• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

گزشتہ دنوں پاکستان ڈیری ایسوسی ایشن کے سینئر نائب صدر اور ایک فوڈز کمپنی کے سی ای او میموش خواجہ خصوصی طور پر لاہور سے پاکستان کی ڈیری صنعت پر مجھے پریزنٹیشن دینے فیڈریشن ہائوس آئے جس میں انہوں نے پاکستان میں ڈیری صنعت کے پوٹینشل اور اسے درپیش مسائل سے آگاہ کیا۔ پاکستان کی ڈیری صنعت میں بتدریج ترقی یقیناً ایک کامیاب اسٹوری ہے جس کو میں آج اپنے قارئین سے شیئر کرنا چاہوں گا۔

ڈیری صنعت لائیو اسٹاک سیکٹر کا ایک اہم حصہ ہے۔ لائیو اسٹاک کا ملکی جی ڈی پی میں حصہ 11.3فیصد ہے اور یہ سیکٹر دودھ اور گوشت کے علاوہ چمڑے، قالینوں اور اون کی صنعتوں کیلئے خام مال مہیا کرنے کا اہم ذریعہ ہے۔ جسکا ملکی برآمدات میں حصہ 8.5فیصد ہے۔ لائیو اسٹاک دیہی علاقوں کے تقریباً 9ملین چھوٹے درجے کے کاشت کاروں اور غریب ہاریوں کی آمدنی کا سب سے بڑا ذریعہ ہے۔ ملک کے بارانی علاقوں میں بارشیں نہ ہونے کی وجہ سے خراب فصلوں یا زیادہ بارشوں سے فصلوں کے تباہ ہونے کی صورت میں لائیو اسٹاک انہیں سماجی تحفظ فراہم کرتا ہے۔ پاکستان کے دیہی علاقوں میں ہر گھرانے کے پاس ایک سے 6مویشی اور بھینسیں ہیں جو ملک کا تقریباً 91.4فیصد ہے جبکہ ملک میں 30سے زیادہ مویشیوں اور بھینسیں رکھنے والے فارموں کی تعداد تقریباً 30ہزار ہے۔ لائیو اسٹاک کے ایک سروے کے مطابق پاکستان میں بھینسوں کی تعداد تقریباً پونے چار کروڑ، بھیڑوں کی تعداد تین کروڑ، بکریوں کی تعداد ساڑھے سات کروڑ، اونٹوں کی تعداد گیارہ لاکھ، گھوڑوں کی تعداد ساڑھے تین لاکھ، خچروں اور گدھوں کی تعداد ساڑھے تینتالیس لاکھ ہے جس میں سے پنجاب میں 64فیصد، سندھ میں 26فیصد، خیبر پختونخوا سات فیصد جبکہ باقی تین فیصد بلوچستان اور دیگر علاقوں میں پائے جاتے ہیں۔

پاکستان ایک زرعی ملک ہے اور ملک میں دودھ دینے والے مویشیوں کی بڑی تعداد پائی جاتی ہے۔ مشرف دور میں ڈیری شعبے کو فروغ دینے کیلئے مختلف اصلاحات کی گئیں جس کے نتیجے میں کئی بین الاقوامی کمپنیوں نے پاکستان میں ڈیری کے شعبے میں سرمایہ کاری کی اور آج 14سے زائد ملٹی نیشنل اور مقامی کمپنیاں اس شعبے سے منسلک ہیں اور پاکستان دنیا میں تیسرا بڑا دودھ پیدا کرنیوالا ملک بن چکا ہے۔ حفظانِ صحت کے اصولوں کے پیش نظر دنیا کے ترقی یافتہ ممالک میں کچے اور کھلے دودھ کی فروخت قانوناً ممنوع ہے اور وہاں صرف پروسیس پیک دودھ ہی فروخت کیا جا سکتا ہے۔ پاکستان میں بھی کئی ملٹی نیشنل کمپنیوں نے مختلف گائوں میں دودھ کی وصولی اور اسے تازہ رکھنے کیلئے کولڈ اسٹوریج بنائے ہیں جہاں دودھ کو پروسیس کرکے زیادہ عرصے تک قابلِ استعمال بنایا جاتا ہے۔ سعودی عرب، متحدہ عرب امارات، ایران، ملائیشیا اور فلپائن میں پائوڈر اور پیک دودھ کی بڑی مانگ ہے اور پاکستان ان ممالک کی دودھ کی ضروریات کو پورا کر سکتا ہے۔

پاکستان میں پیک دودھ کی صنعت کی مالیت 120 ارب روپے ہے اور ڈیری صنعت کا جی ڈی پی میں حصہ 225ارب روپے ہے جبکہ یہ صنعت قومی خزانے کو 6.5ارب روپے ٹیکس ادا کرتی ہے۔ دیہاتوں میں 40فیصد سے زیادہ لوگ لائیو اسٹاک کے شعبے سے منسلک ہیں۔ پاکستان میں اس وقت دودھ کی پروسیسنگ کے 15پلانٹس ہیں جس کی وجہ سے فروخت میں سالانہ 4.5فیصد اضافہ ہو رہا ہے۔ پاکستان میں دودھ کے پوٹینشل اور ڈیری صنعت کے فروغ کیلئے مشرف حکومت نے ’’سفید انقلاب‘‘ کا اعلان کیا تھا جس میں پاکستان میں پیدا ہونے والے دودھ اور اس کے ڈیری پروڈکٹس کی جدید تکنیکی طریقوں سے تیاری اور مارکیٹنگ شامل تھی۔ بھارت کی طرح پاکستان میں بھی کئی بڑے ٹیکسٹائل گروپس نے ڈیری فارمنگ کے شعبے میں جدید بنیادوں پر سرمایہ کاری کی ہے۔ انہوں نے آسٹریلیا اور نیوزی لینڈ سے گائیں درآمد کر کے پاکستانی گائیوں کے ساتھ کراس بریڈ کے ذریعے زیادہ دودھ دینے والی نسل پیدا کی ہے جنہیں اچھا چارہ اور درجہ حرارت دے کر دودھ کی فی کس پیداوار میں اضافہ کیا گیا ہے۔ ایک تخمینے کے مطابق پاکستان سالانہ 43ملین ٹن دودھ پیدا کر رہا ہے جو 72فیصد بھینسوں، 24فیصد گائیوں اور 4فیصد بکریوں سے حاصل کیا جاتا ہے جس کی مالیت تقریباً 1700ارب روپے بنتی ہے۔ ملک میں کچے دودھ کی سالانہ کھپت 35ملین ٹن سے زائد ہے جس میں سے تقریباً 58فیصد کچا دودھ شہروں کو اسپلائی کیا جاتا ہے۔ کراچی میں دودھ کی یومیہ کھپت 4ملین لیٹر اور لاہور میں 3ملین لیٹر سے زائد ہے۔ کچے دودھ میں ملاوٹ کی وجہ سے پیک دودھ کی طلب میں تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے جبکہ گزشتہ دورِ حکومت میں پنجاب نے آئندہ پانچ سالوں میں کھلے دودھ کی اسپلائی پر پابندی کا اعلان کیا تھا۔ بھارت دنیا میں دودھ پیدا کرنے والا دوسرا بڑا ملک ہے اور بھینسوں کے دودھ کی پیداوار میں دنیا میں پہلے نمبر پر ہے۔ دنیا میں دودھ پیدا کرنے والے 10بڑے ممالک میں امریکہ، بھارت، چین، پاکستان، برازیل، جرمنی، روس، فرانس، نیوزی لینڈ اور ترکی شامل ہیں۔ کچھ سال قبل تک بھارت میں ایک گائے 1200لیٹر دودھ دیتی تھی لیکن بھارت نے غیر ملکی ماہرین کی خدمات اور جدید ٹیکنالوجی حاصل کرکے اپنی پیداوار 3000لیٹر تک بڑھالی ہے جبکہ یورپ میں آسٹریلیا اور نیوزی لینڈ میں ایک گائے 5000لیٹر دودھ دیتی ہے جبکہ اس کے مقابلے میں پاکستان میں ایک گائے صرف 1000لیٹر دودھ دیتی ہے جو نہایت کم ہے۔ اس سلسلے میں آسٹریلین ٹریڈ کمشنر اور آسٹریلیا کی ہائی کمشنر مارگریٹ ایڈمسن نے لاہور اور کراچی میں پاکستان میں ڈیری کی صنعت کے فروغ کیلئے 2رائونڈ ٹیبل کانفرنسز میں حصہ لیا اور ڈیری سینٹر آف ایکسی لینس (COE) کا نظریہ پیش کیا۔ ملک میں گوشت اور دودھ کے استعمال میں روز بروز اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ حلال مصنوعات انسانی صحت کے لئے مفید ہونے کی وجہ سے ان کی طلب صرف مسلمانوں تک محدود نہیں، یورپ میں حلال پروڈکٹس کا بزنس تقریباً 66ارب ڈالر ہے جس میں سے17ارب ڈالر سے زائد صرف فرانس کا ہے جبکہ برطانیہ میں 600ملین ڈالر کا حلال گوشت سالانہ فروخت کیا جاتا ہے۔ امریکی مسلمان تقریباً 13ارب ڈالر سالانہ حلال فوڈز پر خرچ کرتے ہیں۔ خلیجی ممالک کی حلال فوڈ کی درآمدات سالانہ تقریباً 44ارب ڈالر کی ہیں۔ بھارت میں حلال فوڈ کی فروخت 21ارب ڈالر سالانہ جبکہ انڈونیشیا میں حلال پروڈکٹس کی درآمدات 70ارب ڈالر سالانہ سے زائد ہے۔ اگر ہم ملائیشیا کی طرح حلال برانڈ کی مارکیٹنگ کی حکمت عملی اپنائیں تو بلاشبہ ہمارا لائیو اسٹاک سیکٹر ملکی خوراک کی ضروریات پوری کرنے کیساتھ ساتھ خطیر زرمبادلہ کمانے کا اہم ذریعہ بن سکتا ہے۔

تازہ ترین