• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
گو کہ اقوام متحدہ کے رکن ممالک کی تعداد بڑھ کر 193 ہوچکی ہے مگر اس عالمی ادارے کے فیصلوں اور عمل پر اصل کنٹرول سکڑ کر صرف چند عالمی طاقتوں کے ہاتھ میں آگیا ہے۔ اس سب سے اہم اور عالمی امن کیلئے فعال ترین ذیلی ادارہ سلامتی کونسل چند ہاتھوں میں کنٹرول کی عملی مثال ہے۔ پانچ عالمی طاقتوں کو اس کی مستقل رکنیت اور ویٹو کا حق حاصل ہے جبکہ دس غیر مستقل رکن ممالک دو سالہ مدت کیلئے انتخاب لڑتے ہیں۔ سلامتی کونسل کی اہمیت، کنٹرول، کارکردگی کا اندازہ اس تلخ حقیقت سے لگایا جاسکتا ہے کہ جب پانچ بڑی طاقتوں کے اپنے مفادات کا تقاضا ہو تو اس 15 رکنی کونسل کے کسی فیصلہ یا قرارداد کو عالمی برادری کا فیصلہ قرار دے کر اس کی تعمیل کرنا دنیا کے ہر ملک کی ذمہ داری قرار دے دی جائے اور تعمیل نہ کرنے والے ملک کے خلاف پابندیاں لگا کر یا جنگ مسلط کر کے اسے تباہ کردینا عالمی امن کی ضرورت قرار دیا جائے اور اگر ان پانچ طاقتوں میں سے کسی ایک کا بھی مفاد نہ ہو تو پھر سلامتی کونسل کے 15 میں 14 اراکین بھی اگر متفق ہو کر فیصلہ کر لیں تو صرف ایک مستقل رکن عالمی طاقت ویٹو کا حق استعمال کر کے دیگر 14 ارکان کے فیصلہ کو بھی ختم اور غیرموثر بھی کر ڈالتی ہے۔ عراق، افغانستان، لیبیا، شام وغیرہ میں تمام جنگیں اور اقدامات اسی سلامتی کونسل کی قراردادوں اور فیصلوں کا نتیجہ ہیں۔ نئے سال کے آغاز کے ساتھ موجودہ 15 رکنی سلامتی کونسل کے رکن پاکستان نے انگریزی حروف تہجی کے اصول کے تحت یکم جنوری تا 31 جنوری کی ایک ماہ کی مدت کیلئے سلامتی کونسل کی صدارت سنبھال لی ہے جواس کے لئے ایک اعزاز بھی ہے۔ ویسے بھی پاکستان مسلم دنیا کا سب سے زیادہ مرتبہ سلامتی کونسل کا رکن منتخب ہونے والا ملک ہے جو سات مرتبہ دو سالہ مدت یعنی چودہ سال تک کیلئے منتخب ہوا ہے۔ یہ ایک عام مشاہدہ ہے کہ بیشتر ایشیائی اور افریقی ممالک کے حکمراں سلامتی کونسل کی صدارت ملنے پر نیویارک آ کر اس کے اجلاسوں کی صدارت کرتے ہیں اور بعد میں تقاریر و خطاب کی تصاویر کے ذریعے اپنے ملک کے عوام اور سیاست میں اپنا قد کاٹھ بڑا کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ شنید ہے کہ وزیر خارجہ حنا ربانی کھر جنوری کے اوائل میں نیویارک آ کر سلامتی کونسل کے انسداد دہشت گردی کے بارے میں ہونے والے اجلاس کی صدارت کریں گی جبکہ جنوری کے تیسرے ہفتے میں وزیراعظم راجہ اشرف پرویز بھی سلامتی کونسل کے اجلاس کی صدارت کرنے کیلئے آئیں گے۔ حنا ربانی کھر اور راجہ صاحب دونوں کی زندگی میں اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے اجلاس کی صدارت کا یہ پہلا موقع اور اعزاز ہوگا۔ مگر وزیراعظم صاحب کا آنا اس بات سے مشروط ہے کہ نیویارک کو انتہائی سستے داموں اور انتہائی منظم انداز میں بہت بڑے پیمانے پر بجلی سپلائی کرنے والے پڑوسی ملک کینیڈا کے شہری ڈاکٹر طاہرالقادری کی اسلام آباد مارچ کے اثرات سے راجہ صاحب کی حکومت محفوظ رہے تاکہ وہ جنوری کے تیسرے ہفتے میں بطور وزیراعظم نیویارک کا سفر فرما سکیں۔ اقوام متحدہ میں پاکستانی سفیر مسعود خان نے اپنی سفارتی مہارت اور اقوام متحدہ کے نظام سے بہت اچھی واقفیت کے باعث اپنے وزیراعظم اور وزیرخارجہ دونوں کی صدارت کے روز کے اجلاسوں کیلئے موضوعات تو بڑے مفید مطلب اور آسان رکھے ہیں۔ دنیا بھر میں دہشت گردی کے خاتمہ کیلئے دنیا بھر میں سب سے زیادہ قربانیاں دینے والا ملک پاکستان ہے جو اپنی سلامتی، سیاست، معیشت اور جغرافیائی حدود کو داؤ پر لگا کر بھی آج بعض مغربی ممالک کی جانبب سے تعریف و تعاون کی بجائے تنقید، الزامات اور مسلسل مزید مطالبات اور دباؤ کا سامنا کر رہا ہے لہٰذا حنا ربانی کھر اس موضوع پر کارروائی کے دوران سلامتی کونسل کے اجلاس کی صدارت کریں گی ویسے بھی وزیر خارجہ کو اقوام متحدہ کے اجلاس کے دوران ہر لمحہ سیکھنے کی خواہش مند اور دوسروں کے تجربہ سے استفادہ کرتے دیکھا گیا ہے۔ مگر وزیراعظم کی اقوام متحدہ آمد کے باعث ذمہ داری اور مرکزی توجہ راجہ صاحب پر ہوگی جو اقوام متحدہ کے امن دستوں میں پاکستانی فوجیوں اور پولیس افسروں کے مفید کردار کے بارے میں سلامتی کونسل کے اجلاس کی صدارت بھی کریں گے۔ ان کی پارٹی کے حکمراں تو دھیمے لہجوں میں امریکہ سے اپنے فوجیوں کے کردار کے بارے میں شکوے اور شکایتیں کرنے کا ریکارڈ رکھتے ہیں جبکہ وزیراعظم راجہ صاحب کو سلامتی کونسل میں اپنے فوجیوں کے مفید کردار کی تعریف کرنا پڑے گی۔ ایک اور بات یہ بھی ہے کہ راجہ صاحب کا بیان ریکارڈ پر ہے کہ وہ سیاستداں ہیں لہٰذا انہیں کسی سے سبق سیکھنے کی ضرورت نہیں ہے جبکہ میرے ایک انتہائی تجربہ کار ڈپلومیٹ دوست سرگئی لوارود کا اس کے برعکس کہنا ہے کہ اقوام متحدہ تو ہر لمحہ سفارتکاری، سیاست اور تدبر سیکھنے کی واحد اور بہترین جگہ ہے۔ سرگئی لاورود سوویت یونین کے دور سے لے کر روس بننے تک کئی سال اقوام متحدہ میں سفیر رہے ہیں اور آج کل روس کے وزیر خارجہ ہیں۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ ہمارے وزیراعظم راجہ صاحب کو اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کیلئے پروگرام دے کر کسی نئی آزمائش میں ڈال دیا گیا ہے۔ ہم راجہ جی کے خیرخواہ ہیں اور انہیں مشورہ دیں گے کہ وہ نیویارک آ کر صرف سلامتی کونسل کے اجلاس کی صدارت اور اس کی فوٹوگرافی کے ریکارڈ و اعزاز بنانے پر ساری توجہ مرکوز نہ رکھیں جبکہ مکمل تیاری کے ساتھ آئیں۔ یہاں کے صحافیوں کی عالمی برادری کسی سربراہ مملکت یا حکومت کے منصب کا اثر لئے بغیر دوٹوک سوالات پریس کانفرنسوں میں پوچھنے کی عادی ہے۔دنیا بھر کے سفارتکار خاموش اور ملائم روئیے کی لپیٹ میں سوال و جواب، گفتگو اور تبصروں کے شکنجے لئے پھرتے ہیں۔ امریکہ، روس، برطانیہ اور دنیا بھر سے آئے ہوئے تجربہ کار صحافی بڑی بے رحمی سے حالا ت و واقعات کا پوسٹ مارٹم کرتے ہیں لہٰذا وزیراعظم پرویز اشرف کو اپنے اور پاکستان کے مفاد کی خاطر تیاری کر کے آنے کی ضرورت ہے۔ ہم بطور نمونہ چند ممکنہ سوالات کی طرف اشارہ بھی کر دیتے ہیں کیونکہ ہم وزیراعظم صاحب کے بہی خواہ ہیں۔ پہلا سوال تو یہ کہ آپ کی قائد بے نظیر بھٹو کی موت کے بارے میں اقوام متحدہ کی تحقیقاتی رپورٹ کو تسلیم کر کے عملدرآمد کرنے میں آپ کی حکومت نے اب تک کیا کیا؟ صدر زرداری نے سیکرٹری جنرل بانکی مون سے بار بار درخواست اور دباؤ کے ذریعے تحقیقاتی کمیشن قائم کروایا تو پھر کمیشن کے چیئرمین اور اس کے اراکین کی تحقیقات کے سلسلے اسلام آباد میں پی پی پی وزراء نے رکاوٹیں کیوں کھڑی کیں۔ اقوام متحدہ کے اس کمیشن کے اراکین پر دباؤ اور اثر ڈالنے والے صدر زرداری کے رفقاء کو ایسا کرنے کی آزادی کس نے دی تھی؟ رپورٹ تیار ہونے پر اس کو ریلیز کی بجائے ملتوی کرانے اور بالآخر اسے تسلیم کرنے سے انکار اقوام متحدہ کی توہین نہیں؟ بے نظیر کی موت اور سیاست کی ورثہ دار حکومت پانچ سال سے اقتدار میں ہے مگر بی بی کے قاتل ابھی تک آزاد ہیں اور صدر زرداری کا دعویٰ ہے کہ وہ قاتلوں کو جانتے ہیں؟ آپ کی حکومت عام شہری کو تحفظ، روزگار، انسانی مساوات فراہم کرنے میں ناکام کیوں ہے؟ بہرحال وزیراعظم پرویز اشرف کی نیویارک آمد اور ان کے داماد کی سرعت رفتار ترقی اور واشنگٹن آمد، بیک وقت خوش آمدید۔
تازہ ترین