• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
,

اربوں ڈالر کے معاہدے: سعودی ولی عہد کا دورہ پاکستان کی معاشی تقدیر بدل دے گا

سعودی ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان کی آمد کے موقع پر وفاقی دارلحکومت اسلام آباد میں ہونے والی تمام مصروفیات ، اقدامات اور گہما گہمی معزز مہماناں کے حوالے سے ہی تھیں سرکاری سطح پر ہونے والے استقبال کی تاریخ تو رقم ہوئی ہی تھی لیکن اسلام آباد کے موسم نے بھی مہمانوں کا شاندار خیر مقدم کیا۔ اسلام آباد نے حق میزبانی ادا کیا تو خصوصی مہمان نے بھی پاکستان اور اہل پاکستان سے دوستی کا حق ادا کردیا ۔ ایک طرف تو 80کھرب روپے کی سرمایہ کاری کے معاہدے تو دوسری طرف پاکستانی عوام سے دیرینہ تعلق کے اظہار کی مثالیں۔ اربوں ڈالر کی سرمایہ کاری سے یقیناً پاکستان کی معاشی تقدیر بدل جائے گی، سعودیہ ولی عہد کا دورہ پاکستان کی معاشی مشکلات ختم کرنے میں اہم کردار اداکرے گا ۔ وزیراعظم عمران خان نے سعودی عرب کی جیلوں میں معمولی جرائم کی طویل عرصے سے سزائیں بھگتنے والے پاکستانی قیدیوں کی رہائی کے لیے درد مندانہ درخواست کی تو اُس پر ولی عہد نے اسلام آباد سے ہی اقدامات کرنے کے شاہی احکامات جاری کردیئے۔ ایوان صدر اور وزیراعظم ہاؤس میں ہونے والی پُرشکوہ تقریبات بھی یادگار تھیں تاہم اگر ان تقاریب میں جمہوری روایات کے پیشِ نظر اپوزیشن قیادت کو بھی مدعو کرلیا جاتا تو ان تقریبات میں یادگار اضافہ ہوجاتا، ایک موقع پر اس حوالے سے آصف علی زرداری، میاں نوازشریف، اسفند یارولی خان اور اپوزیشن کے مرکزی پارلیمینٹرینز کو مدعو کرنے پر مشاورت بھی ہوئی تھی لیکن اس تجویز کی مخالفت کرنے والے وزراء کا پلہ بھاری رہا۔ یہ الگ بات ہے کہ اس تجویز کی مخالفت میں پیش پیش ایک وزیر کووزیراعظم ہاؤس میں ہونے والی تقریب میں مدعو نہیں کیا گیا تھا جو بعد میں ایوان صدر کی تقریب میں ضرور دیکھے گئے ۔ البتہ چیئرمین سینٹ صادق سنجرانی کی سربراہی میں ایک پارلیمانی وفد نے سعودی ولی عہد سے ملاقات کے دوران جس میں قائد ایوان راجہ محمد ظفرالحق بھی موجود تھے ۔ انہوں نے ولی عہد کے سامنے سابق وزیراعظم میاں نواز شریف اور شہباز شریف کی جانب سے سعودی ولی عہد کے لیے نیک تمناؤں کا اظہار کیا۔ اس موقع پر سینیٹر مشاہد اللہ خان نے ولی عہد کو بتایا کہ کچھ دیر پہلے ہی اُنہیں بھی نواز شریف اور شہباز شریف کا پیغام ملا ہے جس میں انہوں نے ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان کے لیے نیک خواہشات کا اظہار کیا ہے جس پر ولی عہد نے سابق وزیراعظم اور سابق وزیراعلیٰ پنجاب کا شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا کہ ’’وہ اُن کے دل میں بستے ہیں‘‘۔ یہاں یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ سعودی ولی عہد کے دورہ پاکستان کے حوالے سے اپوزیشن کے تمام اہم سیاستدانوں نے اُن کی آمد کا پرجوش خیرمقدم کیا اور نہ صرف اُن کے لیے بہترین خیالات اور جذبات کا اظہار کیا بلکہ اُن کے قیام کے دوران حکومت کے لیے بھی اپنی مخالفانہ بیان بازی کی توپیں خاموش رکھیں لیکن اُن کی روانگی کے ساتھ ہی سیاسی وضعداری بھی ختم ہوئی اور اپوزیشن نے اس حوالے سے وضع کی گئی حکمت عملی کو بھی خیرباد کہہ دیا جس کے کچھ مناظر تو قومی اسمبلی کے اجلاس میں نظر آئے اور بہت سے بیانات میں اور اب نظرآرہا ہے کہ ابھی یہ سلسلہ خاصی دیر تک چلے گا۔ ہر چند کہ سعودی ولی عہد کی اسلام آباد آمد سے قبل مسلم لیگی قیادت میاں نواز شریف کو جیل سے ہسپتال اور میاں شہباز شریف کو آشیانہ ہاؤسنگ سوسائٹی اور رمضان شوگر ملز کیسز درخواست منظور کرکے اُنہیں رہا کردیا گیا تھااور جس وقت سعودی ولی عہد پاکستان آئے میاں نواز شریف اور میاں شہباز شریف کی حیثیت مختلف تھی’’ لیکن یہ کچھ ہی دیر کی بات تھی‘‘اور معاملات دوبارہ سے شروع ہوگئے۔ ڈیل اور ڈھیل کی قیاس آرائیوں کے بعد اب دعویٰ یہ کیا جارہا ہے پہلے میاں نواز شریف بغرض علاج بیرون ملک اور پھر مریم نواز اُن کی دیکھ بھال کے لیے اُن کے پاس جائیں گے۔ وفاقی حکومت کو سندھ میں پاکستان پیپلزپارٹی کو غیرمستحکم کرنے کی کوششوں میں ہزیمت کا سامنا کرنا پڑا ہے اور وزیراعلیٰ سندھ مراد علی شاہ کو استعفیٰ دینے کی دھمکی بھی کارگر ثابت نہیں ہوئی بلکہ یہ سارا عمل ’’فائر بیک‘‘ ہوا ہے دوسری طرف اپوزیشن لیڈر میاں شہباز شریف کو پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کی چیئرمین شپ سے ہٹانے کا معاملہ بھی وفاقی حکومت کیلئے باعث ندامت بن رہا ہے کیونکہ حکمران اتحاد اکثریت کی بنیاد پر عدم اعتما کرکے چیئرمین کو ہٹا سکتا ہے ، لیکن ایک ایسی صورتحال میں جب حکمران پارٹی کی اکثریت محض ایک یا دو ووٹ ہیں اس کے باوجود حکومت یہ کوشش نہیں کرسکی۔ عدالتوں کی جانب سے ضمانت ہوجانے کے بعد حکومت کی جانب سے شہباز شریف کو کمیٹی کی چیئرمین شپ سے ہٹانے کا جو جواز پیش کیا جارہا تھا وہ بھی اب ختم ہوگیا ہے اور سب سے بڑھ کر شیخ رشید احمد جو شہباز شریف کے حوالے سے اس بات کے دعویدار تھے کہ انہیں وزیراعظم عمران خان نے پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کارکن نامزد کردیا ہے اور اب وہ کمیٹی میں رکن کی حیثیت سے شرکت کریں گے۔ لیکن ایسا ہونا تو دور کی بات شیخ صاحب کو لینے کے

دینے پڑ گئے۔ ریاض فتیانہ نے کمیٹی کے رکنیت سے دستبردار ہونے سے انکار کردیا بلکہ شیخ صاحب کو کمیٹی کارکن بنانے ہی کی مخالفت کردی۔ پھر راجہ ریاض نے بھی شیخ رشید کے خلاف ڈٹ کر بیان دیا۔ واضح رہے کہ ریاض فتیانہ مسلم لیگ (ن) اور مسلم لیگ (ق) سے پاکستان تحریک انصاف میں شامل ہوئے اور راجہ ریاض پاکستان پیپلزپارٹی سے ۔۔۔پھر پاکستان تحریک انصاف کے بعض خالص ارکان نے بھی جنہیں قومی اسمبلی کے اسپیکر اسد قیصر کی حمایت حاصل ہے وہ بھی نہ صرف شیخ رشید کو پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کا رکن بنانے کے حق میں نہیں بلکہ میاں شہباز شریف کو بھی کمیٹی کی چیئرمین شپ سے ہٹانے کے حق میں نہیں ہیں اس کی وجہ بھی قابل فہم ہے۔ قومی اسمبلی کے ایوان میں اپوزیشن اس بات پر متحد ہے کہ اگر میاں شہباز شریف کو کمیٹی کی چیئرمین شپ سے ہٹایا گیا تو اپوزیشن جماعتیں قومی اسمبلی کی تمام قائمہ کمیٹیوں کا بائیکاٹ کریں گی اور ایوان کی کاروائی کسی صورت بھی نہیں چلنے دی جائے گی جبکہ حکمت عملی یہ بھی طے کی گئی ہے کہ ایسی صورتحال میں وزیراعظم عمران خان جب بھی ایوان میں آئیں گے ان کے خلاف احتجاج کیا جائے گااور اُنہیں تقریر بھی نہیں کرنی دی جائے گی۔ یہ صورتحال قومی اسمبلی کے اسپیکر اسد قیصر کے لیے خاصی پریشان کن ہے۔ مولانا فضل الرحمان پارلیمانی سیاست سے باہر سہی لیکن وہ سڑکوں پر ضرور ہیں اور انہوں نے گزشتہ چند ماہ میں ملک کے مختلف شہروں میں ملین مارچ کرکے اپنی سیاسی قوت کا مظاہرہ کیا ہے۔ 

تازہ ترین
تازہ ترین