ مہاجر سے اسی شہر کے باسی پرویز مشرف یاد آ گئے جو نو سال تک سب سے پہلے پاکستان کی تسبیح کرتے رہے لیکن انہیں معلوم ہی نہ ہو سکا کہ ان کی اہم اتحادی ایم کیو ایم تو ملک دشمن جماعت ہے۔ وہ نو برسوں میں بھی یہ نہ جان پائےکہ وہ جن کوگلے سے لگا کر بیٹھے ہوئے ہیں وہ تو پاکستان کی بنیادوں کو کھوکھلا کرنے والی دشمن ایجنسی را سے فنڈز لیتے ہیں۔ ڈی جی ملٹری آپریشن سے آرمی چیف کے عہدوں پر فائز ہوتے ہوئے بھی انہیں بھنک نہ پڑسکی کہ وہ جن پہ تکیہ کئے ہوئے ہیں وہی پتے ہوا دے رہے ہیں۔ سپریم کمانڈر ہونے کے باوجود وہ اپنے ہاتھوں میں لئے ہوئے ان ہاتھوں کو پہچان نہ پائے کہ یہ تو بے گناہوں کے خون سے رنگے ہوئے ہیں۔ سمندری ،زمینی اور فضائی حدود کے محافظ ہونے کے ناطےانہیں یہ تک معلوم نہ ہو سکا کہ ایم کیو ایم کے ٹارگٹ کلرزتھائی لینڈ اور جنوبی افریقہ سے آ کر کارروائیاں کرتے اور پھر باآسانی واپس چلے جاتے ہیں۔ ملکی سلامتی کے نگراں ہوتے ہوئے انہیں کبھی یہ بھی نہ پتہ چل سکا کہ ایم کیو ایم کی قیادت براہ راست را سے رابطے میں ہے اور دبئی اور لندن کے اکاونٹس میں منتقل کی جانے والی رقم پاکستان کو غیر مستحکم کرنے کے لئے استعمال کی جا رہی ہے۔اگر ایم کیو ایم اور اس کی قیادت پر عائد کئے جانے والے تمام الزامات درست تھے تو پرویز مشرف مسلح افواج کے سربراہ اور ملک کے طاقت ور ترین حکمران ہوتے ہوئے بھی ان سے کیسے لا علم رہے اور اگر وہ یہ سب کچھ جانتے تھے تو آفرین ہے ان کے ضمیر پر جس نے کبھی کچوکے نہیں لگائے اور ایک بار بھی ملکی مفاد ان کے ذاتی مفاد پہ غالب نہیں آیا۔ اگر جہاں سے دھواں اٹھ رہا تھا وہاں واقعی آگ بھی تھی تو کیسا بے حس ضمیر تھا جس نے دو چار یا چھ ماہ نہیں برسوں تک دشمن ملک سے تربیت حاصل کر کے آنے والوں کی قیادت کو سر آنکھوں پر بٹھائے رکھا لیکن کوئی جنبش نہ ہوئی۔ اگر ایم کیو ایم پر لگائے جانے والے الزامات میں رتی بھر بھی سچائی تھی تو وطن کے دفاع کا حلف اٹھانے والا کمانڈو کیا اقتدار کے نشے میں اتنا مدہوش تھا کہ اس کے ضمیر نے ہوش میں آنے کی کوشش ہی نہیں کی۔ مٹی کو کارپٹ کے نیچے کرنے سے جان خلاصی نہیں ہو گی ،جواب تو بہرحال دینا ہی پڑے گا۔ یہاں میں تیسری بار اقتدار میں آنے والے وزیر اعظم نواز شریف کے ضمیر کا بھی تذکرہ کروں گا جو اپنی حب الوطنی پر بہت نازاں ہیں۔ اگر ایم کیو ایم پر بار بار لگنے والے یہ الزامات کسی بھی طرح سچ ہیں تو بطور وزیر اعظم انہوں نے ماضی میں اس جماعت سے دست تعاون کیوں طلب کیا ۔ایم کیو ایم کے خلاف آپریشن کرانے کے باوجود دوسری بار بھی انہیں حکومت کا حصہ کیوں بنایا ،اگر ایم کیو ایم واقعی ملک دشمن تھی تو میاں صاحب کا ضمیر کیوں نہیں جاگا۔ اسی طرح آصف علی زرداری کے ضمیر کی خلش نے کیوں انہیں مجبور نہیں کیا کہ ایسی جماعت سے بار بار محبت کی پینگیں نہ بڑھائیں جس کا ایجنڈا پاکستان کو نقصان پہنچانا ہے۔ انتہائی زیرک سیاست دان مولانا فضل الرحمان کا ضمیر کیوں خاموش ہو گیا جب وہ خود چل کر نائن زیرو پہنچ گئے تاکہ ایم کیو ایم کو جمہوری کردار ادا کرنے کے عمل کو جاری رکھنے پر قائل کیا جا سکے۔اور تو اور پاکستان تحریک انصاف کی قیادت کے ضمیر نے ان الزامات سے چشم پوشی کرتے ہوئے نواز شریف حکومت کے خلاف احتجاج کے دوران کراچی میں جلسے منعقد کرنے کے لئے ایم کیوا یم سے مدد کیوں طلب کی۔ ایم کیوایم کے ان لاکھوں ووٹرز کے ضمیر کیوں سوئے رہے جنہوں نے تمام تر الزامات کے باوجود عام اور بلدیاتی انتخابات میں ایک بار پھرپتنگ پر ہی مہر لگانا درست جانا۔ یہاں میں ایم کیو ایم کے قائد،رہنمائوں،رابطہ کمیٹی کے ارکان،ارکان پارلیمنٹ اور تنظیمی ڈھانچے سے وابستہ افراد سے گزارش کروں گا کہ اس سے پہلے کہ کوئی ان کے ضمیر کو جگائے انہیں خود اپنے ضمیر کی آواز سننا ہو گی،اپنے گریبان میں جھانکنا ہوگا اور پاکستان کی سیاست،جمہوریت اورریاستی اداروں کے بارے میں اپنی قلابازیوں کو بند کرنا ہو گا۔ اپنی صفوں میں موجود جرائم پیشہ عناصر سے خود کو پاک کر کے مکمل جمہوری سیاسی جماعت کے طور پر کردار ادا کرنا ہو گا۔آخر میں سیاسی جماعتوں کے اندر مصطفی کمال اور انیس قائم خانی جیسے افراد ڈھونڈ کر ان کے ضمیر جگانے کی کوشش کرنے والوں سے بھی استدعا ہے کہ وہ اپنے ضمیر کی آواز بھی سن لیں اور اگر یہ آواز انہیں سنائی نہیں دیتی تویہی یاد کر لیں کہ جناح پور کے نقشے برآمد کرنے والوں نے بعد میں خود ہی اپنے الزامات واپس لے لئے تھے کیوں کہ ان کے ضمیربھی جاگ گئے تھے۔
تازہ ترین