• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ترکی کے شہر استنبول کا قدیم علاقہ7پہاڑیوں پر بنا ہوا ہے، یہی وجہ ہے کہ استنبول کو ’’سات پہاڑیوں کا شہر‘‘ بھی کہا جاتا ہے۔ ہر پہاڑی کی چوٹی پر ایک مسجد بنائی گئی ہے۔ شہر کی سیر کرتے ہوئےآپ کو ہر طرف اسلامی تاریخ جابجابکھری نظر آئے گی۔ استنبول، دریا کے ایک طرف یورپ جبکہ دوسری طرف ایشیا سے ملتا ہے۔ خوبصورتی میں بے مثال ہے یہ شہر سیاحوں کی توجہ کا خاص مرکز ہے۔ترکی کا اہم تجارتی ، سیاحتی اور ثقافتی مرکز صدیوں پرمحیط انمول تاریخی ورثے سے مالامال ہے ۔ سمندر کے ساتھ ساتھ حسین پہاڑوں پر بنے خوبصورت مکانات ، بحیرہ مرمر اور بحیرہ اسود کے سنگم پر واقع آبنائے باسفورس سیاحوں کی توجہ کا مرکز ہیں ۔ قدیم فن تعمیرات سے مزین خوبصورت ، حسین اور شاہکار عمارتیں تحقیق کے دلدادہ افراد کی نگاہوں کا مرکز ہیں ۔

اس عظیم تاریخی شہر کو یونانی، رومی اور مسلمان سلطنتوں کے ادوار میں دارالخلافہ ہونے کے باعث ہمیشہ اہمیت حاصل رہی ۔ زمانہ قدیم میں استنبول کو قسطنطنیہ کہا جاتا تھا۔ یہ بازنطینی سلطنت سے بھی مشہور ہوا ۔ شہر میں جگہ جگہ سلطنت روم اور سلطنت عثمانیہ سمیت مختلف ادوار کی نشانیاں نظر آتی ہیں، تاہم تاریخی قلعہ کی دیواریں اب شہر کے درمیان آچکی ہیں۔ جیسا کہ ہم نے بتایا کہ استنبول براعظم ایشیا اور براعظم یورپ کے سنگم پر واقع ہے، اسی وجہ سے یہاں کے مقامی افراد کے طرز زندگی پر یورپ کی چھاپ نظر آتی ہے۔

آپ دلکش و آرام دہ کشتی میں آبنائے باسفورس کا سفر شروع کریں گےتو خوبصورت سرسبز پہاڑوں اور جدید و قدیم تعمیرات کے حسین امتزاج میں گم ہو جائیں گے۔ قدرتی حسن سے مالامال آبنائے باسفورس کے کنارے بنی خوبصورت عمارتیں نہایت دلفریب منظر پیش کرتی ہیں۔

حضرت ابو ایوب انصاری ؓ  کا مزار

اس مزار کے خوبصورت نقش و نگار بھی آپ کو اپنے سحر میں جکڑ لیںگے۔ مزار کے ساتھ ایک جامع مسجد اور مدرسہ بھی ہے۔ حضرت ابو ایوب انصاری ؓ کے مزار کے تین حصے ہیں۔ جامع ایوب، مزار ایوب اور قبرستان ایوب۔ جامع ایوب کے ایک کمرے میں سبز چادر میں لپٹا ہوا ایک علَم بھی ہے، جس کے متعلق کہا جاتا ہے کہ یہ وہ تاریخی علم ہے جسے حضرت ابو ایوب انصاری ؓ غزوات اور جنگوں میں اٹھایا کرتے تھے۔

توپ کاپی میوزیم

استنبول کا ’توپ کاپی پیلس‘ اسلامی تاریخ کے سب سے قیمتی اور اہم ترین اثاثے کے حوالے سےدنیا کا منفرد میوزیم ہے، جہاں انمول اثاثے محفوظ ہیں، جن میں نبی کریم ﷺ کی مہرنبوّت سمیت مقدس اشیا ، آپ ﷺ کی بیٹی حضر ت فاطمہ زہراؓ اور نواسہ رسول حضرت امام حسین ؓ کے لباس نہایت سلیقے سے رکھے ہوئے ہیں۔ ان قیمتی نوادرات کی زیارت کرکے آپ کو اپنے نصیب پر رشک آئے گا۔

نیلی مسجد

سلطان احمد کے نام سے منسوب اس مسجد کے گنبد اور ستون انفرادیت کی وجہ سے فن تعمیر کا ایک نادر نمونہ ہیں۔ اس کے علاوہ آبنائے باسفورس کے کنارے پہاڑ پر تعمیراتی شاہکار، سلیمان مسجد بھی سیاحوں کی توجہ کامرکز بنی رہتی ہے۔ یہاں آنے والے سیّاح مسلمانوں کے فن تعمیر کے جوہر دیکھ کر دنگ رہ جاتے ہیں۔سلطان سلیمان عالیشان کے نام سےمنسوب اس مسجد کے ساتھ ہی سلطان سلیمان اور دیگرحکمرانوں کے مقبرے بھی ہیں۔ یہاں اکثر مساجد میں درمیانی گنبد ہوتا ہے اور اُس کے اطراف میں کھڑے مینار دور سے نمایاں نظر آتے ہیں۔ یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ نیلی مسجد کو تلاش نہیں کرنا پڑتا بلکہ مسجد خود آپ کو تلاش کر لیتی ہے۔

حاجیہ صوفیہ

نیلی مسجد کے بالمقابل ایک اور شاندار عمارت موجود ہے، جسے حاجیہ صوفیہ کہا جاتا ہے۔ یہ میوزیم پہلے ایک چرچ ہوا کرتا تھا، بعد میںاس کی جگہ ایک مسجد بناد ی گئی۔4صدی عیسوی کے دوران یہاں تعمیر ہونے والے گرجے کی باقیات اب موجود نہیں۔ پہلے چرچ کی تباہی کے بعد قسطنطین اوّل کے بیٹے قسطنطین ثانی نے اسے دوبارہ تعمیر کیا، تاہم 532ء میں یہ گرجا بھی فسادات و ہنگاموں کی نذر ہو گیا۔ اسے جسٹینین اول نے دوبارہ تعمیر کرایا اور 27 دسمبر 537ء کو یہ مکمل ہوا۔یہ گرجا اشبیلیہ کے گرجے کی تعمیر تک 1000 سال سے زیادہ عرصہ تک دنیا کا سب سے بڑا چرچ رہا۔حاجیہ صوفیہ نےمتعدد لزلوں کا سامنا کیا ، جس میں 558ء میں اس کا گنبد گرگیا اور 563ء میں اس کی جگہ لگایا جانے والا دوسرا گنبد بھی تباہ ہو گیا۔ 989ء کے زلزلے میں بھی اسے نقصان پہنچا۔1453ء میں قسطنطنیہ کی عثمانی سلطنت میں شمولیت کے بعد حاجیہ صوفیہ کو ایک مسجدکی شکل دی گئی اور اس کی یہ حیثیت 1935ء تک برقرار رہی۔ بعد میں کمال اتاترک نے اسے عجائب گھر کی شکل دے دی۔

تازہ ترین